0
Wednesday 25 Mar 2020 20:09

بلتستان کی چند قابل تقلید مثالیں

بلتستان کی چند قابل تقلید مثالیں
تحریر: لیاقت علی انجم

ایک ایسے وقت میں جب کرونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور عالمی وبا کو روکنے کیلئے حکومتوں سے سائنسدانوں تک سب بے بس ہیں، ایسے میں پوری دنیا کو شدید طبی اور اقتصادی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ اس وقت تقریباً پوری دنیا میں لاک ڈائون ہے۔ بازار، مارکیٹیں، صنعت اور تجارت بند ہونے سے جہاں ملکوں کی معیشت کے پہیے جام ہوچکے ہیں، وہاں علاج و معالجے کے سنگین مسائل کا بھی سامنا ہے۔ جس طرح یہ وائرس یکدم پورے معاشرے، شہر اور ملک کو لپیٹ میں لے رہا ہے، اس سے تمام تر حکومتی مشینری مفلوج ہو کر رہ گئی ہے، کیونکہ اتنے بڑے پیمانے پر رونما ہونے والے سانحے سے اکیلی حکومت نمٹ نہیں سکتی، اس کیلئے ہر فرد کو کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ پوری دنیا کی طرح پاکستان بھی وائرس سے شدید متاثر ہو رہا ہے۔ خاص طور پر گلگت بلتستان بہت زیادہ متاثر ہے، جہاں آخری اطلاع کے مطابق وائرس کے 81 کیسز سامنے آچکے ہیں اور وائرس سے لڑتے ہوئے ایک ڈاکٹر بھی اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

جی بی میں ضلع نگر اور بلتستان سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ کووڈ 19 کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ اس وائرس کا علاج عوام کے ہی ہاتھ میں ہے، جب تک عوام خود تعاون نہیں کرینگے، تب کوئی بھی کوشش کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ اس صورتحال میں بلتستان سے چند قابل تقلید مثالیں سامنے آرہی ہیں۔ یہ موجود حالات میں پورے ملک کیلئے یقیناً قابل تقلید ہے۔ بلتستان میں جب کرونا کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا تو صورتحال کی سنگینی کا اس وقت احساس ہوا، جب یہ معلوم ہوا کہ پورے بلتستان کے سرکاری ہسپتالوں میں طبی سہولیات کے فقدان کے ساتھ ایک بھی وینٹی لیٹر موجود نہیں۔ کرونا وائرس سے نمٹنے کیلئے وینٹی لیٹر بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔ گلگت میں صرف دو وینٹی لیٹر تھے۔ چونکہ پورے پاکستان میں وینٹی لیٹر کی کمی پائی جاتی ہے اور وفاقی حکومت بھی سنگین مالی بحران سے دوچار ہے۔ اس صورتحال میں وفاق سے فوری طور پر طبی سہولیات خصوصاً وینٹی لیٹر کی فراہمی ایک خواب سے کم نہیں تھی۔

اس وقت بلتستان کے ڈاکٹروں اور دیگر سماجی شخصیات نے اپنی مدد آپ کے تحت چندہ مہم شروع کر دی اور اسی دن 30 لاکھ روپے سے زائد کی رقم جمع ہوگئی۔ آخری اطلاع تک 69 لاکھ روپے جمع ہوچکے ہیں اور عوام کھلے دل کے ساتھ مہم میں حصہ لے رہے ہیں، خصوصاً بیرون ممالک میں مقیم جی بی کے شہریوں کی طرف سے دل کھول کر امداد کی گئی۔ بلتستان کے ڈاکٹروں کی اس مہم کا ہدف سوا کروڑ روپے جمع کرنا ہے۔ اس رقم سے پانچ سے چھ وینٹی لیٹر حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق ایک وینٹی لیٹر کی قیمت 36 سے 40 لاکھ روپے ہے، جبکہ اچھی کنڈیشن میں استعمال شدہ وینٹی لیٹر 10 سے 15 لاکھ روپے تک مل جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگر اچھی کنڈیشن میں سکینڈ ہینڈ وینٹی لیٹر مل جاتا ہے تو اس رقم سے  6 سے 7 وینٹی لیٹر حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ یہی نہیں ڈاکٹروں کی جانب سے اپنی مدد آپ کے تحت آئی سی یو روم کا قیام بھی عمل میں لایا جا رہا ہے۔ اس کار خیر میں حکومت کا کوئی بھی کردار نہیں ہے۔

بلتستان بھر کے عوام نے ڈاکٹروں کی طرف سے شروع کی گئی چندہ مہم کا خیر مقدم کرتے ہوئے ڈاکٹروں کی آواز پر لبیک کہا۔ جب تک عوام میں شعور بیدار نہیں ہوگا، تب تک صحت کے مسائل حل نہیں ہونگے۔ حکمرانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کیلئے یہ کافی ہے کہ آج اہل بلتستان ہسپتال میں وینٹی لیٹر لانے کیلئے کھڑے ہوگئے ہیں۔ سکردو ہسپتال میں اس جدید دور میں بھی ایک عدد وینٹی لیٹر تک موجود نہیں ہے، کئی مرتبہ حکومت کی توجہ اس اہم مسئلے کی جانب مبذول کروائی گئی، مگر کوئی توجہ نہیں دی گئی، جب کورونا وائرس کی وبا پھیلنے لگی اور صورت حال سنگین ہوئی تو اہل بلتستان خود چندہ مہم کیلئے آگے بڑھ گئے۔ دوسری جانب پاکستان پیپلزپارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے ممبر و سابق وزیراعلیٰ سید مہدی شاہ نے ڈاکٹروں کی جانب سے وینٹی لیٹرز کی خریداری کیلئے شروع کی گئی چندہ مہم کو بارش کا پہلا قطرہ قرار دیا ہے۔

انہوں نے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا ہے اور اپنی جانب سے مبلغ ایک لاکھ روپے چندہ ڈائریکٹر ہیلتھ بلتستان کے دفتر میں جمع کرانے اور تین شعبان المعظم کو یوم الحسین کے موقع پر اپنے گھر پر منعقد ہونے والے جشن کے تبرکات کی رقم بھی وینٹی لیٹرز کی خریداری کیلئے دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے پارٹی کے تمام کارکنوں اور جیالوں کو وینٹی لیٹرز کی خریداری کیلئے بلتستان کے ڈاکٹروں کی طرف سے شروع کی گئی چندہ مہم میں بھرپور طریقے سے حصہ لینے کی ہدایت کر دی ہے۔ بات یہی تک محدود نہیں ہے۔ کرونا وائرس سے بچنے کیلئے اہم ترین ہتھیار فیس ماسک ہے، لیکن یہ ماسک اس وقت مارکیٹ میں ناپید ہوچکا ہے۔

اس مشکل کو حل کرنے کیلئے سکردو کے عوام نے گھریلو ساختہ ماسک بنانا شروع کر دیئے ہیں اور تقسیم بھی کرنے لگے ہیں۔ کھرمنگ اور دیگر اضلاع میں بھی بڑے پیمانے پر ماسک تیار اور فی سبیل اللہ تقسیم کئے جا رہے ہیں۔ اس پورے منظرنامے کا تاریک پہلو منتخب نمائندے، ممبران اسمبلی، وزراء کا منظر عام سے غائب ہونا ہے۔ صرف گلگت بلتستان میں ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں یہی صورتحال ہے، جہاں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر ایوان اقتدار میں پہنچنے والے ایم این ایز اور ایم پی ایز عوام کو تنہا چھوڑ کر خود قرنطینہ میں چلے گئے ہیں۔ جی بی میں جب سے کرونا وائرس پھیلنا شروع ہوا ہے، تب سے ایک بھی ایم ایل اے عوام کو نظر نہیں آیا اور وہ سب گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہیں۔
خبر کا کوڈ : 852552
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش