1
Thursday 26 Mar 2020 19:16

میونخ سکیورٹی کانفرنس اور کرونا وائرس سے غفلت

میونخ سکیورٹی کانفرنس اور کرونا وائرس سے غفلت
تحریر: مریم خرمائی

ہر سال فروری کے مہینے میں جرمنی کے شہر میونخ میں ایک ایسی کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں دنیا بھر سے فوجی اور سکیورٹی شعبوں سے وابستہ حکومتی عہدیداران، ماہرین اور تجزیہ کاران شرکت کر کے اپنی اپنی آراء کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ کانفرنس "میونخ سکیورٹی کانفرنس" کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس کانفرنس میں مختلف ممالک کے صدور مملکت، وزرائے اعظم، وزرائے خارجہ اور وزرائے دفاع بھی شریک ہوتے ہیں۔ ماضی میں اس کانفرنس کو محض مغربی ممالک کے گھریلو اجتماع کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب مغربی ممالک نے اس کانفرنس کو بین الاقوامی رنگ دینے کیلئے مشرقی ممالک کو بھی شرکت کی دعوت دینا شروع کر دی تب بھی اس کانفرنس پر مغربی دنیا کے مفادات ہی حاوی رہے ہیں۔ گذشتہ برس جرمنی کی وائس چانسلر اینگلا مرکل اور امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس نے اس کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے مختلف علاقائی اور بین الاقوامی ایشوز جیسے ایران سے جوہری مذاکرات، نارڈ اسٹریم 2 آئل پائپ لائن، نیٹو کے اخراجات وغیرہ سے متعلق انتہائی متضاد موقف کا اظہار کیا۔ ان دونوں سیاسی رہنماوں کی اس مشترکہ پریس کانفرنس کے بعد یہ تاثر پیدا ہوا کہ اب مزید مغربی دنیا سے واحد موقف کی توقع نہیں کرنی چاہئے۔

حقیقت یہ ہے کہ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سیاست کے قدیم انداز کو پسند کرتے ہیں اور موجودہ دور کے ایسے معاہدوں کو زیادہ پسند نہیں کرتے جن میں یکہ تازیوں کی گنجائش موجود نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے اتحادی یورپی ممالک اب دنیا میں آزادی اور جمہوریت کے پھیلاو پر مبنی امریکی نعروں پر عدم اعتماد کا اظہار کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ البتہ امریکہ اور یورپی یونین کے درمیان تعلقات میں سرد مہری گذشتہ صدر براک اوباما کے دور سے ہی شروع ہو گئی تھی۔ ان کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی یورپی ممالک سے امریکہ کے دور ہونے کی رفتار میں تیزی لائی اور بار بار یورپی ممالک کو نیٹو کے اخراجات میں کم حصہ ڈالنے کا طعنہ دے کر انہیں خود سے نالاں کر لیا۔ دوسری طرف یورپی ممالک نے بھی بعض ایسے اقدامات انجام دیے جو امریکہ سے دوری کا سبب بنے۔ ان میں جرمنی کی وائس چانسلر اینگلا مرکل کی جانب سے روس کے گیس پراجیکٹس میں شراکت بھی شامل ہے۔ فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے بھی روس کے ساتھ دوستانہ تعلقات برقرار رکھنے پر زور دیا۔ اینگلا مرکل نے نارڈ اسٹریم 2 آئل پائپ لائن منصوبے میں باقی رہنے پر تاکید کی۔ یوں امریکی حکام نہ صرف جرمنی بلکہ ہر اس یورپی ملک پر "مشرقی پن" کا الزام عائد کرنے لگے ہیں جو امریکہ سے مخالفت کا اظہار کرتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کی جانب سے یکطرفہ پالیسیاں اور اقدامات یورپی یونین کی جانب سے درپیش اصل خطرات اور چیلنجز سے توجہ ہٹ جانے کا باعث بنی ہیں۔ فروری 2020ء میں منعقد ہونے والی میونخ کانفرنس بھی اسی مشکل کا شکار رہی ہے۔ اس کانفرنس میں یورپی حکام کی توجہ مشترکہ جمہوری اقدار سے ممکنہ دوری پر مرکوز رہی جبکہ مشرق وسطی خطے میں جاری تنازعات کے حل میں ناکامی کا موضوع بھی زیر بحث رہا۔ یورپی ممالک جغرافیائی لحاظ سے شام اور لیبیا میں جاری بحرانوں سے زیادہ قریب ہیں۔ امریکہ کے برعکس جو صرف دور سے اس خطے میں جلنے والی آگ کا نظارہ گر ہے، یورپی ممالک اس آگ کی حرارت بھی محسوس کرتے ہیں۔ اس سال میونخ سکیورٹی کانفرنس ایسے وقت منعقد ہوئی تھی جب جرمنی کی وزارت خارجہ کی جانب سے لیبیا میں امن قائم کرنے کی خاطر برلن مذاکرات ناکامی کا شکار ہو چکے تھے۔ لیکن اس کانفرنس میں شریک حکام شاید یہ تصور بھی نہیں کر رہے تھے کہ چند ماہ بعد ہی انہیں "کرونا وائرس" نامی ایک بہت بڑا خطرہ درپیش ہو گا جس کے مقابلے میں باقی تمام چیلنجز اور خطرات ماند پڑ جائیں گے۔ یہ ایک ایسا چیلنج ہے جس نے جوہری ہتھیاروں کی دوڑ، مشرق وسطی میں جاری بدامنی اور خانہ جنگی، مہاجرین کا بحران اور دیگر ایشوز کو پس پشت ڈال دیا ہے۔

اس سال فروری میں میونخ سکیورٹی کانفرنس کے انعقاد کے آخری دن تک کرونا وائرس صرف چین کا مسئلہ تھا۔ کرونا وائرس صرف چین تک محدود تھا اور دنیا کے دیگر ممالک یہ تصور بھی نہیں کر رہے تھے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب انہیں بھی کرونا وائرس سے دست و گریبان ہونا پڑ جائے گا۔ اس وقت کوئی بھی یورپی ملک یہ گمان بھی نہیں کرتا تھا کہ یورپ کا سبز براعظم کرونا وائرس کا اگلا عالمی مرکز بننے والا ہے۔ یورپی ممالک کے درمیان شینگن قانون کی رو سے آزاد آمدورفت جاری تھی اور ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ عنقریب ایسے دن آنے والے ہیں جب وہ اپنی حدود ایکدوسرے پر بند کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ امریکی حکام چین پر الزام عائد کر رہے تھے کہ اس نے کرونا وائرس کنٹرول کرنے میں کوتاہی برتی ہے جبکہ چینی حکام امریکہ پر اس وائرس کو اپنی لیبارٹریز میں بنانے اور چین میں پھیلانے کا الزام عائد کرتے دکھائی دے رہے تھے جبکہ یورپی حکام نے اس مسئلے میں چپ سادھ رکھی تھی۔ لیکن یورپی حکام کی خاموشی سے اس حقیقت پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آج بنی نوع انسان کیلئے حیاتیاتی سلامتی پہلی ترجیح اختیار کر چکی ہے۔ شاید میونخ سکیورٹی کانفرنس کی اس بڑی غفلت کا اصلی ذمہ دار امریکی حکام ہیں جو دنیا میں جھوٹے بحران ایجاد کر کے عالمی اداروں کی توجہ اصل چیلنجز اور خطرات سے ہٹ جانے کا باعث بنتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 852801
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش