0
Sunday 8 Mar 2020 22:20

کرونا وائرس اور اسلامی تعلیمات

کرونا وائرس اور اسلامی تعلیمات
تحریر: محمد علی شریفی

اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے  دنیا کے مختلف ممالک میں کرونا وائرس  کے ذریعے انسانوں سے بہت بڑا امتحان لیا جا رہا ہے۔ خالق کے اس امتحان سے ہزاروں انسانوں کے لقمہ اجل بننے کے بعد بھی روی زمین پر اکڑ کر چلنے والا یہ انسان اب تک اس بیماری کے علل و اسباب کا اندازہ لگانے اور اس کی روک تھام میں ناکام نظر آتا ہے۔ شاید خالق لم یزل ولا یزال سرکشوں کو ان کی اوقات یاد دلانا چاہتا ہے۔ اللہ کے نیک بندوں سے یہ امتحان شاید ایک بڑی حکمت سے خالی نہیں ہوگا۔ (ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی! مولا کے ماننے والے دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں، ان کو اس شر سے محفوظ فرمائے)۔ ترقی یافتہ ممالک کے ماہرین طبابت کی طرف سے وہی  مشورے دیئے جا رہے ہیں، جن کا اعلان 1400 سال پہلے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ علیہم السلام کرچکے ہیں۔ مسلمانوں نے اہل مغرب کی دیکھا دیکھی ہر چیز میں نقالی کرنا شروع کر دی اور دین مبین اسلام کے حفظان صحت کے اصول جو انسانی صحت و سلامتی اور امن و بھائی چارے کے ضامن ہیں، انہیں پس پشت ڈال دیا۔

آج مغرب والے انہی اصولوں کو لے کر ہمیں پڑھا رہے ہیں۔  جب نبی اکرم (ص) اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کی روایات پر لوگوں کو یقین نہیں آیا، آج یہی باتیں دنیائے غرب کی طرف سے بتائی جا رہی ہیں تو سب احتیاطی تدابیر کا سوچ رہے ہیں۔ صفائی و پاکیزگی کے بارے میں جتنی تاکید اسلام کرتا ہے، شاید کسی اور مکتب و مذہب میں نظر نہیں آتی۔ روایت میں نظافت و پاکیزگی کو نصف ایمان اور ہروقت باوضو رہنے کو مستحب قرار دیا ہے۔ کھانا کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونے کو بھی مستحب  اور باعث اجر و ثواب عمل بنایا یے۔ رسول (خدا) فرماتے ہیں علیک باالسِّواکِ عِندَ کلِّ وُضوء "تم پر لازم ہے کہ جب بھی وضو کرو تو مسواک کرو۔" روایت ہے کہ الوُضُوءُ نُورٌ "وضو نور ہے۔" انسان کے ظاہر اور باطن دونوں کو پاکیزہ بناتا ہے۔ اسلام نے سفید لباس پہننے کو مستحب قرار دیا ہے۔ اس کا فلسفہ علماء یوں فرماتے ہیں کہ سفید لباس پر جمع شدہ میل کچیل فوراً نظر آتا ہے، لہذا انسان اپنے آپ کو ہمیشہ صاف سُتھرا اور پاک رکھے۔

اسلام ایک ایسا جامع نظام حیات ہے کہ جس میں بیت الخلاء جانے اور نکلنے کے آداب فلسفے کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ جو چیزیں انسانی صحت و سلامتی سے مربوط ہیں، ان کو ضرور یا واجب، حرام، مستحب یا مکروہ میں شامل کیا ہے۔ روایت میں ہے کہ انسان کو چھینک آرہی ہو تو منہ پر اپنا ہاتھ یا کوئی دوسری چیز رکھے۔ یہ سب صحت انسانی کو مدنظر رکھ کر ہی بتایا گیا ہے۔ ہر وہ چیز جو عقل انسانی کو ضائع کرتی ہے، اسے حرام قرار دیا ہے۔ ان تمام تاکیدات کے باوجود حال ہی میں خود رہبر انقلاب اسلامی نے بھی ڈاکٹروں کی ہدایات پر عمل کرنے کی تاکید فرمائی اور ساتھ ہی  صحیفہ سجادیہ کی دعا نمبر سات کی بھی ہر روز تلاوت کی تلقین فرمائی۔ اس کے باوجود معاشرے میں دو قسم کے لوگ ہر جگہ، ہر وقت افراط اور تفریط کا شکار نظر آتے ہیں۔ ایک خشک مقدس مومن طبقہ جو ہر چیز کو معجزہ اور دعا کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ خداوند متعال نے اس دنیا کے نظام کو علت و معلول اور سبب و مسبب کی سنت الہیٰ پر قائم کر رکھا۔

یعنی ہر چیز کے وجود کے لئے ایک علت کو ضروری قرار دیا ہے۔ اس دنیا میں نظام الہیٰ کچھ اس طرح ہے کہ کوئی بھی کام معجزہ اور کرامت کے ذریعے حل نہیں کرنا ہے، حالانکہ ہر مشکل  کو دعا کے ذریعے سے حل کرنے کی اجازت خود انبیاء اور ائمہ (ع) کو بھی نہیں تھی، جیسا کہ ان کی پاکیزہ زندگیاں ہمارے سامنے ہیں۔ ایسا ہوتا تو انبیاء اور ائمہ (ع) میں سے کسی کو بھی کوئی گزند نہ پہنچتی۔ واقعہ کربلا ہمارے سامنے ہے. آقای محسن قرائتی تاکید کرتے ہیں کہ کبھی بھی کسی کو اس طرح تبلیغ نہ کریں کہ فلاں دعا، فلاں سورہ پڑو تو تمہاری مشکل حل ہو جائے گی۔ یہ غلط طریقہ ہے۔ اگر خدا کی مشیت میں نہیں تھا اور اس کی مشکل حل نہیں ہوئی تو وہ دین کو ہی ناکارہ سمجھ بیٹھے گا، بلکہ یہ کہو کہ فلاں سورہ اور فلاں دعا فلاں مشکل کے لئے موثر ہے، اگر مشیت الہی سے متصادم کوئی امر موجود نہ ہو تو یقیناً اس سورہ یا دعا میں تاثیر ہوگی۔ اسی طرح امیرالمومنین (ع) کو جب ضربت لگی تو صرف حسنین شریفین (ع) سے دعا نہیں کراتے رہے بلکہ اس زمانے کے معروف طبیب، ابن کثیر کندی کو بلایا گیا اور اس نے علاج شروع کیا۔ خود رسول خدا (ص) بھی اپنے زمانے میں لوگوں کو طبیب سے رجوع کرنے کی تلقین فرماتے تھے۔ لہذا دعا اور دوا دونوں ضروری ہیں۔

ڈاکٹری نسخوں اور احتیاطی تدابیر کا مذاق اڑانا عاقل انسانوں کا کام نہیں ہے۔ کسی بھی مرض کے لئے پرہیز، نصف علاج کہا گیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے کسی عالم نے ڈاکٹر ہاریسون کی  کتاب «اصول طب داخلی» کو آگ لگائی تو مرکز مدیریت حوزہ علمیہ قم کی طرف سے باقاعدہ مذمتی بیان جاری کیا گیا اور چند دیگر بڑی شخصیات نے اس کی بھرپور مذمت بھی کی تھی۔ بعض بےخرد افراد کو سوشل میڈیا پر دکھایا گیا کہ حرم کی جالیوں کو چاٹ رہے تھے۔ کیا یہ لوگ کسی بھی مرض کے لئے ڈاکٹر سے رجوع نہیں کرتے۔ جب عقل انسانی کو تالا لگ جائے تو ایسے کام کرتے ہیں اور دنیا کے سامنے تشیع کے چہرے کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ دشمن ہمیشہ ہمارے نقطہ ضعف کو لیکر پروپیگنڈہ کرتا ہے، حالانکہ کسی بھی مذہب اور مکتب کی ترجمانی اس کے اماموں، علماء کے نظریات اور کتب سے ہی ہونی چاہیئے، لیکن دشمن اپنے مقابل کو زیر کرنے کے لئے اس مکتب کے جاہل افراد کی غلط حرکتوں کو پروف اور ثبوت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ان جاہلوں کو اتنا پتہ ہونا چاہیئے کہ یقیناً ہر چیز کا وضعی اثر ہوتا ہے، ہمارے کتنے امام زہر سے شہید ہوئے۔ لہذا نظام الہیٰ کے تحت اگر ان کی مراد پوری نہیں ہوئی تو سب سے پہلے یہی بےخرد طبقہ بےدین بنے گا۔۔

ہمارے ایک محترم فاضل دوست سنا رہے تھے کہ ایک دفعہ گرمیوں میں مشہد مقدس مولیٰ امام رضا (ع) کی زیارت کے لئے گیا ہوا تھا۔ کسی صحن میں بہت بڑا رش تھا۔ میں قریب گیا تو دیکھا لوگ آیت اللہ بہجت کو گھیرے ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے بھی بڑی مشکل سے اپنے آپکو آقا تک پہنچایا اور قریب جا کر اتنا کہا کہ قبلہ میرے لئے دعا کرنا۔ آقا نے سر اٹھایا، میری طرف نگاہ کی اور فرمایا: شما دوا کنید من دعا می کنم۔ یعنی آپ علاج کروائیں میں دعا کرتا ہوں۔ آقا بہجت جیسی عارف ہستی بھی دعا کے ساتھ دوا کے بھی قائل تھے۔ دوسری طرف جو مغرب کا نقّال طبقہ بھی کم نہیں ہے، وہ ہر مشکل کا حل مادی چیزوں میں ڈھونڈتا ہے، حالانکہ بہت سی آیات و روایات شیعہ سنی کتب میں موجود ہیں کہ دعا اور قرآن میں شفاء ہے(خود شان نزول سورہ ھل اتی) کے بارے میں شیعہ سنی مفسرین کا اتفاق نظر ہے کہ جب حسنین شریفین  (ع) بیمار ہوئے تو حضرت علی (ع) اور فاطمہ زہرا (ع) اور گھر کے باقی افراد نے روزہ رکھنے کی نذر کی۔ اس طرح بچوں کو شفا مل گئی. جب نذر پوری کرنے کا وقت آیا تو سب نے روز رکھا ۔۔۔ تو باقی پورا واقعہ۔۔۔۔ یہی سورہ دھر نازل ہوئی۔۔ معتبر کتابوں میں موجود ہے، یہاں بیان کرنا مقصد نہیں۔۔۔۔ لہذا دعا اور دوا دونوں ضروری ہیں۔ یہ ایک دوسرے کی نفی نہیں کرتیں۔
خبر کا کوڈ : 851607
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش