QR CodeQR Code

کورونا وائرس خدانخواستہ کچی آبادیوں میں پھیلا تو کیا ہوگا؟

23 Mar 2020 17:41

اسلام ٹائمز: وفاقی و صوبائی حکومتیں ان کچی آبادیوں یا غیر رسمی بستیوں میں رہنے والے 3 کروڑ 44 لاکھ (34.4 ملین) افراد کے خطرے سے دوچار ہونے کے بارے میں کوئی گفتگو نہیں کر رہیں، جو ایک انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے۔ حکومتی ادارے بخوبی واقف ہیں کہ بہت کم آمدنی والی بستیوں میں بنیادی سہولیات اور خدمات کا فقدان ہے۔ غیر محفوظ پانی، ناکافی صفائی ستھرائی، کھلی نکاسی آب اور گندے پانی کے ڈھیر یہ تمام عوامل ہیں جو مختلف اقسام کے وائرس کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں، متعدی بیماریوں کے زیادہ پھیلاؤ کی بنیادی وجوہات یہی ہیں۔


رپورٹ: ایس ایم عابدی

کورونا تو ہمیں بعد میں مارے گا، ہمیں تو ہماری حکومت نے کورونا سے پہلے ہی جیتے جی مار ڈالا ہے۔ قائداعظم کالونی کراچی کے رہائشی کہتے ہیں کہ ایک جانب حکومت احتیاطی تدابیر کے اعلانات کر رہی ہے جبکہ دوسری جانب ہمارے پاس سر چھپانے کو جگہ نہیں، جو حکومت چھت فراہم نہیں کرسکتی، وہ کورونا کا کیا کرے گی۔؟ قائداعظم کالونی (جو کہ ضلع وسطی میں کراچی سرکلر ریلوے سے ملحقہ 100 سے زائد خاندانوں پر مشتمل آبادی تھی اور حکومتی اداروں نے مئی 2019ء میں اس آبادی کو مسمار کر دیا تھا) کے مکین آج بھی اپنے مکانوں کے ملبے پر زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پانی کی فراہمی تو دور کی بات، یہاں خواتین، بچوں کیلئے باتھ روم کی سہولت تک نہیں، ہمارے لئے تو کورونا مئی 2019ء میں آگیا تھا، جب ہمارے گھروں کو مسمار کرکے ہمیں بے گھر کردیا گیا تھا اور سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود سندھ حکومت نے ہماری آبادکاری کیلئے اب تک کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے، صرف ہماری آبادی نہیں بلکہ حسین ہزارہ گوٹھ، جمعہ گوٹھ، غریب آباد، موسیٰ کالونی، واحد کالونی، مجاہد کالونی تک 1000 سے زائد خاندان مسماری و بے دخلی کا شکار ہوئے ہیں، یہ تمام وہ آبادیاں ہیں، جہاں پہلے ہی ناقص انفراسٹرکچر کے مسائل تھے اور مئی 2019ء میں ہونے والی مسماری کے بعد صورتحال مزید بدتر ہوچکی ہے۔

کورونا وائرس ایک وبائی مرض کے طور پر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، ایک ایسا وبائی مرض جس کا کوئی علاج فی الوقت دستیاب نہیں، ماسوائے احتیاط کے۔ جس میں یہ بیانیہ سامنے آرہا ہے کہ ہم اپنے ہاتھ اکثر اور کم از کم 30 سیکنڈ تک دھوئیں اور بیمار ہونے کی صورت میں خود کو قرنطینہ میں (الگ تھلک) رکھیں، لیکن اگر ہم یہ سوچیں کہ پاکستان میں کتنے لوگ ایسے ہیں، جو ان میں سے ایک بھی کام نہیں کرسکتے، کیونکہ ان کے پاس ہاتھوں کو دھونے کیلئے صاف پانی کی وافر مقدار موجود نہیں اور نہ ہی ان کے پاس جگہ کے لحاظ سے اتنی سہولت موجود ہے کہ وہ خود کو دوسرے لوگوں سے الگ تھلگ رکھ سکیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ  ایسے خطرناک حالات میں ان افراد کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا حکومت وقت اس بارے میں کچھ سوچ رہی ہے۔؟ ابھی تک کورونا وائرس کی اطلاع پاکستان میں صرف اعلیٰ اور درمیانی آمدنی والے علاقوں میں ملی ہے، جہاں صحت کا اوسط نظام موجود ہے اور حالات عام طور پر صفائی ستھرائی والے ہیں، لیکن اگر یہ بیماری کم آمدنی والی بستیوں میں پھیل جائے تو کیا ہوگا۔؟

پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ حالیہ آبادی مردم شماری 2017ء کے نتائج کے مطابق پاکستان کی مجموعی آبادی 207.8 ملین ہے۔ اس کی شہری آبادی، ملک کی کل آبادی کا تقریباً 36.4 فیصد ہے، جو تقریباً 7 کروڑ 56  لاکھ  (75.6 ملین) افراد بنتا ہے۔ ملینئم ڈیولپمنٹ اہداف سے متعلق اقوام متحدہ کی سائٹ کے مطابق پاکستان کو کچی آبادیوں کے شدید مسائل کا سامنا ہے اور 2015ء میں پاکستان کی شہری آبادی کا تقریباً 45.5 فی صد کچی آبادیوں میں رہائش پذیر تھا۔ ایک کچی آبادی کے افراد کو اسی چھت کے نیچے رہنے والے افراد کے ایک گروپ کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ مندرجہ بالا اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 3 کروڑ 44 لاکھ (34.4 ملین) افراد کچی آبادیوں یا غیر رسمی بستیوں میں رہتے ہیں، جہاں بنیادی ضروریات کیلئے پانی کی فراہمی بہت کم ہے، اس کے ساتھ ساتھ بہتر پانی تک رسائی، بہتر صفائی تک رسائی، رہائش کا مناسب مقام اور رہائش کے استحکام کا فقدان ہے، ایسے افراد کیلئے کہ جب بنیادی ضروریات کیلئے پانی کی فراہمی نہ ہو، ایسی صورت میں 30 سیکنڈ تک ہاتھ دھونے کا کوئی تصور نہیں ملتا۔

ان کچی آبادیوں میں جگہ محدود ہے اور کمرے اکثر مشترک ہوتے ہیں۔ ایک کمرے میں ایک خاندان کے 8 سے 10 افراد رہنے پر مجبور ہیں۔ کچھ جگہوں پر یہ صورتحال ہے کہ 15 سے 20 افراد ایک بیت الخلاء شیئر کرنے پر مجبور ہیں۔ یوں گنجان آبادی  والے علاقے کورونا وائرس جیسی بیماری کے پھیلاؤ کیلئے خاص طور پر زرخیز بنیاد فراہم کرتے ہیں، کیونکہ یہاں وائرس ایک شخص سے آسانی سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتا ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں ان کچی آبادیوں یا غیر رسمی بستیوں میں رہنے والے 3 کروڑ 44 لاکھ (34.4 ملین) افراد کے خطرے سے دوچار ہونے کے بارے میں کوئی گفتگو نہیں کر رہیں، جو ایک انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے۔ حکومتی ادارے بخوبی واقف ہیں کہ بہت کم آمدنی والی بستیوں میں بنیادی سہولیات اور خدمات کا فقدان ہے۔ غیر محفوظ پانی، ناکافی صفائی ستھرائی، کھلی نکاسی آب اور گندے پانی کے ڈھیر یہ تمام عوامل ہیں، جو مختلف اقسام کے وائرس کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں، متعدی بیماریوں کے زیادہ پھیلاؤ کی بنیادی وجوہات یہی ہیں۔


خبر کا کوڈ: 851944

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/851944/کورونا-وائرس-خدانخواستہ-کچی-آبادیوں-میں-پھیلا-کیا-ہوگا

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org