1
1
Saturday 21 Mar 2020 18:55

ایک جرثومہ جو نظر نہیں آتا

ایک جرثومہ جو نظر نہیں آتا
تحریر: سید اسد عباس

انسان اشرف المخلوقات ہے اور اس دنیا کی قوی ترین مخلوق تصور کی جاتی ہے، اگرچہ جسمانی طور بہت سی مخلوقات اس سے قوی ہیں، تاہم اس کو یہ صلاحیت دی گئی ہے کہ قوی سے قوی مخلوق کو اپنے زیر نگیں کر لے۔ اپنی عقل کے ذریعے طبعی اصولوں کو قابو میں لا کر یہ فضا میں اڑنے کے قابل ہوچکا ہے، کشش ثقل کا مضبوط کڑا توڑ کر خلا میں داخل ہوگیا ہے، آواز کی رفتار سے سفر کرنے والی سواریاں بنا رہا ہے، ایٹم کا سینہ چیر کر اس سے توانائی کو اخذ کر رہا ہے۔ ماضی کو کھوجنے اور مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت پیدا کر رہا ہے۔ سمندر کی گہرائیوں میں اتر رہا ہے اور اس کی پہاڑ جیسی لہروں کو چیر کر اپنے لیے راہیں بنا رہا ہے۔ زمین پر اس نے محلات بنائے ہیں، جن کی پہلے کوئی مثال نہ تھی۔ ریگستانوں میں اپنی علمی پیشرفت کے سبب ہریالی لے آیا ہے۔ غرضیکہ فلسفہ، طب، توانائی، سائنس، عمرانیات، ادب معاشرتی علوم کے دیگر شعبوں میں ترقی کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔

آج کا انسان بجا طور پر فخر کرسکتا ہے کہ فقط بنی نوع انسان میں انبیاء، نمائندگان الہیٰ، اوصیاء، اولیاء، فلاسفر، اطباء، سائنس دان اور مشرق سے مغرب تک حکومت کرنے والے انسان آئے ہیں، لیکن افسوس صد افسوس انسان کا یہ فخر غرور کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور وہ انسانوں کو عموماً گونگا پہرا اور اندھا کر دیتا ہے۔ طاقت اور قوت کے نشے میں یہ اپنی ہستی اور حیثیت کو بھول جاتا ہے، خود کو خدا سمجھنے لگ جاتا ہے، جیسے دنیا کے سب امور اسی کے دم قدم سے ہیں۔ اب تو انسان ایسے نظریئے بھی بنا چکا ہے کہ دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے، بلکہ یہ دنیا خود سے وجود میں آئی ہے۔ قوموں کی تقدیر کے فیصلے کرنے بیٹھتا ہے تو بلا خوف و خطر فرعونیت کا مظاہرہ کرتا ہے، جیسے دوسری اقوام اسی کی مخلوق ہوں اور ان کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔ عمومی طور پر انسان مصروف اس قدر ہے کہ اس کے پاس اپنے وجود اور اس کے سبب کو تلاش کرنے کا بھی وقت نہیں ہے۔ مال، قوت اور اقتدار جمع کرنے کی ایک دوڑ ہے، جس نے ہمیں اپنے آپ سے بھی بے بہرہ کر دیا ہے۔

خالق کائنات کا اس دنیا کو چلانے کا اپنا ہی نظام ہے، جو اب تک انسانوں کے فہم و ادراک سے باہر ہے۔ بڑا معروف مقولہ ہے کہ اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ انسانی معاشروں میں بڑھتا ہوا ظلم، بے راہ روی، اقوام کا استبداد دیکھ کر اکثر لوگوں کو گمان ہوتا تھا کہ نعوذباللہ خدا نہیں رہا، مغرب میں ایسے نعرے بھی سننے میں آئے God is Dead۔ مگر اس ایک ان دیکھے جرثومے نے نہ فقط خدا کے ہونے کو ثابت کیا بلکہ انسانوں کو ان کی حیثیت پر غور و فکر کرنے کا بھی موقع فراہم کیا۔ اس نے بنی نوع انسان کو ایک مرتبہ سکون سے سوچنے اور غور و فکر کرنے کی مہلت دی ہے۔ انسان کی وہ مصروفیات جو اس کو خود سے دور کیے ہوئے تھیں، تقریباً ختم ہو رہی ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے فرعونوں کو یہ اندازہ ہونے لگا ہے کہ کائنات کا خالق و مالک کوئی اور ہے۔ ہمارے پاس یہ اقتدار، قوت، طاقت فقط ایک امانت ہے۔ میرا نہیں خیال کہ گذشتہ کئی صدیوں میں کبھی بھی ایسا موقع آیا ہو کہ پوری دنیا کے انسان ایک عالمی آفت سے دوچار ہوئے ہوں اور ان کی زندگیاں اس آفت کے سبب ایک ہی طرح سے متاثر ہوئی ہوں۔

میرا ایمان ہے کہ خدا کے ہر کام میں بہتری ہوتی ہے، جو کہ انسانوں کے فہم و ادراک سے باہر ہے، وقتی طور پر تو ایک مسئلہ انسانوں کو مصیبت اور بلا نظر آتا ہے، تاہم کائنات کے امور کو چلانے کے عنوان سے اس واقعہ کے دیرپا اور دور رس اثرات ہوتے ہیں۔ طوفان نوح بھی اسی طرح کی ایک آفت تھی، جو دنیا کی پوری آبادی کو بہا کر لے گئی، فقط چند انسان زندہ رہے، جو کہ کشتی نوح پر سوار تھے۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ انسانوں کی سابقہ نسل کا مکمل خاتمہ اور فقط نوح علیہ السلام جنہیں آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے، کی نسل سے بنی نوع انسان کی نئے سرے سے تشکیل کے پیچھے کیا فلسفہ کارفرما تھا۔ دنیا میں آنے والی دیگر آفات کا بھی یہی حال ہے۔ ہمیں قرآن کریم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس وقت تک کسی قوم کو ختم نہیں کیا گیا، جب تک ان کی نافرمانی اور سرکشی حد سے تجاوز نہ کرگئی۔ کرونا وائرس کی انفیکشن اور اس کے عالمی رساؤ کی مثال اس سے قبل نہیں ملتی، گذشتہ ادوار میں آنے والی ہر آفت، ہر مسئلہ، ہر وبا کسی ایک علاقے سے مخصوص رہا یا اس کے رساؤ کی رفتار ایسی نہ تھی، جو کرونا کی ہے۔ کرونا نے تو ایک مرتبہ تو دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اگرچہ اس کی شرح اموات دیگر وبائی امراض کی نسبت کم ہے، تاہم اس کا پھیلاو بڑی بڑی معیشتوں کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں ہے۔

اس ایک جرثومے کے دنیا میں پھیلاو اور اس کے عالمی معیشت پر اثرات کو دیکھا جائے تو ہمارے لیے خدا کے دست رحمت پر ایمان لائے بغیر چارہ نہیں ہے۔ کیا دنیا میں فقط ایک ہی جرثومہ ہے، جو یوں انسانوں کی زندگیوں کو معطل کرسکتا ہے۔ اگر ایک ہی وقت کرونا جیسے دو یا تین جرثومے دنیا پر حملہ آور ہو جائیں تو انسانوں کی کیا حالت ہوگی؟ اگر ان جرثوموں کے ہمراہ خدا نہ کرے زلزلے اور طوفان بھی آنے لگ جائیں تو نہیں معلوم کتنے لوگ اپنا ذہنی توازن قائم رکھ پائیں گے۔ کہاں امریکہ اور یورپ اپنے ایک شہری کے مرنے پر واویلا کیا کرتا تھا اور کہاں ایک ہی دن میں سینکڑوں اموات کے سامنے امریکیوں اور یورپیوں کی بے بسی۔ یہ وبا پوری انسانیت کے لیے لمحہ فکریہ ہے، اللہ کی جانب سے غور و فکر کا ایک موقع ہے۔ ہمیں موقع فراہم کیا گیا ہے کہ ہم اپنی اصلاح احوال کر لیں اور یقیناً بہت سے لوگ اس جانب متوجہ بھی ہوں گے، تاہم بعض انسانی گروہوں میں فرعونیت شاید اس حد تک رچ بس جاتی ہے کہ وہ فرعون والی حالت سے دوچار ہوئے بنا اپنی روش میں کوئی تبدیلی نہیں لاتے۔

کرونا وائرس کی عالمی وبا جہاں انفرادی طور پر ہر انسان کے لیے ایک الہیٰ اشارہ ہے، وہیں یہ وبا اور اس کے ملکوں پر اثرات فرعون صفت حکمرانوں کے لیے ایک واضح اشارہ ہیں، اگر وہ اس اشارہ کو سمجھیں۔ آج جبکہ پوری دنیا اور بالخصوص اٹلی اور ایران اس آفت کا سب سے زیادہ شکار ہیں، انسانیت کا تقاضا یہ تھا کہ ہم اپنے قومی، سیاسی اور سفارتی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک دوسرے کی مدد کرتے، لیکن اس موقع پر بھی ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں لگانا امریکی حکومت کی فرعونیت کی واضح دلیل ہے۔ وہ اب بھی سیاست کر رہے ہیں اور مشکل کی اس گھڑی میں ایران کو مزید کمزور کرنے کے درپے ہیں۔ ایسے ہی ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ اس مسئلہ کو فرقہ واریت اور مفادات کی عینکوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں بحیثیت انسان اپنے رویوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ خداوند کریم ہماری حالت اور ناتوانی پر رحم فرمائے اور جلد اس عذاب سے پوری انسانیت کو امان بخشے۔آمین
خبر کا کوڈ : 851803
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سید منور علی نقوی. کراچی. 03212134591
سبحان اللہ، نہایت ہی سادہ اور آسان اسلوب میں اصل پیغام پہنچایا ہے. مختصر مگر ایک مکمل اصلاح احوال کی جاذب نظر، دل کو موہ لینے والی تحریر ھے. بہترین ترتیب سے چلتے ہوئے آج کے دور تک لے آئے۔ خداوند متعال آپ کو بہترین اجر عطا فرمائے، سلامت رہیں، توفیقات میں اضافہ فرمائے۔ الہیٰ آمین بحق محمد و آل محمد علیھم السلام. خدا حافظ. التماس دعا.
ہماری پیشکش