1
Tuesday 10 Mar 2020 22:45

اسلامی فرقوں کا مختصر تعارف

اسلامی فرقوں کا مختصر تعارف
تحریر: محمد حسن جمالی
 
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ آج پوری دنیا میں مسلمان ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں، کشمیر، فلسطین، عراق اور شام سمیت دنیا کی جگہ جگہ مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم کے پہاڑ گرائے جارہے ہیں پوری دنیا مشاہدہ کررہی ہے کہ ہندوستان کی سرزمین پر  مودی کی نابکار افواج کس طرح مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر اپنے دل کی بھڑاس نکال رہی ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت حالیہ ہندوستان کے مسلمانوں پر ہونے والی بربریت پر خاموش ہے ہمارا سلام ہو ایران کے رہبر اعلٰی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی عظمت پر جنہوں نے کشمیر اور پورے ہندوستان کے مسلمانوں کی مظلومیت پر بھرپور آواز اٹھائی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شام، عراق، یمن سمیت حالیہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ناگفتہ حالات پر دنیا کے مسلمانوں کی اکثریت کی خاموشی کے اسباب کیا ہیں؟ اس کی وجوہات تو بہت زیادہ ہیں ایک سبب یہ ہے کہ مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹنے کی وجہ سے مسلمان اپنی اجتماعی قوت کھو بیٹے ہیں، اتحاد جیسی عظیم طاقت سے وہ ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں نے مذہبی اختلافات کو ہوا دے کر ان کے درمیان فاصلہ ڈالا جس سے مسلمانوں کو بڑا نقصان ہواـ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان خاص طور پر تعلیم یافتہ طبقہ قرآن مجید اور سنت کی روشنی میں تحقیقی عینک لگا کر مسلمانوں کے درمیان  پائے جانے والے اختلافی اور مشترکہ مسائل کا جائزہ لیں اور اس سلسلے میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے عقائد و آراء کا جاننا  بھی ضروری ہے تاکہ انسان کو  مذہبی اور سیاسی مسائل میں حق اور باطل کی تشخیص آسان ہو جائے اسی ضرورت کے پیش نظر ہم نے مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے اجمالی تعارف پر قلم اٹھانے کی کوشش کی ہے تاکہ تحقیق کا شغف رکھنے والوں کے ذھن میں ایک مختصر خاکہ آجائے اور وہ اپنے تحقیقی مطالعے کو بڑھا کر اس موضوع کی تمام جزئیات اور تفصیلات سے آگاہ ہو سکیں۔

اہلسنت کے اہم فرقے:
اہلسنت کے تیسری صدی کے بزرگوں میں شمار ہونے والی شخصیت جناب نوبختی نے تمام اسلامی فرقوں کو ذیلی چار قسموں میں تقسیم کیا ہے:
۔ شیعہ
۔ معتزلہ
۔ مرجئہ
۔ خوارج 
اس تقسیم کی روشنی میں پہلی قسم کے علاوہ باقی تین اہلسنت کے فرقے شمار ہوتے ہیں، البتہ نوبختی کے بعد اہلسنت کی نسلوں نے اس تقسیم کو قبول نہیں کیا ہے، یعنی انہوں نے اپنے آپ کو ان قسموں سے جدا جانا ہےـ  بہرصورت ہم یہاں ان متاخر اہلسنت علماء کے مطابق اہلسنت فرقوں کو ذکر کریں گے، جنہوں نے اسلامی فرقوں کے موضوع پر کتابیں لکھی ہیں جیسے ابی الحسن اشعری ( 260۔ 326 ھ ق) مؤلف کتاب مقالات الاسلامیین و اختلاف المصلین۔ ابی منصور بغدادی، متوفا 429ھ ق مؤلف الفرق بین الفرق۔ ابن حزم ظاہر اندلیسی، متوفا 256 ھ ق، مؤلف الفصل۔ شھرستانی متوفا 548ھ ق مؤلف الملل والنحل۔
 
1۔ اھل حدیث:
اہل حدیث وہ ہیں جو اصول و فروع  میں روایات کے ظاہر پر عمل کرتے ہیں اور عقائد و معارف میں عقل کی اہمیت و ارزش کے قائل نہیں، یعنی ان کے ہاں سنت کو ہی اصالت حاصل ہے چاہے وہ عقل کے موافق ہو یا مخالف۔ چنانچہ اس گروہ نے بہت ساری روایات کے ظاہر سے فریب کھایا ہے، یہاں تک کہ انہوں نے عقل کی اہمیت سے روگردانی کرکے روایات کی سند اور دلالت کے بارے میں تحقیق کئے بغیر ان کے  ظاہر  پر عمل کرکے خدا کے لئے آنکھ، ہاتھ، چہرہ، انگلی، پاؤں، جسم اور پنڈلی وغیرہ کو ثابت کیا ہے کیونکہ یہ تعبیریں سنت میں ذکر ہوئی ہیں۔ اہل حدیث کے مختلف فرقے ہیں جنہیں سیوطی نے تدریب الراوی میں ذکر کیا ہے۔ پہلا گروہ  وہ ہے جو عمل کو ایمان کا جز ء نہیں سمجھتے ہیں، ان کے عقیدے کے مطابق ایمان اور  عمل معصیت قابل جمع ہیں یعنی کوئی ایمان رکھنے کے ساتھ  گناہوں کا مرتکب ہو جائے تو کوئی حرج نہیں، جیسے کفر  کے ساتھ عبادت کا کوئی فائدہ نہیں ویسے ہی معصیت کی انجام دہی ایمان کو ضرر نہیں پہنچاتی۔ 
 
دوسرا گروہ وہ ہے جنہیں ناصبی کہلاتے ہیں، وہ علیؑ اور اہلبیت سے آشکارا دشمنی رکھتے ہیں۔ تیسرا گروہ وہ ہے جو شیعہ ہونے کا دعوی کرتے تھے اور علی و  اولاد علی سے محبت رکھتے تھے، وہ اس بات پر عقیدہ رکھتے تھے کہ ولایت قرآن میں نازل ہونے والا فریضہ ہے اور امامت وخلافت میں امیر المؤمنین کو دوسروں پر فضیلت اور برتری حاصل ہے۔ چوتھا گروہ وہ ہے جو قدری کہلاتے ہیں یعنی وہ بندوں کے اچھے اور برے اعمال کو انہی کی طرف نسبت دیتے تھے نہ خدا کی طرف۔ پانچواں گروہ  وہ ہے جنہیں جہمی کہا جاتا ہے یہ گروہ تمام صفات کو خدا  سے نفی کرتے ہیں اور قرآن کے حادث و مخلوق ہونے پر عقیدہ رکھتے ہیں۔ چھٹا گروہ  وہ ہے جو خوارج کے نام سے معروف ہے اس گروہ نے مسالہ حکمیت کے مقابلے میں امیر المؤمنین علی  سے منہ پھیرا اور حضرت علی سمیت عثمان، طلحہ، زبیر، عائشہ اور معاویہ سے اظہار برائت کیا۔ ساتواں گروہ وہ ہے جو واقفیہ کے نام سے مشہور ہے اس گروہ نے مسالہ حکمیت اور قرآن کے حادث و قدیم ہونے کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہے یعنی اس سلسلے میں کچھ نہیں کہا ہے۔
 
 اہل حدیث کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو  گوشہ نشین ہوئے وہ ظالم رہبروں کے خلاف خروج کرنے کو واجب تو سمجھتے  تھے مگر خود اس پر عمل پیرا نہ تھےـ اسی طرح ایک گروہ وہ ہے جو خواہشات نفسانی کے اسیر رہے جن کے نظریات نے ان کی زندگی کا خاتمہ کروایا اور زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے آراء و نظریات بھی فراموشی کے سپرد ہوتے گئے، جب احمد بن حنبل اپنے عقائد میں امامت کے مرتبہ پر پہنچے اہل حدیث ایک فرقہ میں سمٹ  گئے یعنی وہ احمد بن حنبل کے پرچم تلے جمع ہوگئے اور کتاب و سنت سے جن اصولوں کو انہوں نے استخراج کیا تھا انہی کے زیر سایہ اپنے مذہبی اور دینی امور کو ترتیب دینے پر وہ مائل ہوئے۔ عقیدہ تجسیم، تشبیہ، جبر اور انسان سے سلب اختیار وغیرہ کا آغاز اہل حدیث سے ہوا، چنانچہ جو  اہل حدیث کے عقائد اور نظریات کی تفصیلات جاننا چاہیئے وہ ذیل منابع کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے:
 
1۔ اہل حدیث  عقائد کے بارے میں  احمد بن حنبل  کا رسالہ السنّہ کے نام سے چھپ چکا ہے۔
2۔ اہل حدیث عقائد کے بارے میں رسالہ اشعری، یہ رسالہ کتاب الابانۃ کے دوسرے باب میں ذکر ہوا ہے جو 51 اصولوں پر مشتمل ہے چنانچہ اشعری نے اس رسالہ کو اپنی کتاب مقالات الاسلامیین کے صفہ نمبر 320 سے 325 کے درمیان ذکر کیا۔
3۔ کتاب التنبیہ والرد میں ابو الحسن الملطی وفات 377 ھ ق نے کچھ اصولوں کو بیان کیا ہے۔
4۔ ابو جعفر  طحاوی مصری  کی کتاب العقیدہ جو  105 اصولوں پر مشتمل ہے۔
2۔ خوارج
صحابہ کے زمانے میں یا اس کے بعد امام برحق کے خلاف خروج کرنے والے ٹولے کو خارجی کہلاتے ہیں، البتہ یہ نام اس گروہ کے ساتھ مشہور ہوا جنہوں نے مسئلہ حکمیت کے بعد جنگ صفین میں امیرالمؤمنین حضرت علی ؑ کے خلاف خروج کیا۔ امام کے خلاف خروج  کرکے دین سے خارج ہونے والے سرسخت افراد کا نام یہ ہے: اشعث بن قیس کندی، مسعر بن فدکی، تمیمی، زید بن حصین طائی۔

جب انہوں نے دیکھا کہ معاویہ کے لشکر  نے قرآن کو نیزوں پر بلند کیا ہے، وہ  حضرت علی اور ان کے پیروکاروں کو  کتاب خدا کی طرف دعوت دے رہا ہے تو  امیر المؤمنین سے کہا: معاویہ کا لشکر ہمیں کتاب خدا کی طرف دعوت دے رہا ہے اور آپ ہمیں تلوار کی طرف بلا رہے ہیں، آپ کو چاہیئے کہ مالک اشتر کو میدان جنگ سے واپس لوٹائیں ورنہ ہم آپ کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو  عثمان کے ساتھ کیا ہے! چنانچہ مالک اشتر نے لشکر معاویہ کے بہت سوں کو  میدان جہاد چھوڑ کر  بھاگنے پر مجبور کیا تھا۔ اس کے لشکر میں محدود افراد رہ گئے تھے لیکن مولای متقیان نے مجبور ہوکر مالک اشتر کو میدان جنگ چھوڑ کر  واپس لوٹنے کا حکم دیا اور مالک اشتر امام کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جنگ چھوڑ کر واپس آگئے، یوں خوارج نے حکمیت قبول کرنے پر  مولای متقیان حضرت علی ؑ کو مجبور کیا، چنانچہ طے یہ پایا کہ معاویہ اور علی ؑ اپنے اصحاب میں سے ایک  ایک نفر بھیجا جائے تاکہ وہ حکم قرآن کے مطابق فیصلہ کریں اور طرفین ان کے فیصلے کو قبول کریں در نتیجہ حکم قرآن پر عمل ہو ـ چنانچہ امیر المؤمنین نے اپنے اصحاب میں سے عبد اللہ بن عباس کا انتخاب کرکے  بھیجنا چاہا تو انہوں نے آپ کو  یہ کہکر منع کیا کہ عبداللہ بن عباس تو آپ کا طرفدار ہے، ہمیں وہ قبول نہیں۔

اس طرح انہوں نے امام کو ابو موسی اشعری کو بھیجنے پر مجبور کروایا  اور مسئلہ حکمیت کی تحکیم کے مسئلے میں امام کی رضایت کے خلاف پیشرفت ہونے  لگی۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ جو افراد مسئلہ حکمیت  کے بارے میں پافشاری کررہے تھے بعد میں اس بہانے کا سہارا لیتے ہوئے امام کے خلاف بغاوت کی کہ علی ابن ابی طالب نے حکم خدا کے خلاف اپنی طرف سے افراد کو حاکم قرار دیا ہے جبکہ "لا حکم الا للہ"، حاکم فقط اللہ ہے۔ مختصر یہ کہ خوارج دین سے خارج ہونے والے افراد ہیں جو جنگ نہروان میں جمع ہوگئے جنہیں حروریہ بھی کہا جاتا ہے۔ خوارج کے بڑے فرقوں کا نام یہ ہے: محکّمیہ، ازارقہ، نجدات، بھیسیہ، عجاردہ، ثعالبہ، صفریہ، اباضیہ۔۔۔۔جن میں سے فرقہ اباضیہ (جو ان میں سے معتدل فرقہ شمار ہوتا ہے ) کے علاوہ باقی سارے زمانہ گزرنے کے ساتھ  ختم ہوتے گئے اور آج ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں۔ چند سال قبل فرقہ اباضیہ نے خود خوارج میں سے ہونے سے اعلان برائت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ہمارا خوارج سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ہمارا فرقہ مستقل ہے اور  ہم عبداللہ بن اباض کے پیروکار  ہیں۔ بہرصورت خوارج کے مختلف فرقے ہیں، عثمان اور امیر المؤمنین علی ؑ سے اظہار برائت کرنا ان کا مشترکہ نقطہ نظر ہے، ان سے بیزاری کا اظہار  کرنے کو وہ اپنی تمام عبادتوں پر مقدم سمجھتے ہیں نیز وہ اسے شادی صحیح ہونے کے لئے بنیادی شرط گردانتے ہیں، اسی طرح وہ گناہ کبیرہ میں مرتکب ہونے والوں کی تکفیر کرتے ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ اگر امام سنت کی مخالفت کرے تو اس کے خلاف خروج کرنا واجب ہے۔
 
3۔ مرجئہ:
ارجاء کا معنی مہلت دینا  اور پیچھے چھوڑنا ہے چنانچہ اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے: "وارجہ واخاہ وارسل فی المدائن حاشرین۔۔" البتہ بعد میں یہ لفظ اس گروہ کے لئے غالبا  استعمال ہوا جو ایمان قلبی اور نیت کی خوب محافظت کرتے تھے مگر عمل کی ارزش کے قائل نہ تھے، وہ ایمان کی تفسیر میں قول بغیر عمل کہا کرتے تھے گویا وہ عمل پر قول کو مقدم کرتے اور ان کے عقیدے کے مطابق نجات کی شرط فقط ایمان ہے یعنی کوئی ایمان تو رکھتا ہو  مگر وہ نماز نہ پڑھے روزہ نہ رکھے تو کوئی حرج نہیں اسے نجات مل جائے گی۔ چنانچہ ان کی یہ بات معروف ہے: جس طرح دل میں کفر رکھنے کے ساتھ کسی قسم کی عبادت انسان کو  نفع نہیں پہنچا سکتی ویسے ہی ایمان رکھنے والے انسان کو  کسی قسم کی معصیت ضرر نہیں پہنچا سکتی۔ مرجئہ امت اسلامی کے خلاف ایک خطرناک گروہ تھا جو شیعہ سنی کے درمیان پیدا ہوا  اس گروہ کا پورا ہدف تمام اعمال کو مباح بنانا تھا۔
 
4۔ معتزلہ:
 
تمام اصحاب ملل و نحل کا اس بات پر اتفاق ہے کہ فرقہ معتزلہ کی بنیاد واصل بن عطا نے رکھی جو حسن بصری کی مجلس میں حاضر ہوتا تھا۔
استاد اور شاگرد کا تعارف:
استاد کا نام حسن بن یسار تھا  اور یسار کا باپ میسان کے اسراء میں سے تھا، جس کی کنیت ابوالحسن تھی وہ اپنی بیوی کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ آئے  اور  اس جوڑے سے عمر کی خلافت کے خاتمے سے دو سال قبل حسن پیدا ہوئے ہماری تحقیق کے مطابق بدھ   چار شب  کم سنہ 23ھ  کو عمر  زخمی ہوئے  اور اول محرم ہفتے کے دن  سنہ 24ھ کو  اس کی وفات ہوکر اسے دفنا دیا  گیا  بنابرایں حسن کا شمار سنہ 22 ھ  کے شروع یا سنہ 21 ھ کے آخر میں پیدا ہونے والوں میں ہوتا ہے ان کی وفات سنہ 110 ھ اول رجب کو بصرہ میں ہوئی پس ان کی عمر 88 سال اور چند ماہ تھی قوی احتمال ہے کہ صحابہ و تابعین مسلمانوں کے دلوں میں پیدا ہونے والے شبھات کا سبب اسیران میسان ہیں جنہوں نے اپنے محل ولادت سے ہجرت کرکے دوسرے مقامات پر جاکر ان شبھات کا پرچار کیا۔ اس زمانے میں عراق اور شام  میں تمدن روم و ایران کی تلاقی ہوتی۔ عراقی باشندے ایران کے زردتشتیوں کے متاثر ہوئے اور دوسری طرف سے اہل شام رومیوں، مسیحیوں اور یھودیوں کے افکار سے متاثر ہوئے، چنانچہ مسلمانوں کے درمیان ان کی معاشرت اور اختلاط بہت سے ایسے شبھات مسلمانوں کے ذہنوں میں ایجاد ہونے کا سبب بنے جن کے بارے میں صدر اسلام کے مسلمانوں کو کسی قسم کی اطلاع نہیں تھی اور  بعید نہیں حسن بصری  بھی بعض موارد میں اپنے باپ ابوالحسن اسیر میسان سے متاثر ہوئے ہوں۔
 
شاگرد: بہت سارے متون میں یہ واقعہ ذکر ہوا ہے کہ ایک شخص نے حسن بصری کے پاس حاضر ہوکر کہا : یا امام الدین یعنی اے دین کے پیشوا ہم اپنے  زمانے کی دو جماعتوں کی مختلف ومتضاد باتوں سے پریشان ہیں ایک گروہ یعنی وعدیہ خوارج  کا کہنا ہے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہونے والا کافر ہے، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے ـ جب کہ دوسری جماعت کہتی ہے کہ گناہ کبیرہ میں مرتکب ہونے والا کافر نہیں ان کا کہنا ہے کہ گناہ کبیرہ ایمان کو ضرر نہیں پہنچاتا، کیونکہ یہ ایمان کے ارکان میں سے نہیں،  نیز وہ گروہ کہتا ہے: جس طرح کفر دل میں رکھتے ہوئے کسی قسم کی عبادت انسان کے لئے نفع بخش نہیں، ویسے ہی دل میں ایمان کا نور روشن ہو تو گناہ کبیرہ ضرر رساں ثابت نہیں ہوتا اس گروہ کا نام مرجئہ ہےـ بنابریں فرمائیے ہمارا وظیفہ کیا ہے؟ حسن بصری سوچ ہی رہے تھے دوسری طرف سے واصل بن عطا نے کہا: میری نظر میں جو شخص گناہ کبیرہ میں مرتکب ہوجاتا ہے وہ نہ مومن مطلق ہے اور نہ کافر مطلق بلکہ اس کا درجہ ان دونوں کے درمیان ہے پھر وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور مسجد میں ایک بڑی علمی شخصیت کے پاس جاکر اس کے سامنے سائل کا سوال تکرار کیا اور اس سے جواب لیکر  اصحاب تک پہنچایاـ اس کے بعد حسن بصری نے کہا: واصل نے ہم سے کنارہ کشی اختیار کی ہے۔ یہیں سے واصل اور اس کے اصحاب کا نام معتزلہ پڑ گیا۔

یہ وہ مطالب ہیں جو شھرستانی نے کتاب ملل و نحل میں لکھے ہیں اور ممکن ہے یہ مطالب صحیح پر مبنی ہوں لیکن ہم نے توحید، عدل، صفات زائد بر ذات کی نفی وغیرہ  کے بارے میں معتزلہ کے آراء و نظریات کو امیرالمؤمنین کے خطبوں سے اخذ کیا ہے۔ چنانچہ اس مطلب کو ہم نے کتاب بحوث فی الملل والنحل میں بیان کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے: واصل بن عطاء ابو ہاشم بن محمد بن حنفیہ کا شاگرد تھا اور بعض ماسلف علماء کی نقل کے مطابق اس سے پوچھا گیا کہ محمد بن علی کا علم کیسے تھا؟ اس نے کہا : اسے معلوم کرنے کے لئے اس کے شاگرد واصل کو دیکھا جائے۔ ابوہاشم  نے اپنے باپ محمد بن حنفیہ سے اور اس نے امیر المؤمنین حضرت علی ؑ سے علوم کسب کئے ہیں اور یہ سارے ان کے دامن میں ہی رشد و نمو  کر پائے ہیں اسی لئے وہ  حضرت علی ؑ کی رائے اور آپ ؑ کے خطبات کے مطابق کلام کیا کرتے تھےـ
.......جاری..............
خبر کا کوڈ : 851612
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش