0
Friday 27 Mar 2020 21:48

بیماریاں اور آفات و بلیات، دینی اعتقادات کو زیر سؤال لانے کی کوشش(3)

بیماریاں اور آفات و بلیات، دینی اعتقادات کو زیر سؤال لانے کی کوشش(3)
تحریر: سید حسن رضا نقوی

چھٹا سؤال: اگر آئمہ کے حرم سے شفا ملنا ایک غیر عادی سبب ہے اور اس کیلئے کسی خاص مصلحت کا وجود ضروری ہے تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ وہاں سے شفا کا ملنا یقینی نہیں ہے بلکہ صرف ایک احتمال ہے، ایسی صورت میں وہاں سے شفا مانگنے کا کیا فائدہ۔؟
مختصر جواب:
ہم ایسا سؤال کرنے والے سے یہ سؤال کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ کیا ڈاکٹر کی دوا یا علاج سے شفا ملنا یقینی ہوتا ہے۔؟ کیا خدا سے دعا کرکے یقینی طور پر شفا لی جاسکتی ہے۔؟ کیا خانہ کعبہ کی زیارت سے شفا کا حصول یقینی ہے۔؟ ان سب صورتوں میں شفا کا حصول احتمالی ہے، کیونکہ شفا حتمی تب ہوگی، جب خدا شفا کا ارادہ فرمائے گا اور ممکن ہے کہ خدا شفا کا ارادہ نہ فرمائے کسی خاص مصلحت کی وجہ سے یا اس وجہ سے کہ خدا اس مریض کی موت کا حتمی ارادہ کرچکا ہے۔

تفصیلی جواب: ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے حرم اور انکی زیارت کا فائدہ صرف جسمانی امراض کی شفایابی میں منحصر نہیں کہ ہم کسی ایک مورد میں شفا نہ ملنے پر زیارت کی اہمیت کو کم سمجھنے لگیں۔ جس طرح خدا سے دعا کی جائے اور قبول نہ ہو تو اس قبول نہ ہونے میں ضرور کوئی مصلحت پوشیدہ ہے، اسی طرح اہل بیت کے حرم سے اگر شفا نہ مل رہی ہو تو اسی میں اس شخص کے لیے مصلحت ہے۔ اس کے علاوہ اہل بیت کی زیارت کا سب سے عظیم اور قیمتی فائدہ خدا کا قرب اور انسانی کمال کا حصول ہے۔ حرم اہل بیت میں گزرا ایک ایک لمحہ انسان کے لیے نیکیوں میں اضافے اور گناہوں کی مغفرت کا باعث بنتا ہے۔ انسان کی روحانی امراض کو یہیں شفا ملتی ہے اور وہ یہاں سے اپنی ابدی زندگی کے لیے بہترین توشہ راہ کو حاصل کرتا ہے۔ البتہ خدا کے خاص بندے آئمہ اہل بیت کے حرموں میں صرف لین دین یا فائدہ کے حصول کے لیے نہیں آتے، بلکہ ان کے قلوب میں موجود محبت اہل بیت کی تپش انہیں حرم کا پروانہ بنا کر رکھتی ہے۔ لہذا ظاہری ملے یا نہ ملے، اہل بیت کے حرم سے ہمارا عشق کم نہیں ہوسکتا۔

ساتواں سؤال: بیماری، وبا اور آفات میں علمائے دین بھی میڈیکل سائنس کے محتاج ہیں، لہذا اسلام میڈیکل سائنس کے مقابلے میں شکست کھا گیا۔؟
جواب:
اس سؤال کے پیچھے ایک سادہ فکر کار فرما ہے، جس کے مطابق اسلام اور سائنس دو مدمقابل چیزیں ہیں، لیکن اس فکر کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔ آیت اللہ جوادی آملی علوم اسلامی کے حوالے سے نظر دیتے ہوئے فرماتے ہیں (کہ تمام علوم علوم اسلامی ہیں، چاہے وہ مروجہ دینی علوم ہوں، علوم انسانی ہوں یا سائنسی اور تجرباتی علوم، کیونکہ یہ سارے علوم یا قول خدا سے بحث کر رہے ہیں یا فعل خدا سے)(9) دینی علوم عالم تشریعی سے بحث کرتے ہیں اور سائنسی علوم عالم تکوینی سے اور تشریع و تکوین دونوں کا خالق خدا ہے۔ لہذا ان دونوں میں کسی قسم کا تضاد نہیں۔ اگرچے بعض اوقات انسان اپنے غلط فہم و استنباط کی وجہ سے تضاد کا قائل ہو جاتا ہے۔ اگر حوزوی اصطلاح میں عرض کروں تو دین اور سائنس میں تضاد عالم اثبات میں ہوسکتا، عالم ثبوت میں نہیں۔

سائنسی علوم کا کام اس عالم کی موجودات، ان کے روابط اور ان روابط کی پیچیدگیوں کو کشف کرنا ہے اور اسلام اس تفکر و تدبر پر بارہا زور دیتا نظر آتا ہے۔ اسی میڈیکل سائنس کا کام انسانی جسم کو بیماریوں سے بچا کر سالم رکھنا ہے کہ جو اسلام کی نظر میں ایک انتہائی اہم وظیفہ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ عالم دین اپنے جسم کی سلامتی کے لیے طبیب کا محتاج ہے اور یہ کوئی عیب نہیں، بلکہ تقسیم کار اجتماعی زندگی کا لازمہ ہے۔ ہم میں سے ہر شخص ایک جھت میں درزی، ایک جھت میں حجام، ایک جھت میں انجینیئر اور ایک جھت میں ڈاکٹر کے محتاج ہیں، لیکن سب سے اہم اور مقدس جھت وہ جھت ہے، جس میں غیر عالم عالم دین کا محتاج ہے اور وہ جھت ہے اپنے دین کی، اپنی روح کی اور اپنی سعادت دنیوی اور اخروی کی حفاظت کی جھت۔

آٹھواں سؤال: کیا کرونا وائرس سے بچنے کیلئے خانہ خدا کے طواف، اہل بیت علیہم السلام کے حرم کی زیارت، نماز جماعت اور مجالس عزا میں شرکت سے اجتناب کریں۔؟
جواب:
سب سے پہلے یہ ذہن نشین رہنا چاہیئے کہ کوئی خاص جگہ یا مقام کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب نہیں بنتا بلکہ کسی خاص مقام پر انسانوں کا اجتماع ہے، جو کرونا وائرس یا کسی بھی وبا کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتا ہے۔ قرآنی آیات اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اپنی اور دوسروں کی جان بچانا واجب ہے۔ دوسری طرف شریعت میں عمرہ، زیارت، نماز جماعت اور مجلس عزاء کا اجتماع مستحب ہے (محبت اور ولایت اہل بیت علیہم السلام اہم ترین واجبات میں سے ہے، لیکن اس محبت کا اظہار زیارت یا مجلس عزاء میں شرکت کی صورت میں مستحب ہے) اگر ہمیں یقین ہو کہ دینی اجتماعات میں شرکت سے یہ بیماری مزید پھیلے گی اور ہماری اور دوسرے مومنین کی جان کے لیے خطرناک ثابت ہوگی تو واجب کی تحصیل کے لیے مستحب کو چھوڑنا ضروری ہو جائے گا۔

البتہ اگر ہمیں یقین ہو کہ حفظانِ صحت کے اصولوں کا خیال رکھتے ہوئے یہ اجتماعات منعقد کیے جا سکتے ہیں تو کوئی حرج نہیں اور اس مسئلہ میں ماہرین کی رائے پر عمل ہی ہمارا شرعی وظیفہ ہے۔ ایک قابل توجہ بات یہ ہے کہ ماہرین کی رائے کے مطابق صرف چند دن دینی اجتماعات سے پرہیز ضروری ہے، تاکہ وائرس کا چین (Chain) ٹوٹ سکے، اس کے بعد عمرہ و زیارت و مسجد و مجلس ہر عبادت کی جاسکے گی۔ دوسری بات یہ کہ ائمہ علیہم السلام سے توسل، ان کا ذکر کسی خاص مکان سے مخصوص نہیں ہے۔ لہذا ہم اپنے گھر کے افراد گھروں میں بیٹھ کر مجلس بھی برپا کرسکتے ہیں، توسل بھی کرسکتے ہیں اور اہل بیت علیہم السلام کے فیض سے بہرہ مند بھی ہوسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
📚 منابع 📚

1⃣- اس مقالہ میں ذکر کیے گئے اکثر مطالب کو درج ذیل کتابوں میں تفصیلی بیان اور دلائل کے ساتھ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
آموزش عقائد (آیت اللہ مصباح یزدی)
خدا شناسی (سلسلہ معارف قرآن) (آیت اللہ مصباح یزدی)
الھیات (آیت اللہ جعفر سبحانی)
توحید در قرآن (آیت اللہ جوادی آملی)
بدایة المعارف (آیت اللہ محسن خرازی)
2⃣- مدینة معاجز الأئمة الإثنی عشر و دلائل الحجج علی البشر/ جلد 3/ صفحه 486
3⃣- سورة البقرة / آيت 157,156,155
4⃣- قاعدہ فلسفی جو خدا کی توحید افعالی کو بیان کرتا ہے۔
5⃣- اصول کافی/ جلد 1/ کتاب الحجۃ/ باب معرفۃ الامام والرد الیہ/ حدیث 7
6⃣- مکارم الاخلاق (علامہ طبرسی)/ جلد 1/ صفحہ 362
7⃣- میزان الحکمۃ (آقای ری شھری)/ جلد 4/ صفحہ 166
8⃣- سورة الشعراء/ آیت 80
9️⃣- آیت اللہ جوادی آملی/ گفتگو/ 29 آبان 1392 ھجری شمسی
خبر کا کوڈ : 852433
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش