0
Tuesday 17 Mar 2020 21:57

پاکستان میں کرونا کا ایپی سینٹر

پاکستان میں کرونا کا ایپی سینٹر
تحریر: سید اسد عباس

پاکستانی حکومت اور محکمہ صحت کے افراد کرونا کے بارے میں بہت محتاط تھے، ہم نے اس وقت احتیاطی تدابیر کا آغاز کیا جب یہ وائرس ہمارے شمال یعنی چین میں آیا۔ چین سے تو ہمارے ملک میں کوئی کیس نہ آسکا، حتی کہ ہمارے وہ طلبہ جو چین میں زیر تعلیم تھے، وہ بھی وطن واپس نہ آسکے، تاہم جب کرونا پوری دنیا بالخصوص ہمارے ہمسایہ ملک ایران، جزیرۃ العرب، یورپ اور امریکا میں پھیلا تو اس کو کنٹرول کرنا یا اپنے شہریوں کو اس سے محفوظ رکھنا ہمارے لیے ممکن نہ رہا۔ یہ بدیہی تھا کہ ہمارے کئی ایک شہری جو ان ممالک میں موجود ہیں، ضرور کرونا وائرس سے متاثر ہوں گے۔ یہی ہوا برطانیہ، امریکا، یورپ، عرب امارات سے آنے والے افراد میں کرونا کے آثار ظاہر ہوئے، تاہم اصل مصیبت تو ہمیں ایران سے آنے والے افراد کی جانب سے درپیش ہے، جہاں ہزاروں کی تعداد میں زائرین تفتان میں جمع کیے گئے اور ان کو وہیں پر قرنطینیہ کیا گیا ہے۔

تفتان سے آنے والی اطلاعات، تصاویر اور ویڈیو رپورٹس انتہائی پریشان کن ہیں۔ وسائل کی عدم دستیابی کہیں یا ہماری نااہلی، ایران سے آنے والے زائرین انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں مہاجرین کی مانند تفتان میں ایک مختصر سے مقام پر مقیم ہیں، جسے حکومت قرنطینیہ قرار دے رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس نام نہاد قرنطینہ میں اس وقت 2300 سے زیادہ زائرین موجود ہیں اور حکام کا کہنا ہے کہ منگل کو دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے دو ہزار زائرین کو ان کے متعلقہ صوبوں میں بھیجا جا رہا ہے۔ زائرین کو فوری طور پر ان کے علاقوں میں بھیجنے کا فیصلہ پیر کو وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں منعقدہ اعلیٰ سطح کے اجلاس میں ہوا تھا۔ یاد رہے کہ یہ زائرین جب ایران سے پاکستان داخل ہوئے تو ان میں سے اکثر صحت مند تھے، تاہم جیسے جیسے یہ اپنے صوبوں اور وہاں قائم قرنطینیہ سینٹرز تک پہنچ رہے ہیں اور ان کے ٹیسٹ ہو رہے ہیں، پاکستان میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

بلوچستان حکومت کی جانب سے تفتان پر کئے گئے انتظامات پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے، جسے حکومت بلوچستان نے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام متاثرین ایران کے ان علاقوں سے آئے تھے، جو کہ کرونا سے زیادہ متاثر ہیں۔ بی بی سی کے مطابق تفتان کے کمشنر ایاز خان مندوخیل کا کہنا ہے کہ زائرین کی روانگی کے سلسلے میں بسوں کی دستیابی ایک بڑا مسئلہ ہے، کیونکہ پہلے جن بسوں میں زائرین کو پنجاب لے جایا گیا تھا، انہیں قرنطینیہ کی شرائط کے باعث واپس نہیں آنے دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ زائرین کو ایک ساتھ پہنچانے کے لیے 65 بسوں کی ضرورت ہے، جو کہ کوششوں کے باوجود فوری طور پر دستیاب نہیں، تاہم پی ڈی ایم نے پہلے مرحلے میں 15 بسوں کا انتظام کیا ہے، جن میں پہلے سندھ سے تعلق رکھنے والے زائرین کو بھیجا جائے گا۔

اس قدر سریع طور پر دنیا میں پھیلنے والی وبا جس سے نمٹنے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل ممالک ناکام ہیں، خیمہ بستی بنا کر اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کرنا بے وقوفی کی علامت نہیں تو اور کیا ہے، 2300 صحت مند انسانوں میں اگر فقط ایک کرونا کیس چھوڑ دیا جائے تو ہمارے خیال میں اس وبا کو ان 2300 افراد میں پھیلنے کے لیے کتنی مدت درکار ہوگی، جبکہ یہ افراد ایک محدود سے علاقہ میں قرنطینیہ کے نام پر محصور ہوں۔ قرنطینیہ کا اگلا مرحلہ بھی نہایت مضحکہ خیز ہے۔ ڈی جی خان پہنچنے والے چھبیس زائرین میں کرونا نکل آیا ہے، جن کو کل ہی تفتان سے ڈی جی خان لایا گیا تھا۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے ٹوئٹر پر نئے مریضوں کی موجودگی کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ حکام پنجاب کے شہر ڈی جی خان میں قرنطینیہ میں رکھے گئے تمام 736 زائرین کا ٹیسٹ کر رہے ہیں جبکہ وہاں تفتان سے آنے والے مزید 1276 زائرین کا بھی ٹیسٹ کیا جائے گا۔ درازندہ کے مقام پر قائم قرنطینیہ مرکز جو تفتان کے قرنطینیہ سے مختلف نہیں ہے، میں ان زائرین کو مزید چودہ روز کے لیے رکھا گیا ہے، جو تفتان میں قائم قرنطینیہ میں مقررہ مدت گزارنے کے بعد پنجاب میں داخل ہوئے تھے۔ خیبرپختونخوا میں تفتان سے لائے جانے والے انیس میں سے پندرہ افراد میں کرونا کے آثار ظاہر ہوچکے ہیں۔

صورتحال نہایت گھمبیر ہے، تازہ ترین اطلاعات تک جب یہ تحریر قلمبند ہو رہی ہے، پاکستان میں کرونا سے متاثرہ افراد کی مصدقہ تعداد 236 تک پہنچ گئی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت سندھ میں 170، پنجاب میں 26، بلوچستان میں 16، خیبر پختونخوا میں 15، اسلام آباد میں چار اور گلگت بلتستان میں کورونا کے تین مریض موجود ہیں۔ خطرناک امر یہ ہے کہ حکومت کا پورا زور تفتان اور وہاں سے آنے والے زائرین پر ہے، جبکہ فضائی سفر کے ذریعے ملک میں آنے والے افراد کو کسی ایسے قرنطینیہ سے نہیں گزارا جا رہا۔ وہ مریض جو خود ہسپتال آرہے ہیں، وہی مصدقہ قرنطینیہ مریضوں کی فہرست میں شامل ہیں، باقی کے افراد متاثرہ ملکوں سے آنے کے باوجود معاشرے میں اپنی نارمل سرگرمیاں برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

کرونا کے طبی اثرات کے ساتھ ساتھ اس کے معاشی اثرات بھی ناقابل تلافی ہیں۔ چین کی معیشت دو ماہ کے تعطل کے بعد بحال ہو رہی ہے، اس بحالی کو بھی مکمل بحالی نہیں کہا جاسکتا، کیونکہ دنیا بھر میں کرونا کے لاک ڈاون کے سبب اب چین کی مصنوعات کی وہ مانگ نہیں رہی، جو عام حالات میں ہوتی ہے۔ امریکا، یورپ، آسٹریلیا کی سٹاک مارکٹس مندی کا شکار ہیں، جن کو سنبھالنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ایسے میں غریب ممالک کی کیا صورتحال ہوگی، یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ مجھے توقع نہیں ہے کہ گرتی ہوئی اس معاشی صورتحال کے تناظر میں بڑی معیشتیں غریب ممالک کے قرضوں کو معاف کرنے یا اقتصادی پابندیوں کے خاتمے کا سوچیں گی۔ انسانیت کا تقاضا تو یہی ہے، جو جس قدر مدد کرسکتا ہے کرے، تاکہ اس عالمی آفت سے پوری انسانیت مل کر نبرد آزما ہوسکے، خدا بھی ہم پر رحم فرمائے اور اس آفت سے انسانیت کو نجات بخشے۔ (آمین)
خبر کا کوڈ : 851183
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش