0
Thursday 19 Mar 2020 21:53

کرونا وائرس، مخالف ممالک کی اقتصاد کے خلاف امریکی سازش

کرونا وائرس، مخالف ممالک کی اقتصاد کے خلاف امریکی سازش
تحریر: عبدالباری عطوان (چیف ایڈیٹر اخبار رای الیوم)

برائے مہربانی ہمیں غیر جانبدار بین الاقوامی فیصلہ چاہئے۔ کیا کرونا وائرس "امریکی" ہے یا "چینی"؟ وائرس پیدا کرنے والی ان امریکی فوجی لیبارٹریز کی حقیقت کیا ہے جو گذشتہ سال کے آخر میں اچانک بند کر دی گئی تھیں؟ میرے وکیل دوست نے سازش آمیز نظریات کے بارے میں مجھ سے کیا کہا ہے؟ جب میں شہید قاسلم سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس کی ٹارگٹ کلنگ کے انتقام میں عراق میں امریکی فوجی اڈوں کی ممکنہ تباہی سے متعلق تحریر لکھنے میں مصروف تھا تو میرے ایک وکیل دوست نے مجھے فون کیا۔ میرا یہ دوست بین الاقوامی وکلا کونسل کا رکن ہے۔ اس نے مجھے ایک ایسے سازش آمیز نظریے (Conspiracy Theory) سے باخبر کیا جس میں کہا جا رہا تھا کہ بہت جلد دنیا بھر میں ایک نیا وائرس پھیلنے والا ہے جس کا نام کرونا وائرس ہو گا۔ یہ وائرس خاص طور پر چین، بڑے یورپی ممالک اور ایران میں پھیلے گا۔ یہ ایسے ممالک ہیں جو موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عائد کی گئی اقتصادی پابندیوں کی زد میں ہیں۔ ان اقتصادی پابندیوں کا مقصد امریکہ مخالف ممالک کی معیشت کو کمزور کرنا اور امریکی معیشت کو مضبوط بنانا ہے۔

میرا یہ دوست اکثر زیادہ منظرعام پر آنے سے گریز کرتا ہے۔ اس نے مزید بتایا کہ ماضی میں دنیا کے مختلف حصوں خاص طور پر مشرق وسطی میں بعض ایسے واقعات رونما ہوئے تھے جن کے بارے میں بہت سے سوال پائے جاتے تھے اور بعد میں واضح ہوا کہ یہ تمام واقعات امریکہ کے سازش آمیز منصوبوں کا نتیجہ تھے۔ میرے دوست نے اس موقف کی دو مثالیں پیش کیں۔ پہلی مثال امریکہ کی جانب سے عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا دعوی تھا۔ دوسری مثال بوسنیا کی جنگ میں مغربی اتحادی فورسز کے بارے میں تھی۔ میرے دوست نے ان اتحادی فورسز میں موجود بعض باخبر ذرائع کے بقول بتایا کہ چار ممالک (تین عرب ممالک اور ایران) کو نابود کرنے کیلئے ایک امریکی منصوبہ پایا جاتا ہے۔ میرے دوست نے جب ان سے ثبوت مانگے تو انہوں نے کہا کہ مستقبل میں تم خود ثبوت دیکھ لو گے۔ فرانس کے سابق وزیر خارجہ رولینڈ ڈوما نے ایک ٹی وی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام میں خانہ جنگی شروع ہونے سے دو سال پہلے بعض برطانوی حکام نے ان سے رابطہ کیا اور ان سے شام سے متعلق اپنے تجربات بیان کرنے کو کہا۔

رولینڈ ڈوما کہتے ہیں کہ جب میں نے اپنے برطانوی دوستوں سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ شام میں سیاسی تبدیلی لانے کیلئے ایک "فوجی منصوبے" پر کام کر رہے ہیں۔ ڈوما نے ان کی پیشکش مسترد کر دی۔ اس بارے میں مثالیں بہت زیادہ ہیں۔ اب کرونا وائرس اور حالیہ دنوں میں چین اور امریکہ کے درمیان شدت اختیار کرتی بیانات کی جنگ کی جانب واپس لوٹتے ہیں۔ ایکدوسرے پر الزامات عائد کرنے کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے امریکی جاسوسی ادارے سی آئی اے پر چین میں کرونا وائرس پھیلانے کا الزام عائد کیا۔ چین نے کہا کہ امریکی فوجیوں نے گذشتہ سال اکتوبر میں کرونا نامی مہلک وائرس چین کے شہر ووہان میں پھیلایا تھا۔ الزامات عائد کرنے کا سلسلہ اس وقت اپنے عروج کو پہنچا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کرونا وائرس کی جگہ "چینی وائرس" کی اصطلاح استعمال کی۔ اسی طرح امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے بھی کئی بار یہی نام استعمال کیا۔ امریکی صدر اور وزیر خارجہ کا یہ اقدام ان کی نسل پرستانہ سوچ اور اخلاق سے عاری شخصیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سلسلے کی آخری کڑی چین ماہرین کی جانب سے وائٹ ہاوس اور امریکی کانگریس سے ایک مطالبے کی صورت میں سامنے آئی۔

چینی ماہرین نے ان امریکی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ حال ہی میں اس میڈیکل ریسرچ لیبارٹری کو بند کرنے کی وجوہات بیان کریں جو امریکی فوج کے زیر نگرانی کام کر رہی تھی اور اس کی سرگرمیاں تیزی سے پھیلنے والی بیماریوں سے متعلق تحقیق پر مشتمل تھیں۔ چین کی نیوز ویب سائٹ "گلوبل ٹائمز" نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کا عنوان "میڈیکل خطرات کے باعث امریکی فوج کی ریسرچ لیبارٹری میں مہلک بیماریوں سے متعلق تحقیقات کی بندش" تھا۔ چینی ماہرین نے اس رپورٹ میں گذشتہ سال 5 اگست کو امریکی اخبار میں شائع ہونے والے ایک مقالے کی جانب اشارہ کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی فوج کی اس ریسرچ لیبارٹری میں ماہرین مختلف قسم کے وائرس کے بارے میں تحقیق کر رہے تھے جن میں "ایبولا" اور "سارس" وائرس بھی شامل تھے۔ جب اس ریسرچ لیبارٹری کو بند کیا گیا تو لیبارٹری کے ترجمان نے بندش کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کی قومی سلامتی کے پیش نظر اس لیبارٹری کو بند کر دیا گیا ہے۔ امریکہ میں 38 ہزار افراد ایک پراسرار وائرس میں مبتلا ہونے کے باعث مارے گئے جبکہ امریکی حکومت نے ان تمام افراد کی موت کی وجہ "اینفلوینزا" قرار دے دی تھی۔ امریکی حکومت نے یہ دعوی اصل حقیقت کو چھپانے کیلئے کیا تھا۔

چینی باشندے گذشتہ ہزاروں برس سے چمگادڑ، کتا، بلی اور چوہا کھاتے آ رہے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہم عرب افراد ٹڈی دل، چھپکلی اور حتی ہیج ہاگ کھاتے آئے ہیں لیکن اب تک امریکیوں کے بقول چمگادڑ میں پائے جانے والے کرونا وائرس نے ہزاروں افراد کی جان نہیں لی تھی۔ خاص طور پر یہ کہ کروڑوں چینی شدید غربت کے عالم میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور وہ برطانوی استعمار کے پنجے میں بھی رہ چکے ہیں۔ وہ اب تک کئی جنگیں، قحط اور افیون بھی دیکھ چکے ہیں جس کے باعث گذشتہ بیس برس تک وہ صرف دن میں تین بار چاول کھانے پر ہی اکتفا کرتے تھے۔ صحیح ہے کہ امریکی محققین یہ حقیقت دریافت کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ چمگادڑ کرونا وائرس کا ایک اہم ترین سورس ہے لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر چمگادڑ یہ وائرس انسان میں منتقل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ حتی یقین سے یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ وائرس ہی انسانوں میں پھیلا ہے جو تجربات کی غرض سے لیبارٹری کے چوہوں میں منتقل کیا گیا تھا۔ اس دعوے کا کوئی علمی ثبوت ابھی تک سامنے نہیں آ سکا۔ ہم ان وجوہات کے بارے میں سوال پوچھ رہے ہیں جن کے باعث یہ وائرس اور وبائی مرض صرف یورپ کے بڑے ممالک جیسے جرمنی، اسپین، فرانس اور اٹلی نیز ایران اور چین میں پھیلی ہے۔

جبکہ بھارت، پاکستان اور دیگر بہت سے جنوبی افریقہ کے ممالک جہاں صحت کا مضبوط نظام بھی نہیں پایا جاتا اس حد تک اس وائرس کی زد میں نہیں آئے۔ بہت زیادہ ابہامات اور پہیلیاں پائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے حقیقی وجوہات تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔ اسی طرح ان حقائق کا جاننے کیلئے بین الاقوامی سطح پر غیر جانبدار تحقیقات کی ضرورت ہے۔ اسی طرح یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول یہ "چینی وائرس" ہے یا چینی حکام کے بقول "امریکی وائرس" ہے؟ جب تک ایسی تحقیقات انجام نہیں پاتیں ہماری نظر میں چینی حکام کا موقف زیادہ معتبر ہے۔ کیونکہ ہمیں امریکہ کے موجودہ صدر، اس کی کابینہ، فاشزم پر مبنی اس کی نسل پرستانہ جنگوں اور تیسری دنیا کے تقریبا تمام ممالک کے خلاف اس کی اقتصادی پابندیوں پر اعتماد نہیں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے دیگر اقوام خاص طور پر عرب ممالک، اسلامی ممالک اور ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکہ کے غریب ممالک کے خلاف "امریکہ پہلے" کا نعرہ متعارف کروایا ہے۔ شاید ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کرونا وائرس کی ویکسین بنانے کے قریب پہنچنے والی جرمن کمپنی کو خریدنے کی کوشش ہمارے دعوے کی اہم ترین دلیل ہو۔ ہم جرمن حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہیں جس نے امریکہ کے اس فاشسٹک اقدام کے سامنے بڑی "نہ" کی ہے تاکہ کرونا وائرس کی ویکسین کی صورت میں اپنی اس اہم دریافت کو کسی قسم کے نسلی امتیاز کے بغیر پوری انسانیت اور دنیا بھر کے انسانوں کی خدمت میں پیش کر سکے۔
خبر کا کوڈ : 851389
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش