0
Wednesday 25 Mar 2020 17:58

وبائیں بھی مسلکی و علاقائی ہوگئیں

وبائیں بھی مسلکی و علاقائی ہوگئیں
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

کرونا وائرس نے دنیا کے ہر حصے کو متاثر کیا ہے، معیشت، ثقافت، مذہب غرض رسم و رواج تک کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ عبادات کو ہی دیکھ لیں، عمرہ پر پابندی عائد ہوچکی ہے، مشہد، قم، کربلا اور نجف کی کی زیارات بند ہوچکی ہیں۔ نماز جمعہ کے اجتماعات پر پابندی سے شروع ہونے والی بات چیت عزاداری کو سمیٹتے ہوئے اب نماز جماعت کو لپٹ میں لے رہی ہے۔ ملتے وقت ہاتھ ملایا جاتا تھا، تعلقداری کے حساب سے لوگ گلے ملتے تھے، اب یہ بات دشمنی لگتی ہے۔ ابھی کل ہی ہمارے محلے میں ایک خاتون کا انتقال ہوا، ان کے ہاں والدہ محترمہ کا جانا اور اس کے جنازے میں شرکت ایک معرکے سے کم نہ تھی۔ وہاں بھی عجیب سماں تھا، جہاں سینکڑوں لوگ ہونے چاہیں تھے، چند لوگ گلی میں دور دور کھڑے تھے، کوئی بھی تعزیت کے لیے بچھی دریوں پر بیٹھنے کے لیے تیار نہ تھا۔ غرض چند گھنٹوں میں ہی غسل، جنازہ اور تدفین کے تمام مراحل اس طرح سر انجام دیئے گئے کہ فوتگی سے بڑا المیہ یہ رسم و رواج بن رہے تھے۔

ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب نے  لکھا میری یہ عادت ہے کہ جب بھی میری بیٹی میرے گھر آتی ہے، میں کھڑے ہو کر اس کا استقبال کرتا ہوں، پیشانی کا بوسہ لیتا ہوں اور اپنی جگہ بٹھاتا ہوں، مگر عجیب صورتحال درپیش ہے، وہ گھر میں داخل ہوئی، سیدھی بیسن پر گئی، ہاتھ منہ اچھی طرح دھویا اور دور دور سے ہی سلام دعا ہوئی۔ ویسے قیامت کا جو منظر بیان کیا گیا ہے، وہی ہوگیا کہ ماں باپ اولاد سے اور اولاد ماں باپ سے بھاگ رہی ہوگی۔ لوگوں کی شادیاں جس انداز میں ہو رہی ہیں، یہ الگ سے موضوع ہے اور اب تو پچھلے کئی روز سے مرضی کی قید تنہائی میں ہیں، جس کے نفسیاتی اثرات جانے کب تک رہیں گے۔

امریکی صدر بضد ہیں اور اپنی ہر دوسری پریس ٹاک میں اس وائرس کو چینی وائرس کہہ رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ چینی کلچر کی پیداوار ہے، جس نے دنیا کو متاثر کیا ہوا ہے، کیونکہ وہ سانپ، بچھو، چوہے، نیولے غرض ہر چیز چٹ کر جاتے ہیں، اس لیے پچھلے تیس سال کی اکثر وبائیں چائنہ سے پھوٹی ہیں۔ چائنہ نے اسے نسل پرستی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر اسی حساب سے نام رکھے جائیں تو سوین فیور افریقہ  سے آیا، اسے افریقہ وائرس کہا جائے؟ اسی طرح میرس وائرس سعودی عرب میں پیدا ہوا، کیا اسے سعودی وائرس کہا جائے؟ وائرس کا آغاز کہیں سے بھی ہوسکتا ہے اور پوری دنیا کو اس سے مل کر لڑنا ہوگا۔ مگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کون سمجھائے کہ یہ آفتیں مل کر ہی ختم کی جا سکتی ہیں، مگر اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی کے مصداق ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے نسل پرستی کا نشانہ بنا ڈالا اور اسلامی جمہوری ایران کے عوام کو درپیش اس مشکل چیلنج سے نبردآزما ہونے  میں غیر انسانی رویئے کا مظاہرہ کرتے ہوئے مزید پابندیاں عائد کر دیں، جس کی وجہ سے ایران اب ادویات تک درآمد نہیں کرسکتا۔

وطن عزیز کی بات کی جائے تو یہاں بھی ہر طرف نرالے نرالے تجزیئے و تبصرے سننے کو ملتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ وائرس ایران سے پاکستان آیا ہے، اگر ایران کا بارڈر بند ہوتا تو ہم محفوظ رہتے۔ عجیب خیال کے لوگ ہیں، ان کا بس نہیں چل رہا، ورنہ اٹلی میں پھیلے کرونا کی وجہ تفتان بارڈر اور ایران کو قرار دے ڈالیں۔ حقائق سے آنکھیں نہیں چرانی چاہیں، پاکستان میں جو زائرین ایران سے آئے، انہیں باقاعدہ ایک پروٹوکول کے مطابق لایا گیا، پہلے تفتان پر چودہ دن رکھا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ جس انداز میں رکھا گیا، اس پر الجزیرہ اور گارڈین نے سرخیاں جمائیں کہ غیر انسانی انداز میں رکھا گیا، جس میں ان ایس او پیز کا بالکل خیال نہیں رکھا گیا، جو ڈبلیو ایچ او نے بنائے تھے۔ پنجاب میں کرونا کا پہلا مریض لندن سے آیا تھا، اسی طرح پنجاب میں کرونا کی وجہ سے جس کا انتقال ہوا، وہ افراسیاب نامی شخص تھا، جس کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے وہ بھی زائر نہیں تھا۔

عوامی سطح پر جس نے پہلی بار کرونا پھیلایا، پاکستان میں کرونا سے پہلی موت ہوئی، وہ مردان کا عمرہ پلٹ بزرگ تھا۔ اس کے بعد پاکستان میں پہلی بار ایک پوری یونین کونسل کو لاک ڈاون کرنا پڑا۔ اسلام آباد میں کرغرستان سے آئے تبلیغی جماعت کے آدمی نے وائرس پھیلایا، جس کی وجہ سے پورے علاقے کو سیل کرنا پڑا۔ گجرات میں لندن پلٹ شخص نے کئی لوگوں میں یہ وائرس منتقل کیا۔ سندھ کے وزیر عبدالغنی نے کہا کہ زائرین تو ہمارے پاس موجود ہیں، ان کا مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ ان ہزاروں لوگوں کا ہے، جو گھروں میں ہیں۔ اس کی تائید بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال نے بھی کی کہ تمام زائرین ہمارے ہاتھوں میں ہیں، جتنے لوگ آرہے ہیں، سب کے سب سکیورٹی میں ہمارے پاس ہیں، ان کا مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ ان نو لاکھ لوگوں کا ہے، جو پچھلے چند ہفتوں میں آئے ہیں اور ان کی کوئی سکیننگ نہیں ہوئی۔

سابق وزیراعلی پنجاب شہباز شریف نے جب تفتان کو ٹارگٹ کیا تو شہباز گِل نے درست جواب دیا کہ شہباز شریف صاحب سیاست کسی اور چیز پر کر لیں، امریکہ نے ایک بھی بندے کو سکرین نہیں کیا۔ تمام لوگ بغیر کسی سکریننگ کے امریکہ میں داخل ہوئے۔ ہم نے 9 لاکھ لوگوں کو سکرین کیا۔ تفتان تفتان آپ کرتے ہیں، بغیر سوچے کہ اس سے آپ ایک فرقے کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔ جو 85 ہزار عمرہ سے واپس آئے، ان کا کیا۔؟ ایران سے آنے والے زائرین کو چائنہ کے پاکستانی طلبہ کے ساتھ مکس کیا جاتا ہے، عجیب لوگ ہیں، وہ طلباء ہمارے بچے ہیں، مگر ان کا معاملہ زائرین جیسا نہیں ہے۔ وہ ریاست کے بارڈر پر نہیں آئے ہوئے تھے اور نہ ہی ان کے ویزوں کی مدت ختم ہوچکی تھی اور سب سے اہم بات جس طرح حکومت نے چائنہ کے ساتھ معاملہ طے کیا تھا، حکومت ایران کے ساتھ ڈپلومیٹک چینل سے بات کی جاتی تو صورتحال بہت ہی مختلف ہوسکتی تھی۔

یہ قومی ریاست کا زمانہ ہے، اس میں کوئی ریاست اپنے شہریوں کو قبول کرنے کے حوالے سے بین الاقوامی قانون کی پابند ہے۔ یہ ایک بین الاقوامی وبا ہے۔ امریکہ، چائنہ، یورپ اور دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک نے اپنی تمام تر کوششیں کرکے دیکھ لیں، مگر وائرس وہاں بھی پھیل چکا ہے۔ صرف نیوریارک میں کرونا متاثرین کی تعداد پورے ایران کے متاثرین سے زیادہ ہے۔ کرونا کتنا بڑا بحران ہے؟ یہ ہر ملک کی صلاحیتوں کا بھی امتحان لے رہا ہے۔ ابھی ابھی گارڈین پر خبر چل رہی ہے، امریکی صدر نے یورپ اور ایشیاء سے کرونا سے مقابلہ کے لیے مدد مانگی ہے۔ بحران کے آغاز پر ہی امریکی نظام صحت کا یوں بیٹھ جانا، اس کے کھوکھلے پن کو ظاہر کرتا ہے۔ اللہ تمام انسانیت کو اس وبا سے نجات دے۔
خبر کا کوڈ : 852565
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش