1
0
Thursday 5 Mar 2020 22:14

انسانیت و فطرت

انسانیت و فطرت
تحریر: سجاد احمد مستوئی

دو اصطلاحوں، دو لفظوں کو ہم اپنی زندگی میں بار بار سنتے ہیں، ایک ہے لفظ انسانیت اور دوسرا ہے لفظ فطرت۔ آیا ہم نے کبھی ان دو لفظوں کو، ان دو اصطلاحوں کو سمجھنے کوشش کی ہے؟ انسانیت یعنی کیا؟ فطرت یعنی کیا؟ سب سے پہلے ہم لفظ فطرت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، یعنی فطرت کسے کہتے ہیں؟
تمام اشیاء چاہے وہ انسان ہوں یا حیوان ہوں، حتٰی کہ نباتات و جمادات، جو اس جھان میں موجود ہیں، ان کی خلقت میں کچھ خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ خالق تمام اشیاء نے ان اشیاء کے درمیان مختلف خصوصیات رکھیں ہیں، جو ان اشیاء کے درمیان فرق کا باعث بنتی ہیں اور ان کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہیں اور ان کو ایک دوسرے کے اوپر امتیاز بخشتی ہیں۔ اگر ان چیزوں کے درمیان مختلف خصوصیات نہ ہوں تو نباتات و جمادات کے درمیان اور انسان و حیوان کے درمیان کوئی فرق نہیں رہتا، مثلاً جمادات میں حرکت نہیں پائی جاتی اور ان کے خالق نے ان کی پیدائش کے وقت ہی ان کے اندر رشد نہیں رکھی، یہ جمادات کی خصوصیت ہے نہ کہ ان کا عیب۔ جو ان کو نباتات سے فرق بخشتا ہے اور اسے فطرت کہتے ہیں۔

پتھر کا سخت ہونا اس کی خصوصیت ہے، یعنی سختی اس کی فطرت میں پائی جاتی ہے، جو اس کو درختوں سے، گھاس پھونس سے جدا کرتی ہے اور اسی طرح نباتات میں رشد پائی جاتی ہے، ایک درخت رشد کرتا ہے لیکن خود بخود اپنی جگہ سے دوسری جگہ تک نہیں جاسکتا اور نباتات میں نفس بھی نہیں ہوتا، یعنی ان کے اندر کی چیز کو پانے کی تمناء و خواہش نہیں پائی جاتی، یہ ان کی فطری خصوصیت ہے نہ کہ عیب۔ گلاب کے پھول اور کانٹے فطری ہیں، جو اس کو جمادات سے جدا کرتے ہیں، اسی طرح حیوانات میں رشد و حرکت کے ساتھ ساتھ نفس بھی پایا جاتا ہے، جو ان کو جمادات و نباتات سے جدا کرتا ہے۔ اب اس نفس کی کچھ خصوصیات ہیں، جن کو جاننا ضروری ہے، تمایلات و خواہشات کے مجموعے کو نفس کہتے ہیں، ایسی جگہ جہاں سے خواہشات پیدا ہوتی ہیں، یعنی خواہشات کے منبع کو نفس کہتے ہیں۔

اب وہ کھانے کی خواہش ہو یا شہوت کی خواہش ہو یا طاقت کی بناء پر ایک کمزور جانور پر ظلم کرنے کی خواہش ہو، یہ تمام کی تمام خواہشات نفس کی خصوصیات میں سے ہیں اور یہ نفس ایک جانور میں پایا جاتا ہے، جو اس کو نباتات و جمادات سے جدا کرتا ہے۔ ایک جانور بغیر سوچے سمجھے بغیر کسی کے ڈر کے جو کچھ اس کے سامنے آتا ہے، اس کو کھاتا ہے اور اسی طرح بغیر کسی سے حیاء کیے اپنی شھوت کو پورا کرتا ہے، کیونکہ یہ اس کی خصوصیت ہے اور یہ اس کی فطرت میں ہے، جو اس کو جمادات و نباتات سے جدا کرتا ہے۔ اب باقی رہ جاتا ہے، انسان جو شروع میں ہم نے لفظ انسانیت ذکر کیا تھا، اس کو یہاں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، ایک انسان کے اندر نفس کے ساتھ ساتھ عقل نام کی ایک چیز پائی جاتی ہے، جس کو دوسرے لفظوں میں ضمیر بھی کہا جاتا ہے اور یہی عقل ہی انسان کو باقی تمام مخلوقات سے متمایز کرتی ہے اور انسان کی امتیازی خصوصیت میں شمار ہوتی ہے۔

ایک انسان کے اندر نفس اور عقل دونوں پائے جاتے ہیں اور یہ دونوں ایک دوسرے کے مخالف ہیں اور انسان کے اوپر قبضہ کرکے اس پر اپنا حکم چلانے کیلئے ہمیشہ آپس میں حالت جنگ میں رہتے ہیں۔ سوال! انسان کے اندر ایسی کیفیت کیوں پائی جاتی ہے، باقی تمام مخلوقات میں یہ خصوصیت کیوں نہیں پائی جاتی، تاکہ انسان کا باقی مخلوقات خاص طور پر جانوروں سے فرق واضح ہوسکے۔ اب انسان کی اس اندرونی کیفیت کو سمجھنے کیلئے ہمیں نفس کی طرح عقل کی خصوصیات کو جاننا پڑے گا۔ اس عقل کے کچھ تقاضے ہیں، جو فطری طور پر اس عقل میں پائے جاتے ہیں، جن کو پورا کرکے انسان جانوروں سے جدا ہوتا ہے۔ فکر، سوچ، ہمدردی، غیرت، عزت، انصاف، مساوات، عدل، محبت، عفت، پاکدامنی، صبر، شجاعت اور آزادی (یعنی عقل کی تمام خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور عقل کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے بغیر زندگی گزارنا) حیاء، احترام اور اسی طرح کی ہزاروں باکمال صفات کے منبع کو عقل کہتے ہیں اور یہ عقل نفس کے ہمراہ ایک انسان میں پائی جاتی ہے، جو انسان کو حیوانات و نباتات اور جمادات سے جدا کرتی ہے۔

اب کوئی بھی انسان جو دنیا کے کسی بھی کونے میں رہتا ہو، کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، اگر وہ عقل کو استمعال میں لائے گا تو تمام کی تمام صفات باکمال عقل اس کے اندر جلوہ گر ہونگی اور اسے کہتے ہیں انسانیت۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ انسانیت کا کسی بھی مذہب و فرقے سے تعلق نہیں ہوتا ہے۔ اب اسی انسانیت کو اور فطرت کو اپنے معاشرے میں ڈھونڈھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ انسانوں کے آپس میں مل جل کر رہنے کو معاشرہ کہتے ہیں، عقل و فطرت و انسانیت کی بنیاد پر ان مل جل کر رہنے والے انسانوں کے آپس میں ایک دوسرے کے اوپر کچھ حقوق لاگو ہوتے ہیں، جو انسان ان حقوق کی پاسداری کرتا ہے، وہ جانوروں سے جدا ہو جاتا ہے۔ اب اس معاشرے میں مرد بھی رہتے ہیں اور خواتین بھی، ایک عورت کی مرد کے ساتھ نسبت یا تو ایک ماں کی ہے یا ایک بہن کی ہے یا ایک بیٹی کی ہے یا ایک بیوی کی ہے۔ اب عقل و ضمیر و فطرت کے مطابق ایک خاتون اپنے والد، اپنے بھائی، اپنے بیٹے اور اپنے شوہر کے حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے زندگی گزارے، تاکہ فطرت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے جانوروں سے جدا ہوسکے، یعنی دوسروں کے حقوق کو پامال کئے بغیر دوسروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے بغیر، اپنے حقوق حاصل کرتے ہوئے ایک فطری اور عقلی و باضمیر زندگی گزار سکے، اسے کہتے ہیں آزادی، اسے کہتے ہیں انسانیت۔

اب اگر کوئی خاتون اپنے والد کی عزت، اپنے بھائی کی غیرت اور اپنے شوہر کو ملحوظ خاطر رکھ کر اپنے جسم کو چھپا کو معاشرے میں زندگی گزارتی ہے تو اسے باضمیر، باغیرت، باوقار خاتون کہا جائے گا، لیکن اس کے برعکس اگر عورت اپنے اندر کے ضمیر کی آواز سنے بغیر سڑکوں پر اپنے باپ کی عزت، اپنے بھائی کی غیرت اور اپنے شوہر کے وقار کو پامال کرے تو اس خاتون میں اور ایک جانور میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ جس طرح جانور اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کیلئے کسی بھی چیز کا حیاء نہیں کرتا، اسی طرح کچھ بے ضمیر عورتیں جنھوں نے اپنی فطرت کو اپنی عریانی کے ذریعے سے قتل کر دیا ہے، وہ کسی کا حیاء کئے بغیر جانوروں کی طرح عریان ہو کر "میرا جسم میری مرضی" کا نعرہ لگا کر معاشرے میں اپنے پست مقام ظاہر کر رہی ہیں اور کچھ اس کو حقوق نسواں کا لقب دے کر فطرت و انسانیت کے مقدس منصب کو داغدار کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 851778
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

حمزہ علی
ما شاء اللہ، اجرکم الی اللہ
ہماری پیشکش