1
Saturday 21 Mar 2020 19:03

ایران میں کرونا وائرس اور بی بی سی کی ریشہ دوانیاں

ایران میں کرونا وائرس اور بی بی سی کی ریشہ دوانیاں
تحریر: عطیہ مدنی

انٹرنیشنل نیوز چینلز کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد اطلاع رسانی کی دنیا میں سوشل میڈیا کے اہم اور بنیادی کردار کو ظاہر کرتی ہے۔ دوسری طرف عالمی سطح پر جاری ڈائیلاگ اور سفارتکاری کی دنیا میں رونما ہونے والی تیز تبدیلیوں میں ٹی وی نیوز چینلز کا ظہور اس اہم حقیقت کی تصدیق کرتا ہے کہ آج کی دنیا میں حکومتوں کی پالیسی میڈیا ڈپلومیسی کی جانب گامزن ہو رہی ہے۔ اور نرم طاقت کا استعمال سوشل ڈائیلاگ کی صورت میں انجام پاتا ہے۔ جدید دنیا میں میڈیا ذرائع کا حد سے زیادہ موثر واقع ہونا اس بات کا باعث بنا ہے کہ بعض حکومتیں علاقائی سطح پر مخصوص رائے عامہ ہموار کرنے اور نرم طاقت کے میدان میں حریف ممالک سے بازی لے جانے کیلئے اس خطے کی علاقائی زبانوں میں مختلف قسم کے سیٹلائٹ چینلز تشکیل دینے لگیں۔ اسی بنیاد پر برطانوی حکومت نے بھی مختلف علاقائی زبانوں میں بی بی سی چینلز تشکیل دے رکھے ہیں جن میں سے ایک بی بی سی فارسی ہے۔ بی بی سی فارسی کی تشکیل سے برطانوی حکومت کا مقصد خطے کی عوام کی طرز سوچ پر اثرانداز ہو کر مخصوص قسم کی رائے عامہ پروان چڑھانا ہے۔

بی بی سی فارسی اس وقت ریڈیو اور ٹی وی پر چینلز کے علاوہ انٹرنیٹ پر ویب سائٹ سے بھی برخوردار ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بی بی سی فارسی کی نشریات کا جائزہ لینے سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ اس خبررساں ادارے کا بنیادی مقصد ایران میں اسلامی جمہوریہ نظام کی قانونی حیثیت اور مشروعیت کو دھچکہ پہنچانا ہے۔ بی بی سی فارسی نے ایران میں نرم بغاوت پر مبنی مقصد کے حصول کیلئے نفسیاتی جنگ کے حربے بروئے کار لا رکھے ہیں۔ یہ خبررساں ادارہ ان ہتھکنڈوں کے ذریعے عوام میں اسلامی جمہوری نظام کی محبوبیت کم کر کے ان میں یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہے کہ یہ نظام ایک ناکام اور ناکارہ نظام ہے۔ بی بی سی فارسی اس مقصد کیلئے اندرونی اور بین الاقوامی سطح پر ایران سے متعلق منفی اور مایوس کن خبریں، رپورٹس اور تجزیات شائع کرتا ہے۔ یوں یہ خبررساں ادارہ اسلامی جمہوری نظام کو کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ اس نظام کے مخالفین کی پوزیشن بھی مضبوط بنانے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔ لہذا یہ خبررساں ادارہ ایران کی اسلامی حکومت سے کسی بھی وجہ سے ناراض افراد کو توجہ کا مرکز قرار دینے، ایران کی اندرونی مشکلات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔

ایران میں کرونا وائرس پھیل جانے کے بعد بی بی سی فارسی کو ایک بار پھر برطانوی استعماری مقاصد کے حصول کیلئے زہریلے پروپیگنڈے کا موقع میسر آیا ہے۔ لہذا اس خبررساں ادارے نے ایرانی عوام کے اندر حکمفرما اسلامی جمہوری نظام کے خلاف نفرت اور عدم اعتماد پیدا کرنے کیلئے نئی کوششوں کا آغاز کر دیا ہے۔ بی بی سی فارسی یہ تاثر دے کر کہ کرونا سے متاثرہ دیگر ممالک کی نسبت ایران کی صورتحال انتہائی پریشان کن اور بحرانی ہو چکی ہے ایرانی عوام کے اندر خوف اور وحشت کی فضا قائم کرنے کے درپے ہے اور یوں ایرانی معاشرے میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف یہی خبررساں ادارہ بلکہ دیگر زبانوں میں اس کے چینلز یعنی بی بی سی انگلش اور بی بی سی عربی کرونا وائرس سے متاثرہ مغربی اور عرب ممالک کی انتہائی تشویش ناک صورتحال پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ سمیت بعض مغربی ممالک میں کرونا وائرس کا پھیلاو شدید سماجی اور اقتصادی بحران کا باعث بن چکا ہے لیکن مختلف زبانوں میں بی بی سی چینلز ان ممالک کے عوام کو جھوٹی تسلیاں دے رہے ہیں۔

اگرچہ بی بی سی کے ڈائریکٹرز اور بانیان یہ دعوی کرتے ہیں کہ ان کا ادارہ ایک بڑا بین الاقوامی خبررساں ادارہ ہے جو انتہائی صداقت سے غیر جانبدار انداز میں عوام کو درست حقائق کی معلومات اور خبریں فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس ادارے کی ماضی کی کارکردگی کا بغور جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی خبریں اور تجزیات موجودہ حقائق کو ایک خاص رنگ دے کر پیش کئے جاتے ہیں۔ بی بی سی کا انداز برطانوی حکومت کی استعماری پالیسیوں سے مکمل ہم آہنگ ہے۔ یہ خبررساں ادارہ اخبار اور تجزیات کی آڑ میں برطانوی حکومت کے استعماری اہداف اور مقاصد کے حصول کی کوشش کرتا ہے۔ بی بی سی موجودہ حقائق کو غلط رنگ دے کر پیش کر کے اپنے مخاطبین کو حقائق کو صحیح انداز میں دیکھنے سے محروم کر دیتا ہے۔ یہ اقدام بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی اور اس خبررساں ادارے کے غیر پیشہ ورانہ رویے کا واضح ثبوت ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بی بی سی فارسی برطانیہ کی انٹیلی ایجنسیز سے وابستہ ہے۔ یہ ادارہ خبررساں ادارہ ہونے کی آڑ میں ایران سے ایسے غیر پیشہ ور افراد کو تلاش کرتا ہے جن کے دل میں کسی بھی وجہ سے اسلامی جمہوری نظام کی نفرت اور دشمنی پائی جاتی ہے اور وہ اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے اس استعماری ادارے کے ہاتھوں استعمال ہو جاتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 851795
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش