0
Wednesday 25 Mar 2020 19:32

دنیا بھر میں کرونا متاثرین کے درست اعداد و شمار

دنیا بھر میں کرونا متاثرین کے درست اعداد و شمار
تحریر: ایس این حسینی

کرونا وائرس کے حوالے سے عالمی سطح پر اب تک جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ اصل اعداد و شمار کا عُشر عشیر بھی نہیں۔ اللہ کرے کہ اصل تعداد اس سے بھی کم ہو، تاہم ذیل میں دی گئی وضاحت سے آپ کے علم میں آہی جائے گا کہ اصل تعداد موجودہ تعداد کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ اس وقت جو اعداد و شمار سامنے آرہے ہیں، وہ انہی لوگوں کے ہیں، جن کا ابھی تک ٹیسٹ ہوا ہے۔ چنانچہ میرے اندازے کے مطابق اس بیماری کے متاثرین کی اصل تعداد کروڑوں میں ہوسکتی ہے۔ ایران، اٹلی اور یورپ کے دیگر ممالک میں جو خطرناک اعداد و شمار سامنے آرہے ہیں، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہاں روزانہ پچاس ہزار سے ایک لاکھ تک لوگوں کے ٹیسٹ کئے جاتے ہیں۔ یوں ان ممالک میں متاثرین کی تعداد لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں میں سے ماخوذ ہیں۔ ایران کے وزیر صحت کے مطابق یہاں آج تک 4 کروڑ 75 لاکھ افراد مجازی و علاماتی ٹیسٹ کے مراحل سے گزر چکے ہیں، جن میں سے 27017 افراد کے ٹیسٹ اب تک مثبت آئے ہیں۔

ان میں سے 9625 افراد شفایاب ہوکر گھر رخصت کئے جاچکے ہیں جبکہ اس بیماری کیوجہ سے آج تک 2 ہزار 77 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، جبکہ ہمارے ملک پاکستان سمیت افغانستان، عرب اور افریقی ممالک میں روزانہ ہزار ٹیسٹ بھی نہیں ہو رہے۔ چنانچہ واضح سی بات ہے کہ ایک ہزار افراد میں اگر 50 یا 100 ٹیسٹ مثبت آتے ہیں، تو اندازہ لگائیں کہ ایک لاکھ میں اور ایک کروڑ میں کتنے ہونگے۔ بہرحال اللہ مالک اور خالق ہے، اسی کی مرضی ہے، جو چاہے کرسکتا ہے۔ اس میں مخلوق کی کوئی مرضی شامل نہیں ہوتی۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں متاثرین کی تعداد 900 کا ہندسہ کراس کرچکی ہے۔ تاہم اصل  ہندسہ لاکھ کو کراس کرسکتا ہے، جس کی چند وجوہات و اسباب ذیل میں مذکور ہیں۔

1۔ ٹیسٹ کٹس کی کمی
ہمارے ہاں ٹیسٹ کٹس اور دیگر سہولیات کا شدید فقدان ہے، جس کے باعث مطلوبہ تعداد میں لوگوں کے ٹیسٹ نہیں ہو رہے، جس کی وجہ سے اصل تعداد کا درست اندازہ نہیں ہو رہا۔
2۔ لوگوں کا عدم تعاون
ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ اپنی بیماریوں سے غافل ہوتے ہیں یا جان بوجھ کر غفلت برتتے ہیں۔ شدید بیماری کی صورت میں بھی ہسپتال جانے کو تیار نہیں ہوتے۔ بعض کو اپنی بیماری سے گھبراہٹ ہوتی ہے کہ کہیں کوئی خطرناک مرض نہ نکلے، چنانچہ انہی وجوہات کی بنا پر لوگ ہسپتال جانے سے کتراتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ متعلقہ ادارے کو صحیح اعداد و شمار میں دقت پیش آتی ہے۔

بیماری بڑھنے کی اہم وجوہات
کرونا اور اس جیسی دیگر متعدی بیماریوں کی روک تھام میں ملک کے اندر پائی جانی والی مندرجہ ذیل کمزوریاں اصل روکاوٹ ہیں۔
1۔ صفائی کا فقدان
پاکستان میں صفائی کا شدید فقدان پایا جاتا ہے۔ کوئی بھی چیز خصوصاً کھانے کی کوئی چیز یہاں آپ کو معیار کے مطابق نہیں ملے گی۔ ہوٹلوں کا اس حوالے سے کردار قابل ذکر ہے کہ وہاں جن پلیٹوں میں کھانا دیا جاتا ہے، انہیں دھوتے وقت ایک ہی ٹب میں ڈال کر دھویا جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی ایک ڈش یعنی پلیٹ میں کوئی وائرس یا نجاست ہو تو پورے ٹب کو وائرس زدہ کر دیا جاتا ہے۔ شہروں اور دیہاتوں میں آپکو ہر جگہ گندگی کے ڈھیر نظر آئیں گے، جبکہ ایران اور یورپی ممالک میں آپکو کسی مقام پر کوئی گندی چیز نظر نہیں آئے گی۔ چنانچہ بیماریاں پھیلنے کا ایک اہم سبب صفائی کا فقدان ہے۔

2۔ علاقائی رسومات
پاکستانی معاشرہ علاقائی رسومات میں بری طرح پھنسا ہوا ہے۔ یہاں بیمار پرسی، جنازہ اور شادی بیاہ وغیرہ جیسے دیگر سینکڑوں سماجی پروگرامات معاشرے کا جزو لاینفک بنے ہوئے ہیں۔ کوئی چاہے بھی، اس زنجیر کو توڑ نہیں سکتا، جبکہ کرونا سمیت دیگر تمام متعدی بیماریوں کے لئے ہمارا معاشرہ مناسب ترین میدان بنا ہوا ہے۔ جو اس بیماری کے پھیلانے کا بنیادی سبب بنے ہوئے ہیں۔
3۔ حکومت کی غفلت
ہمارے یہاں حکومتوں کا کردار ابتداء ہی سے کچھ ایسا رہا ہے کہ عموماً وہ کسی بھی آفت کا سامنا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتیں۔ بعض موارد میں ملک اور معاشرے کو بچانے کا بیڑہ حکومت سے زیادہ عوام ہی اٹھاتے ہیں، عوام میں جذبہ حب الوطنی سرکار سے کچھ زیادہ ہوتا ہے۔ یہی تو وجہ ہے کہ پاکستان کو آج تک اللہ نے دشمن کی ہر سازش سے بچا رکھا ہے۔ تاہم متعددی امراض کے حوالے سے ہمارا معاشرہ انتہائی پسماندہ ہے۔ جس کی اصل ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے، کیونکہ عوامی  شعور بیدار کرنا دراصل حکومت ہی کی ذمہ داری بنتی ہے، جبکہ ہماری حکومت یہ بیڑہ اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

4۔ ہسپتالوں کا منفی کردار
ہسپتالوں میں موجود سٹاف بھی اس حوالے سے کسی سے پیچھے نہیں۔ یہاں ڈاکٹرز کی یہ حالت ہوتی ہے کہ اپنے ذاتی کلینک میں بیٹھے مریضوں کی فکر لاحق ہونے کی وجہ سے وہ 10 بجے ہسپتال پہنچ کر 11 یا زیادہ سے زیادہ 12 بجے تک یہاں سے رخصت ہو جاتے ہیں اور مریض کو دوبارہ ان کے کلینک جانا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر کو اپنی ایک ڈیڑھ لاکھ کی تنخواہ کچھ بھی نظر نہیں آتی، جبکہ آپ نے سنا ہوگا کہ لاہور میں ایک مریض کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد اگلے روز ہسپتال کا پورا عملہ غائب نظر آیا۔ یہ ہے ہمارے معاشرے کی حالت۔ چنانچہ یہ بات بہت افسوس کے ساتھ کہنی پڑتی ہے کہ کرونا نے اگر اٹلی یا ایران جیسی صورت اختیار کی تو ہسپتال آپکو بالکل خالی نظر آئیں گے۔ میرے خیال میں حکومت کی جانب سے یہی اعلان کیا جائے گا کہ اپنے مریضوں کو اپنے گھر کے اندر قرنطینہ کیا جائے۔ اللہ ایسی کسی بھی صورتحال سے ہمیں بچائے رکھے۔آمین
خبر کا کوڈ : 852573
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش