0
Wednesday 11 Mar 2020 22:30

کرونا! تنقید نہیں حل بتایئے

کرونا! تنقید نہیں حل بتایئے
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

کرونا کی ماہیت کو سمجھنے کا عمل ساری دنیا میں جاری ہے، سائنسدان دن اور رات ایک کئے بیٹھے ہیں، لیبارٹریز میں مسلسل کام ہو رہا ہے، مشرق و مغرب میں تحقیقات انجام پا رہی ہیں، عالمی ادارہ صحت آستینیں چڑھا کر میدان میں اترا ہوا ہے، ہزاروں کی تعداد میں ہلاکتیں ہوچکی ہیں، مریضوں کو طبی قید یعنی قرنطینہ میں رکھا جا رہا ہے، ہر ملک میں ریڈیو، ٹیلی ویژن اور ذرائع ابلاغ سے  احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کی بار بار اپیل کی جا رہی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق یہ پھیلتا ہوا وائرس ایک عالمی وبا کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس وقت تک متاثرہ ممالک کی تعدد 185 تک پہنچ چکی ہے، تعلیمی ادارے معطل ہیں، لوگوں کی آمدورفت پر پابندیاں عائد ہیں۔ ایران میں بھی نماز جمعہ تا اطلاع ثانوی معطل ہے، عام اجتماعات اور عوامی محافل پر  پابندی ہے، سعودی عرب نے حج اور عمرہ کے زائرین سے معذرت کر لی ہے۔ امریکہ، اسرائیل، کویت، بحرین، قطر اور عمان سمیت دنیا بھر میں ایک بھونچال آیا ہوا ہے۔ کرونا کی شناخت، اس کی ویکسین کی دریافت اور اس کے پھیلاو کو روکنے کیلئے شب و روز سائنسدان مصروف ہیں۔

ساری دنیا کو چھوڑیئے، صرف ایران کو ہی لیجئے، اتفاق سے میں ان دنوں ایران میں ہی ہوں، ایران کے میڈیکل کے شعبے کے لوگ محاذ جنگ پر لڑنے والے مجاہدین کی طرح سربکف ہیں، وزارتِ صحت عوام میں کرونا کے حوالے سے لوگوں میں آگاہی اور شعور پھیلانے میں پیش پیش ہے، میڈیا لمحہ بہ لمحہ لوگوں کو کرونا سے بچاو کی تدابیر بتا رہا ہے۔ علمائے کرام حکومت اور وزارت صحت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں، مذہبی اماکن، مساجد اور مزاراتِ مقدسہ کو اینٹی وائرس ادویات سے دھویا جا رہا ہے، مذہبی اجتماعات کو مجتھدینِ کرام کی طرف سے منسوخ کر دیا گیا ہے، ایران کے سپریم کمانڈر اور رہبر اعلیٰ نے جہاں عوام کو قرآن مجید اور مسنون دعائیں پڑھ کر خداوند متعال سے مدد مانگنے کا کہا ہے، وہیں انہوں نے نئے سال کے آغاز پر مشہد مقدس جاکر نئے سال کی تقریب سے اپنے خطاب کو بھی منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔ یاد رہے کہ ایران میں نئے شمسی سال کا آغاز مشہد مقدس میں ان کے خطاب سے ہوا کرتا تھا۔

میں اس وقت ایران کے علمی دارالحکومت قم المقدس میں ہوں، جاننے والے جانتے ہیں کہ قم المقدس کو جہانِ اسلام کا قلب کہا جاتا ہے۔ قم المقدس کو پورے ایران کیلئے نظریاتی، سیاسی، علمی اور دینی قطب کی حیثیت حاصل ہے۔ اس وقت یہاں کی دینی مرجعیت مکمل طور پر میڈیکل سائنس کی پشت پر کھڑی ہے۔ اب آپ ایران سے باہر آیئے اور اپنے وطن عزیز میں ان لوگوں کی حالت دیکھئے، جو اپنے آپ کو دینی علمبردار کہتے ہیں، میں کسی بنگالی بابے، کالے جادو کے عامل، جنتر منتر کرنے والے شعبدہ باز یا کسی سادھو اور سنیاسی کی بات نہیں کر رہا ہے بلکہ ان لوگوں کی بات کر رہا ہوں، جو اپنے آپ کو عالمِ دین، علامہ صاحب، مولانا صاحب، دینی طالب علم وغیرہ وغیرہ کہتے ہیں۔ ایران کے علمائے کرام کے برعکس ہمارے ہاں کے اکثر علماء کہلوانے والوں نے لوگوں کو پیاز چبانے، لہسن چاٹنے، پیروں و فقیروں کے ہاتھوں اور پاوں کے ناخن کاٹ کر کھانے، معجونیں اور پھکیاں نگلنے، بدن پر ہلدی اور شہد کی لیپ ملنے، ملتانی مٹی سے جسم کو چپڑنے اور سر کے بال پانی میں گھول کر پینے پر لگا دیا ہے۔

آیئے ہم تنقید کے بجائے حقیقت کی تلاش میں نکلتے ہیں، ہم یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں کے لوگ پولیو کے قطروں سے لے کر کرونا وائرس تک اور حالات حاضرہ سے لے کر روز مرہ کے مسائل تک ایران و سعودی عرب کی پراکسی وار، معجونوں، پھکیوں اور فتووں سے باہر نہیں جاتے۔ اگر ہم کسی پر صرف تنقید کرنا چاہیں تو بے شک دن رات کرتے رہیں، اس سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہونے والا اور اگر ہم اس مسئلے کو سمجھنا اور حل کرنا چاہیں تو پھر ہمیں تنقید کے بجائے دینی مدارس کے اندر جھانکنا ہوگا۔ ہمارے ملک میں یتیم خانہ، مسجد، مدرسہ، امام بارگاہ یا درگاہ بنانے اور نماز و قرآن مجید پڑھانے کو تو دینی خدمت تصور کیا جاتا ہے، اس کیلئے فنڈز بھی ملتے ہیں، چندہ، صدقہ و خیرات اور عطیات بھی جمع ہو جاتے ہیں، لیکن تحقیق کرنے کو ایک غیر دینی کام سمجھا جاتا ہے۔

چنانچہ اس وقت ہمارے ہاں جتنے بھی پاکستانی دینی مدارس ہیں، ان میں سے ایک بھی ایسا تحقیقی مجلہ نشر نہیں ہوتا، جو ایچ ای سی سے منظور شدہ ہو اور وزارتِ تعلیم نے اسے ایک تحقیقی مجلہ قرار دیا ہو۔ پاکستان کے دینی مدارس کیلئے ایک  معیاری تحقیقی مجلے کی اشاعت ایک چیلنج کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب ہم تحقیقی معیارات پر پورے نہیں اتر سکتے تو ہمارے پاس ایک آسان اور سستا الزام یہ ہوتا ہے کہ وہ جی حکومتی اداروں میں ہمارے مخالفین بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ ہمارے مجلے کو معیاری تسلیم نہیں کرتے۔ اب جو مجلے ہمارے ہاں اِدھر اُدھر سے کاپی پیسٹ کرکے چھاپے بھی جاتے ہیں، ان کا اصلی ہدف مخیر حضرات سے ڈونیشن سمیٹنا ہوتا ہے، چنانچہ وہ سارے مجلے تحقیقات کے بجائے سرپرست اعلیٰ، مدیر مجلہ، ٹرسٹ کے چئیرمین، مخیر حضرات اور ضرورتمندوں کی تصاویر سے بھرے ہوتے ہیں۔ ایک مجلے کے سرپرست کے پاس اچھے ڈیزائنر، فوٹوگرافر، پیسٹر، کمپوزر وغیرہ کیلئے بجٹ ہوتا ہے، لیکن اس کے پاس محقیقین کیلئے کوئی بجٹ نہیں ہوتا۔

یہی حال ہمارے دینی مدارس کا ہے، جہاں آپ کو اساتذہ اور خطیب تو مل جائیں گے، لیکن اگر آپ ان مدرسین سے یہ پوچھیں کہ آپ حضرات سال میں خود اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں میں اضافے کیلئے کتنے کورسز کرتے ہیں اور علم التعلیم کے کتنے جدید اسالیب سے آشنا ہیں تو یہ پوچھتے ہی آپ کے ساتوں طبق روشن ہو جائیں گے، اسی طرح مدارس میں جو  واعظین اور خطباء پروان چڑھ رہے ہیں، ان کی تحقیقی صلاحیتیں بھی آج ہم سب پر عیاں ہوچکی ہیں۔ المختصر یہ کہ ایک مدرسے کے مدیر کے پاس بلند و بالا عمارتوں کی تعمیرات، مدرسین کی تنخواہوں، واعظین و مبلغین کی سہولیات، طلاب علموں کے کھانے نیز گیس اور بجلی کے بھاری بھرکم  بلوں کے لئے تو بجٹ ہے، لیکن محقیقین کیلئے نہ ہی تو پیسہ ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے۔

ہمارے ایک طرف ایران ہے، جہاں ہر دینی مدرسہ ایک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ہے، جہاں تحقیق کے بغیر تدریس یا تبلیغ کی کوئی حیثیت نہیں ہے، جہاں دینی مدارس سے  علوم قرآن، مستشرقین، علوم حدیث، تاریخ، تمدن، عرفان، نجوم، ہنر، ادبیات، جدید علوم، سیاسیات، اقتصاد، عمرانیات، علوم انسانی، فلسفہ اور تعلیم و تربیت جیسے ان گنت موضوعات پر جدید ترین کتابیں تصنیف ہو رہی ہیں، بین الاقوامی معیار کے مطابق علمی مقالات چھپ رہے ہیں، تحقیقی کانفرنسیں اور سیمینارز منعقد ہو رہے ہیں، نت نئی تحقیقات سامنے آرہی اور مجلات نشر ہو رہے ہیں، جبکہ دوسری طرف ہمارا وطن عزیز پاکستان ہے، جہاں کسی بھی دینی مدرسے میں کوئی مصدقہ ریسرچ ڈیسک، مسلمہ ریسرچ ٹیم یا وزارت تعلیم سے رجسٹرڈ ریسرچ میگزین نہیں ہے۔ چنانچہ ہمارے ہاں جو آدمی بھی منبر پر بیٹھ جاتا ہے، اس کی مرضی ہے کہ لوگوں کو خواب سنائے، موسیقی کی دھنیں سنائے، دادا ابو اور پریوں کی کہانیاں سنائے، ناخن کاٹ کر کھلائے یا پھر سر کے بال پانی میں گھول کر پلائے۔

 آپ منبروں سے خواب سنانے والے، ملتانی مٹی، معجونوں اور ناخن و بال کھلانے اور پلانے والے مولانا حضرات سے صرف یہ پوچھ لیجئے کہ آپ کی طبی تحقیقات کس انٹرنیشنل میگزین میں چھپتی ہیں اور آپ کے علمی مقالات کس تحقیقی میگزین کی زینت بنتے ہیں!؟ کسی پر تنقید کے بجائے ہمیں ان مسائل کا مستقل حل ڈھونڈنا چاہیئے۔ ان مسائل کا حل یہ ہے کہ وہ سیاست و اقتصاد ہو یا شرک و غلو، وہ دفاع اور جہاد ہو یا پولیو اور کرونا وائرس، ہمارے دینی مدارس عوام کی جدید مشکلات کو تبھی حل کر پائیں گے، جب ان مدارس کے اندر سے جمود کے تابوت کو نکال کر وہاں تحقیق کی مسند سجائی جائے گی۔
خبر کا کوڈ : 851608
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش