1
Wednesday 18 Mar 2020 12:33

دوحہ معاہدہ یا امن کے نام پر دھوکہ؟

دوحہ معاہدہ یا امن کے نام پر دھوکہ؟
تحریر: قاسم رضوی

حق اور باطل میں ایک ہی امتیاز ہے کہ حق عین حقیقت کے مطابق ہوتا ہے اور باطل حقیقت کو چھپانے کی موہوم کوشش ہوتی ہے، اہل نفاق و باطل کبھی وفاداریاں تبدیل کر کے، کبھی حق سے محاذ آراء ہو کر کبھی حق کی حمایت سے دست کش ہو کر مارقین، قاسطین اور ناکثین کا کردار ادا کرتے رہے اور کرتے رہیں گے۔ ان سے مقابلے کیلئے مومنانہ فراصت کی ضرورت ہے، جس پر عمل پیرا ہو کر شناخت حق، معرفت حق اور عرفان حق حاصل کیا جائے۔ باطل ہمیشہ اپنی چالیں بدل بدل کر چلتا ہے لیکن 27 فروری 2020ء کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونیوالا افغانستان امن معاہدہ امریکی انتظامیہ اور طالبان کے درمیان ہوا۔ جو سراسر فریب اور دھوکہ ہے کیونکہ ہمیشہ کی طرح طاقت کے نشے میں چُور امریکہ نے اصل فریق افغان حکومت کو اعتماد نہیں لیا بلکہ اسی طرح جس طرح ’’صدی کی ڈیل‘‘ میں فلسطین اور اسرائیل کے مسئلے میں حماس اور جہاد اسلامی کو شامل نہ کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی ’’دوحہ امن معاہدے‘‘ کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ اس چار نقاطی معاہدے کی دو اہم شقیں افغان صدر اشرف غنی کے بیان سے پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی تھیں کہ طالبان نے افغان فورس پر حملہ کیا اور پھر عبدالعلی ہزاری برسی کے اجتماع پر حملہ کر کے درجنوں بےگناہ شہریوں کو شہید کر کے عملاً عمن معاہدے کو تہس نہس کر دیا۔

اس معاہدے کی چار اہم شقیں تھیں جن پر عمل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ پہلی شق یہ کہ انہوں نے 10 مارچ تک 5000 طالبان کو رہا کیے جانے کی انہوں (افغان حکومت) نے کوئی یقین دہانی نہیں کروائی تھی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت 10 ہزار طالبان قیدی افغان حکومت کے پاس موجود ہیں جن کو رہا کرنا دہشت گردی کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔ دوسری شق یہ کہ افغانستان کی سرزمین امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے مفادات کیخلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔ اگر یہ شق تسلیم کرنی تھی تو 2001ء میں کر لی جاتی اور یوں لاکھوں جانوں کا نقصان اور اربوں کے مالی نقصان کے بعد یہ شرط تسلیم کرنا طالبان کی کامیابی ہرگز قرار نہیں دی جا سکتی ہے بلکہ انتہائی غیر دانشمندانہ اقدام قرار دیا جا سکتا ہے۔ تیسری شق افغانستان میں مستقل امن کیلئے روڈ میپ دیا جائے گا، جن کی کوئی تاریخ اور اقدامات کا ذکر تک نہ ہے کہ غیر ممالک کی افواج کب تک نکل جائیں گی اور ان کے بعد امن کا ضامن کون ہوگا؟ چوتھی شق کہ مذکورہ بالا تمام اقدامات 135 دنوں میں مکمل ہوں گے، بقول ٹرمپ اگر افغان حکومت اور طالبان اپنے وعدوں پر قائم رہے تو بیل امن کی منڈھیر چڑھے گی، جو چڑھتی ہوئی نظر نہیں آ رہی، کیونکہ ٹرمپ نے کہہ دیا ہے کہ مستقل امن افغان حکومت کی ذمہ داری ہوگا۔ اور اہم شق غیر ممالک میں عالمی سطح پر طالبان لیڈروں پر عائدپابندیاں ختم کی جائیں گی مگر کیسے؟ کیونکہ اس امن معاہدے کے پیچھے نفاق اور عالمی دہشت گرد امریکہ کی اخلاقیات سے ماورا سازشیں صاف دکھائی دے رہی ہیں۔

وہ اس خطے میں مشرق وسطیٰ میں جاری جنگوں عراق، یمن، شام اور لبنان میں ایران سے مسلسل شکست پر شکست کھانے کے بعد امریکہ اس دھوکے باز معاہدے کے ذریعے ایران کو تنہا کرنا چاہتا ہے اور یہ کوئی نئی سازش نہیں، انقلاب اسلامی 1979ء سے اس انقلاب کو برآمد ہونے سے روکنے کیلئے عالمی مسلمہ قوانین کے برعکس امریکہ مسلسل اقدامات کرتا چلا آ رہا ہے۔ کبھی ایران کیساتھ ایٹمی معاہدہ کرکے توڑ کر بلا جواز، کبھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف فلسطین کے بجائے اسرائیل کی حمایت کر کے، کبھی عالمی گروہوں داعش کو پروان چڑھا کر اور کبھی طالبان سے معاہدے ختم کر کے اور اب دوحہ میں ان سے نہ صرف معاہدہ کیا جاتا ہے بلکہ طالبان کو امارت اسلامی افغانستان کے نام سے تسلیم کیا جاتا ہے اور انکار بھی کیا جاتا ہے؟ تو پھر 19سالہ جنگ طالبان سے کیوں لڑی گئی تھی؟ اب کون جواب دے۔ لاکھوں جانوں کے ضیاع کا خواہ وہ 9/11 کے ملزمان حوالے نہ کرنے پر افغانستان سے کی گئی اور ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کا بہانہ بنا کر عراق سے لڑی گئی ہو اور دونوں ممالک کا انفرا سٹرکچر تباہ کر دیا گیا ان جرائم کی سزا دنیا کی کون سی عدالت دے گی؟ امریکی لونڈی UNO یا امریکی لونڈی OIC جس کو کچھ دکھائی نہیں دیتا۔

اس معاہدے کا فائدہ اگر کسی کو ہوگا تو وہ امریکہ، اسرائیل یا اتحادی فورسز کو ہوگا کہ ان کی افواج بحفاظت اپنے اپنے ممالک میں چلی جائیں گی اور ٹرمپ کو اپنا آنے والا الیکشن جیتنے کا موقع ملے گا کہ اس نے اپنا انتخابی نعرہ ’’میں غیر ممالک سے اپنی افواج واپس بلوانے کی بھرپور کوشش کروں گا پورا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اور اس معاہدے کے بعد امریکہ اپنے مفادات کا تحفظ طالبان اور افغانستان حکومت کے ذریعے حاصل کرے گا اور پاکستان کو گزشتہ دو دہائیوں کی طرح اب بھی صرف قربانیاں دینی ہوں گی کیونکہ اپنی ناکام ترین خارجہ پالیسی اور ناکام ترین وزیر خارجہ کی موجودگی میں معاشی اور سیاسی طور پر بری طرح جکڑا ہوا ہے۔ اس کا حل صرف اور صرف یہ ہے کہ اگر اس معاہدے کی تمام شقوں کو بذریعہ سلامتی کونسل بین الاقوامی قوانین کا حصہ بنایا جائے گا تو اس کی شرط یہ ہونی چاہئے کہ اس کے عملدرآمد کیلئے اٹھائے جانیوالے اقدامات کے برعکس کسی بھی سپرپاور کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ وہ اپنی ’’ویٹو پاور‘‘ کا استعمال کرے ورنہ اس کا حشر بھی کشمیر اور فلسطین کے مسائل جیسا ہی ہوگا۔ جو صدیاں گزر جانے کے بعد بھی جوں کے توں ہیں۔
انسان کو صرف وہی ملتا ہے جس کی وہ سعی کرتا ہے۔(النجم:۳۹)
خبر کا کوڈ : 850934
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش