0
Saturday 21 Mar 2020 12:31

پیدائشی مسلمان یا شعوری مسلمان

پیدائشی مسلمان یا شعوری مسلمان
تحریر: مقدر عباس

بیچارے دیہاتی کا شہر کا پہلا سفر تھا۔ بلند و بالا عمارات، رنگ برنگی گاڑیاں ہر چیز کو حیران کن نگاہوں سے دیکھ رہا تھا کہ اس کی نگاہ مسجد کے بلند میناروں پر پڑی، حیرانی و سرگردانی کے عالم میں اسے گھور ہی رہا تھا کہ ایک شہری کی نظروں میں آگیا۔ اسے دیہاتی کی سادہ لوحی سے لطف اندوز ہونے کی شرارت سوجھی۔ قریب آکر کہنے لگا واہ واہ کیا دیکھتے ہو؟ ایسا درخت پہلے کبھی نہیں دیکھا؟ دیہاتی نے کہا نہیں دیکھا کہ جس کا صرف تنا ہی ہے اور نہ ہی شاخیں اور نہ ہی پتے وغیرہ۔۔۔ شہری نے کہا آپ کو نہیں معلوم اس کے بازار سے بیج بھی ملتے ہیں، وہ لے لو اور خود جاکر کاشت کرو۔ زمین کو تیار کرکے بیج کاشت کر دینا کچھ ہی عرصے بعد ایسا تناور درخت تمہارے اپنے آنگن میں نظر آئے گا۔ اس نے  شرارتاً اسے گاجر کا بیج لے کر دے دیا۔

دیہاتی پرُجوش انداز میں واپس پلٹا۔ زمین تیار کی اور بیج کاشت کر دیئے۔ پانی دیتا رہا، کافی دن گزر گئے۔ اسے گھاس پھوس نظر آئی۔ کچھ اور دن گزرے، درخت کا وجود ہی نہیں، کیا کروں۔؟ بالآخر صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور زمین کھودی تو برآمد ہونیوالی چیز کو نکال کر کہا درخت اُگا تو ہے پر الٹا اگا ہے۔۔ دین کامل ہونے پر نعمت تمام ہونے کی بشارت ملی اور اس کو پسندیدہ دین اسلام کہا گیا اور اس دین کی تعلیمات کے سامنے سرتسلیم ہونیوالے کو مسلمان کہا جانے لگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلام اور مسلمان کا رشتہ جو کہ ایمان و عمل کی شرط پر قائم تھا، وہ آہستہ آہستہ ماند پڑتا گیا، یعنی ایمان و عمل صرف زبانی کلامی بن کر رہ گیا۔ بقول علامہ اقبالؒ
زباں سے کہہ بھی دیا لاالہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں


یعنی بطور مسلمان ہمارا دعویٰ ہے کہ مسلمان وہ ہے، جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ ہوں۔ جس کا ایمان ہے کہ خدا حاضر و ناظر ہے۔ جو ایمان لایا ہے کہ ایک دن اس دنیا سے جانا ہے۔ قیامت جیسی اٹل حقیقت کو بھی مانتا ہے۔ قرآن و اہل بیت ؑاور اصحاب اخیار ؓسے انتہائی عقیدت بھی رکھتا ہے۔ لیکن جب عملی طور پر دیکھا جاتا ہے تو محسوس ہوتا ہے، جس ایمان کی بات کی جا رہی ہے، وہ ایمان کامل نہیں ہے۔ اگر ایک ایسے درخت سے (جس کی شاخیں خشک، پتوں سے خالی) ہمیں سوال کرنے کا موقع ملے اور ہم سوال کریں کہ آپ کی یقیناً جڑ میں روگ ہے، جس کی وجہ سے شاخیں اور پتے خشک ہیں اور وہ بڑی دیدہ دلیری سے کہے کہ خبردار ایسی بات مت کرو، میری جڑوں سے مضبوط کسی کی جڑیں نہیں ہیں تو ہم کہیں گے کہ اگر جڑ ٹھیک ہوتی تو اس کے اثرات سرسبز پتوں اور ہری بھری شاخوں میں نمایاں ہوتے۔یہ دعویٰ احمقانہ ہے۔

یہی مثال اگر ہم آج اپنے اوپر لاگو کریں تو کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ! مت پوچھ مسلمان کا حال؛ مسجد کے لیے سر کٹانے کو تیار ہے لیکن، مسجد میں سر جھکانے پر تیار نہیں۔ جو کہتا تو ہے کہ میری رگ میں ہے نبی نبی مگر پڑھتا ہے سال میں نماز کبھی کبھی۔ جو نبیﷺکا نام سنتے ہی جھوم جاتا ہے اور نبی ﷺکا فرمان سنتے ہی گھوم جاتا ہے۔ جب عمل کرنے کی باری آئے جواب ملتا ہے کہ ہم کہاں اور وہ کہاں اور جب جنت میں جانے کی بات آئے تو ہم نبی ﷺکے ساتھ جنت میں جائیں گے۔ محسوس ہوتا ہے کہ ہم پیدائشی مسلمان ہیں، شعوری نہیں، بلکہ اور سبھی کچھ بن گئے ہیں، صرف مسلمان نہیں بن سکے۔ بقول اقبالؒ
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ کہ مسلمان بھی ہو


ہمیں اس بات پر یقین ہے۔ الم یعلم بان اللہ یری۔(کیا انسان نہیں جانتا کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔؟) لیکن ہماری جلوت اور خلوت میں فرق کیوں۔؟ ہم ہی کہتے ہیں صفائی ایمان کا حصہ ہے، لیکن ہمارے ہی گھر سے لیکر بازار تک آلودہ، کہتے تو ہیں کہ رشوت لینے والا اور دینے والا جہنمی! لیکن اعتکاف پر بیٹھنے سے پہلے رشوت کی وصول کردہ رقم گھر والوں کو دے کر شکر خدا بھی کریں گے۔ سود پر پیسے دے کر گھر بھی بنوا لیں گے اور اوپر بڑی سی تختی لگا کر (ھذا من فضل ربی) بھی لکھوا دیں گے۔
کرپشن کریں گے اورحج بھی ادا کریں گے اور کمال مسلمانی تو اس وقت دیدنی ہوتا ہے، جب شراب کی بوتل تھامے حلال گوشت ڈھونڈا جا رہا ہو۔، کوئی کہے کہ قرآن و پیامبرؑ کو نہیں مانتا تو زبانی کلامی مسلمان یہ کہہ کر کہ "کس کی جرات ہوئی کہ ہماری کتاب اور پیغمبر کو نہ مانے۔"

اس کا ایسا حال کرے گا کہ قبر تک پہنچا آئے گا اور ایمان کا دعویٰ کرنے والے قرآن و پیامبر کو مانیں گے، لیکن قرآن و پیامبرﷺ کی نہیں مانیں گے۔ ہم کہتے ہیں قرآن ہماری ہدایت کے لئے ہے، لیکن عمل جنتری کے مطابق کریں گے۔ اگر ہم تھوڑا ٹھہر کر اپنی زندگیوں میں موجود قرآنی تعلیمات کو ایک نظر دیکھیں تو ہم بھی شاید، بلکہ یقیناً اسی گاجر کاشت کرنے والے کی طرح کہیں گے کہ ہم نے تعلیمات قرآن کو لیا تو ہے پر الٹا لیا ہے۔ ہم نے اسلام کو لیا تو ہے پر الٹا لیا ہے۔ قرآن کا فرمان ہے کہ یہ آیا ہے (لینذر من کان حیا)۔ (تاکہ زندہ لوگوں کو آگاہ کرے) لیکن ہم نے اس سے صرف مردے بخشوانے کے لیے ہی استفادہ کیا ہے، مردے کو بھی تب فائدہ دے گا، جب اس نے اپنی زندگی میں اس کو عملی کیا ہو، ورنہ ابوجہل کو 100 بار بھی قرآن پڑھوا کے بخشوا دیں، اثر نہیں رکھتا۔
خبر کا کوڈ : 851733
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش