0
Saturday 28 Mar 2020 17:17

امام حسین علیہ السلام کے اخلاقی محاسن

امام حسین علیہ السلام کے اخلاقی محاسن
تحریر: سید حسنین عباس گردیزی
hasnain.gardezi@gmail.com

امام حسین (ع) کی حیات طیبہ کو چار ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ابتدائی دور رسول اللہ (ص) کی زیر تربیت گزرا، دوسرا دور اپنے والد گرامی کے زیر سایہ گزارا اور تیسرا دور آپ کے بھائی اور آپ کی اپنی امامت کا زمانہ ہے۔ آخری دور انتہائی مختصر لیکن انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس دور میں آپ کی زندگی کا اہم ترین واقعہ کربلا رونما ہوا۔ کربلا کا عظیم واقعہ امام حسین (ع) کی عظمت اور بلندی کردار کا پتہ دیتا ہے۔ امام (ع) کا حسب و نسب بلند و اعلیٰ ہے اور ان کی خاندانی خصوصیات کی نظیر کسی دوسرے انسان میں نہیں پائی جاتی تھیں۔ اسی وجہ سے آپ کے اخلاق و اوصاف میں بلندی نظر آتی ہے۔ آپ کے مکارم اخلاق درجہ کمال پر تھے۔ سخاوت و کرم امام (ع) کی اہم ترین صفات میں سے ایک ہے اور یہ صفت انہیں اپنے جد رسول اکرم (ص) سے ورثے میں ملی تھی۔ اس حوالے سے چند واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ عطا و بخشش کے ساتھ آپ نے لوگوں کی عزت نفس کا خیال رکھا اور ان کی اسلامی اصولوں پر تربیت بھی فرمائی۔ صبر و استقامت میں امام عالی مقام اپنی مثال آپ ہیں، آپ کا صبر دنیا میں ضرب المثل بن گیا ہے، آپ کے صبر و استقامت، عزم و ارادے اور دلیرانہ جنگ پر فرشتے حیرت میں پڑ گئے۔

امام حسین (ع) میں حلم و بُردباری بھی اعلیٰ درجے کی تھی، غلاموں کی غلطیوں سے چشم پوشی کے ساتھ انہیں آزاد کر دینا آپ کا شیوہ تھا۔ دشمنوں کی گستاخیوں کا جواب نہایت نرمی اور ملائمت کے ساتھ دینا آپ کی اعلیٰ ظرفی کا ثبوت ہے۔ تواضع و انکساری، اولیاء الٰہی کی بنیادی صفات میں سے ہے، امام حسین (ع) کی تواضع کی کئی مثالیں اس مقالے میں نقل ہوئی ہیں۔ امام حسین (ع) کی شجاعت و بہادری انتہاء درجے کی تھی، جس بہادری کا مظاہرہ آپ نے کربلا کے میدان میں کیا، اس کی بنی نوع انسان میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ امام (ع) نے موت اور زندگی کے فلسفہ کو واضح کر دیا۔ تاریخ شاید ہے کہ حسین (ع) غمزدہ، دِل شکستہ، تشنہ و گرسنہ اور بیٹوں، بھائیوں اور یار و انصار کی شہادت کے صدمے برداشت کرنے کے باوجود جب تن تنہاء تلوار کھینچ کر یزیدی لشکر پر حملہ آور ہوئے تو تمام گذشتہ بہادروں کے کارنامے محو ہوگئے اور انسانی حافظہ میں قیامت تک اس شجاعت و جرأت کی تصویر محفوظ رہ گئی ہے۔

امام حسین علیہ السلام نے اپنی حیات طیبہ کے ابتدائی چھ سال اپنے جد بزرگوار جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آغوش رحمت میں گزارے۔ یہ نزول وحی کا زمانہ تھا، قرآن کی آیات، احکام الہیٰ کو لے کر آنحضور (ص) کے قلب مقدس پر نازل ہوتیں، جنہیں آپؐ اپنی زبان مبارک سے تلاوت کرتی تھی۔ بعض روایات میں ملتا ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے بعد جناب زہراء سلام اللہ علیہا کا دودھ خشک تھا۔ لہٰذا جب امام (ع) کو بھوک لگتی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی زبان مبارک ان کے منہ میں دے دیتے تھے یا اپنی انگشت مبارک دہن میں دے دیتے تھے اور وہ سیراب ہو جاتے۔(۱) وحی الہیٰ اور اپنے جد امجد کی محبت و شفقت اور بے پناہ پیار کے سائے میں آپ کا یہ دور گزرا۔ آپ (ع) کی زندگی کا دوسرا دور جو تیس سال پر محیط ہے، آپ کے والد بزرگوار جناب امیر المومنین علی ابن ابی طالب (ع) کے ساتھ گزرا۔ اس دوران آپ کے خاندان پر عظیم مصائب ٹوٹے، امام نے اپنے بابا کی تنہائی کا مشاہدہ بھی کیا اور اپنی امّاں پر مظالم کو بھی دیکھا اور پھر ماں کی جانکاۃ شہادت کا صدمہ بھی سہا اور آخر میں اپنے باپ کی عادلانہ حکومت کے مختصر ایام بھی ملاحظہ کیے۔

آپ کی زندگی کا تیسرا دور اپنے بڑے بھائی امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی امامت میں گزرا، اس میں امام ؑ نے اپنے بھائی کے سب سے بڑے اقدام صلح پر ان کی حمایت کی اور صلح کے بعد باقی دس سال کا عرصہ ان کی اطاعت میں گزرا۔ امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپ نے اپنی امامت کے دس سال معاویہ بن سفیان کی حکومت میں بسر کیے، یہ دور معاویہ کے ظاہری اقتدار کا اوج قدرت اور کمال تسلط کا دور تھا۔ اس میں آپ نے مسلسل معاویہ کی بدعتوں اور اس کے عُمّال کے ناجائز کاموں کے خلاف اپنا ردعمل ظاہر کیا اور ان پر تنقید و اعتراض بھی کیا۔ چند موارد تاریخ کی کتب میں ثبت ہیں، ان میں سے ایک واقعہ یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ ابن قتیبہ دینوری اپنی کتاب ’’ الامامۃ والسیاسۃ‘‘ میں بیان کرتے ہیں: معاویہ نے یزید کی ولی عہدی کو مضبوط کرنے کے لیے مدینے کا سفر اختیار کیا، تاکہ مدینے کے لوگوں خصوصاً اس کے شہر کی برجستہ شخصیات جن میں سرفہرست امام حسین علیہ السلام تھے، سے بیعت لے۔ مدینے میں وارد ہونے کے بعد اس نے امام حسین علیہ السلام اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کی اور دوران گفتگو یزید کی ولی عہدی کے مسئلہ کو پیش کیا، اس نے اس موضوع پر امام کو موافق کرنے کی بڑی کوشش کی۔

امام حسین علیہ السلام نے اس کی باتوں کا جواب ایک مقدمے کو ذکر کرنے کے بعد یوں دیا: تو بزعم خود اپنی جس برتری اور فضلیت کا قائل ہے، اس میں تو لغزش اور افراط کا شکار ہوا ہے اور اموال عمومی پر قبضہ کرکے ظلم و ستم کا مرتکب ہوا ہے، تو نے لوگوں کے اموال کو ان کے مالکوں کو واپس کرنے میں بخل سے کام لیا ہے اور اس قدر آزادی کے ساتھ غارت گری کو اپنایا کہ اپنی حدود سے تجاوز کیا اور حق داروں کو ان کے حقوق ادا نہ کیے، یوں شیطان نے اپنا بھرپور فائدہ اٹھایا اور اپنے مقصد میں کامیاب ہوا۔ تو نے جو کچھ یزید کے کمالات اور امت اسلامی کے امور کو چلانے کے لیے اس کی صلاحیتوں کا ذکر کیا ہے۔ وہ سب کچھ میں سمجھتا ہوں۔ تو نے یزید کا تعارف اس انداز سے کرایا ہے گویا اس کا کردار اور زندگی گزارنے کا طریقہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے! یا تم غیبی خبر دے رہے ہو، جس کا لوگوں کو علم نہیں ہے! اور صرف تجھے اس کی اطلاع ہے! نہیں! یزید نے جس طرح خود اپنے آپ کو ثابت کیا ہے اور اپنے باطن کو آشکار کیا ہے، اسی طرح اس کا تعارف کرا، جیسا وہ ہے، ویسی اس کی تعریف و توصیف بیان کر۔ یزید کتوں، کبوتروں سے کھیلنے والا ایک لا ابالی جوان ہے۔ جس نے اپنی عمر ساز و آواز اور عیش عشرت میں گزاری ہے۔

یزید کا تعارف یوں بیان کرو اور اس بے فائدہ کوشش سے دستبردار ہو جائو۔ اس امت کے حوالے سے جتنے گناہوں کا بوجھ اب تک اٹھا چکے ہو، وہی کافی ہے۔ ایسا کام نہ کرو، جس کی بنا پر اپنے پروردگار سے ملاقات کے وقت تیرے گناہوں کا وزن اور بھاری ہو جائے۔ تو نے اس قدر اپنی باطل اور ظالمانہ روش جاری رکھی اور اپنی بے عقلی سے اتنے مظالم کا ارتکاب کیا کہ اب لوگوں کا پیمانہ صبر لبریز ہوچکا ہے۔ اب تیرے اور تیری موت کے درمیان چشم زدن سے زیادہ فاصلہ نہیں رہا ہے۔ جان لو کہ تمہارے اعمال پروردگار عالم کے پاس محفوظ ہیں اور تجھے قیامت کے دن ان کا جوابدہ ہونا پڑے گا۔(۲) امام حسین علیہ السلام کی زندگی کے آخری دور کا آغاز رجب ۶۰؁ ھجری سے ہوا ہے اور اس کا اختتام محرم ۶۱؁ھجری میں عاشورہ کے دِن ہوا ہے۔ اس دور میں آپ کی زندگی کا اہم ترین ’’واقعہ کربلا ‘‘ رونما ہوا۔ یہی ایک واقعہ آپ کی پوری زندگی پر حاوی ہوگیا۔ تاریخ انسانی میں بڑے بڑے واقعات اور انقلابات پیش آئے، مگر واقعہ کربلا کی عظمت ان سب سے بڑھ کر ہے۔ عرب کے ایک فلسفی شاعر نے کہا ہے: ’’اِنَّ العظائم کفو العظمآء‘‘ یعنی: ’’بے شک بڑے کارناموں کے لیے بڑی شخصیات ہی درکار ہوتی ہیں۔‘‘

ایک اور شاعر نے اسی مطلب کو اس طرح بیان کیا ہے:
علی قدر اہل العزم تأتی العزائم          وتاتی علٰی قدرالکرم المکارم
ویکبر فی عین الصغیر صغارھا             وتصغر فی عین العظیم العظائم
(۳)
یعنی: ’’عزم و ارادے کے حامل افراد کی شخصیات کے مطابق ان کے عزائم ہوتے ہیں اور اعلیٰ مرتبہ ہستیوں کی مناسبت سے ہی ان کی بزرگیاں ہوتی ہیں۔ چھوٹے آدمی کی نگاہ میں چھوٹا سا کام بھی بڑا معلوم ہوتا ہے اور بڑے کی نگاہ میں بڑا کام بھی چھوٹا معلوم ہوتا ہے۔‘‘ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو کربلا جیسے عظیم الشان کارنامے کا حامل ہونا ہی امام حسین علیہ السلام کی شخصیت کی عظمت اور ان کے کرادر کی بلندی پر واضح ثبوت پیش کر دیتا ہے، جس کا شاید پورے طور پر اندازہ کرنا اور پھر اُسے واضح طور پر الفاظ کے ذریعے بیان کرنا مورخین کے تصور اور تحریر کی قوت سے باہر ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ واقعہ کربلا کی نادر خصوصیات وقوع پذیر نہیں ہوسکتی تھیں، اگر اس کے انجام دینے کے لیے حسین علیہ السلام جیسے بلند نفس کا انسان موجود نہ ہوتا اور واقعہ کربلا میں عظمت، اہمیت اور نیتجہ کے لحاظ سے یہ تاثیر پیدا ہو ہی نہیں سکتی تھی، اگر اس کا تعلق امام حسین علیہ السلام جیسی عظیم المرتبت ذات کے ساتھ نہ ہوتا۔

حضرت امام حسین علیہ السلام کی خاندانی خصوصیات کی نظیر کسی دوسرے انسان میں نہیں پائی جاتی تھیں۔ آپ کا نانا تمام انبیاء و رسل کا سردار، والد گرامی تمام اوصیاء کے سردار اور ماں عالمین کی عورتوں کی سردار تھیں۔ ان خاندانی خصوصیات کے ساتھ جو ظاہری اسباب کی بنا پر حسن فطرت کے ضامن ہیں، حسین علیہ السلام نے تربیت ایسی بلند پائی تھی، جس سے انسان کے اخلاق و اوصاف میں بلندی پیدا ہونا لازمی ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کے مکارم اخلاق درجہ کمال پر تھے، یہاں پر ان میں سے چند محاسن کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔

جود و کرم:
امام حسین علیہ السلام انتہائی فیاض اور خلق خدا کو فائدہ پہنچانے کی فکر میں رہتے تھے۔ اس کے واقعات تاریخ میں بکثرت ملتے ہیں: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "حسین علیہ السلام میں میری بہادری اور سخاوت ہے‘‘ سخاوت آپ کو اپنے نانا سے ورثے میں ملی تھی۔ یوں تو امام حسین علیہ السلام رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام اوصاف کے وراث تھے، لیکن خصوصیت کے ساتھ سخاوت اور شجاعت بخشنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کے یہ اوصاف ضرور امتیاز رکھتے ہیں۔ کتاب عقد اللئالی فی مناقب الال میں منقول ہے کہ امام حسین علیہ السلام اپنے بھائی حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد مسجد نبوی کے ایک گوشے میں تشریف فرما تھے، عبد اللہ بن زبیر اور عتبہ بن ابی سفیان ایک دوسرے کونے میں بیٹھے ہوئے تھے، اسی دوران اونٹنی پر سوار ایک اعرابی آیا، اس نے اونٹنی کو مسجد کے دروازے پر باندھا اور مسجد میں داخل ہوا، عتبہ کے پاس آکر کھڑا ہوا، اُسے سلام کیا، اس نے سلام کا جواب دیا۔ اعرابی نے اس سے کہا میں نے اپنے چچا زاد کو قتل کیا ہے، اس کے گھر والے مجھ سے دیت کا تقاضا کر رہے ہیں، کیا تم مجھے کچھ عطا کرسکتے ہو؟ عتبہ نے اپنے غلام کو اُسے سو درہم دینے کا حکم دیا، اس کے بعد اعرابی عبد اللہ بن زبیر کے پاس گیا اور اپنی بات کو دہرایا، اس نے دو سو درہم دینے کا حکم دیا، اعرابی نے انہیں پھینکتے ہوئے کہا یہ مقدار تو میری کسی مشکل کو حل نہیں کرتی۔

 پھر وہ امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا، سلام پیش کیا اور اپنی حاجت بیان کی، امام حسین علیہ السلام نے اس سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: ہم وہ افراد ہیں، جو عطا و بخشش، معرفت کے حساب سے کرتے ہیں۔ اُس نے کہا آپ جو چاہیں پوچھیں، امام (ع) نے پوچھا: ’’یا اعرابی! ما النجاۃ من الھلکۃ؟ قال: التوکل علی اللہ، فقال لہ: ای الاعمال افضل ؟ فقال: الثقۃ باللہ، فقال الامام علیہ السلام: ای شی خیر للعبد فی حیاتہ؟ قال: علم معہ حلم، قال: فان خانہ ذلک؟ قال: مال یزینہ سخاء وسعۃ۔ قال: فان اخطأہ ذلک ؟ قال : الموت والفناء خیر لہ الحیاۃ والبقاء۔‘‘ یعنی: ’’ا ے اعرابی! ہلاکت سے نجات کا راستہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: خدا پر توکل، آپ(ع) نے پوچھا: کون سا عمل افضل ہے۔ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور بھروسہ۔ امام علیہ السلام نے تیسرا سوال کیا، انسان کی زندگی میں کون سا عمل بہتر ہے؟ اس نے جواب میں کہا: علم جو حلم و بردباری کے ساتھ ہو۔ امام (ع) نے فرمایا اگر یہ اس کے پاس نہ ہو تو پھر؟ اعرابی نے کہا: مال جو سخاوت کے ساتھ مزین ہو، امام (ع) نے فرمایا: اگر یہ بھی اُسے حاصل نہ ہو؟ تو اس نے کہا پھر اس کے لیے زندگی سے بہتر موت ہے۔‘‘

امام (ع) نے تعجب کیا اور اپنے منشی سے کہا کہ اسے بیس ہزار درہم دے دو، دس ہزار تمہاری ادائیگی کے لیے اور باقی دس ہزار تمہاری مشکلات دور کرنے اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ہیں۔ اس کے بعد اعرابی نے یہ اشعار پڑھے۔‘‘
سبقت الانام الی المکرمات    وانت الجواد فلا تلحق
ابوک الذی سادبالمکرمات    فقصر عن سبقہ السبق
بہ فتح اللہ باب الرشاد         وباب العناد بکم مغلق
(۴)
یعنی: ’’نیک کاموں میں آپ نے سب لوگوں پر سبقت لی ہے، آپ سخی ہیں اور کوئی آپ کی عظمت تک نہیں پہنچ سکتا، آپ کے والد گرامی وہ ہیں، جو اپنے نیک کارناموں کی وجہ سے سردار ہوگئے۔ سبقت لینے والے ان سے پیچھے رہ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے ہدایت کا دروازہ کھولا اور گمراہی اور فساد کا دروازہ بند کیا۔‘‘ ایک اور روایت میں یوں نقل ہوا ہے کہ امام (ع) نے اُسے ہزار دینار کی تھیلی عطا کی اور ایک انگوٹھی جس کی قیمت دو سو درہم تھی، عطا کی۔ اعرابی نے اُسے لیا اور اس آیت کو تلاوت کیا۔(۵) ’’اَﷲُ أَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ‘‘ (انعام۔ ۱۲۴) یعنی: ’’اللہ بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے۔‘‘

اس واقعے میں خدمت خلق اور نوع انسانی کی ہمدردی کے بہترین جذبے کے ساتھ ساتھ آپ نے اس کی بھی تلقین فرمائی ہے کہ اس میں حفظ مراتب کا خیال رکھنا چاہیئے۔ یعنی سائل جتنا صفات کے اعتبار سے قابل عزت ہو اور علم و معرفت میں بلند درجہ رکھتا ہو، اتنا اس کے ساتھ سلوک بہتر کیا جائے۔ یہ طرز عمل غرباء اور مساکین کو مذہبی معلومات حاصل کرنے کا بہترین محرک تھا اور اس کے ذریعے سے عوام میں علوم و معارف کی اشاعت ہوتی تھی۔ تاریخ ابن عساکر میں بیان ہوا ہے کہ ایک سائل مدینے کی گلیوں میں پھرتا ہوا امام حسین علیہ السلام کے دروازے پر پہنچا اور دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد یہ اشعار پڑھنے لگا۔
لم یخب الان من رجاک ومن        حرک من خلف بابک الحلقۃ
انت ذوالجود وانت معتمد            ابوک قد کان قاتل الفسقۃ

یعنی: ’’جس نے آپ سے امید باندھی، وہ کبھی مایوس نہیں ہوا اور جس نے آپ کا دروازہ کھٹکھٹایا، وہ خالی ہاتھ نہیں لوٹا، آپ جود و سخا کے مالک اور قابل بھروسہ ہیں اور آپ کے والد فاسقین کی گردنیں اڑانے والے تھے۔‘‘

امام حسین علیہ السلام نماز میں مشغول تھے، آپ نے جلدی سے نماز ختم کی اور اعرابی کے پاس آگئے، آپ نے اس کے چہرے پر سختی اور فقر کے اثرات مشاہدہ کیے۔ امام (ع) نے اپنے منشی کو بلایا اور پوچھا کہ ہمارے اخراجات کے لیے کتنی رقم موجود ہے؟ اس نے کہا: مولا دو سو درہم، جن کے بارے میں آپ نے حکم دیا ہے کہ آپ کے اہل و عیال کے اخراجات پورے کروں۔ آپ نے فرمایا: انہیں لے آئو کیونکہ کوئی آیا ہے، جو ہم سے زیادہ ان پیسوں کا حقدار ہے۔ امام (ع) نے اس سے درہم لے کر اس اعرابی کے حوالے کر دیئے اور پھر یہ اشعار پڑھے۔                                
خذھا وانی الیک معتذر            واعلم بانی علیک ذوشفقۃ
لوکان فی سیرنا الغداۃ عصا      امست سمانا علیک مند فقہ
لکن ریب الزمان ذوغیر              والکف منا قلیلۃ النفقہ
(۶)
یعنی: ’’اے اعرابی! لے لو اسے، میں تجھ سے عذر خواہی کرتا ہوں، اس لیے کہ تیرا حق مجھ سے ادا نہ ہوا، یقین کرو، میں تیرے حال پر بہت مہربان ہوں۔ اگر آج ہمارے لیے کچھ حکومت ہوتی اور ہمارا حق غصب نہ ہوتا تو دیکھتا کہ ہمارا ابر کرم تجھ پر کیسے برستا، لیکن کیا کریں، گردش زمان نے ہمارے امور متغیر کر دیئے ہیں اور ہمارا ہاتھ ان دنوں میں تنگ ہے۔" اعرابی نے حضرت سے رقم لی اور رونے لگا، فرمایا: کیا تو اس لیے روتا ہے کہ یہ رقم تھوڑی ہے، عرض کیا اے آقا میں اس لیے روتا ہوں کہ ایسے سخی ہاتھ کیسے خاک میں پنہاں ہو جائیں گے۔‘‘ اعرابی نے وہ رقم پکڑی اور کہا:
مطھرون نقیات ثیابھم        تجری الصلاۃ علیہم اینما ذکروا

انصار مدینہ میں سے ایک شخص امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا میری ایک حاجت ہے۔ آپؑ نے فرمایا: اے انصاری برادر! اپنے چہرے کو سوال اور مانگنے کی ذلت سے بچا اور اپنی ضرورت کو تحریری صورت میں بیان کرو، میں تمہاری حاجت کو پورا کروں، تاکہ تم خوش ہو جائو۔ انصاری نے لکھا کہ فلاں شخص کا میں پانچ سو دنیار کا مقروض ہوں اور وہ مجھ سے قرض کی واپسی کا تقاضا کر رہا ہے، میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ اس سے بات کریں، تاکہ وہ مجھے کچھ مہلت دے دے۔ آپ نے تحریر کا مطالعہ کیا اور گھر تشریف لے گئے، آپ نے تھیلی اُسے دی، جس میں ہزار دینار تھے، فرمایا: پانچ سو دینار سے اپنا قرض ادا کرو اور باقی تمہاری دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہیں۔ اور اس سے فرمایا: تین قسم کے افراد کے علاوہ کبھی کسی سے حاجت طلب نہ کرنا۔ دین دار شخص سے یا عالی المترتبت اور صاحب مروت آدمی سے یا پھر عالی النسب فرد سے طلب کرنا، کیونکہ متدین شخص تیری حاجت کو پورا کرنے کے ذریعے اپنے دین کو بچائے گا، صاحب مروت آدمی اپنے عزت کی خاطر تیری حاجت پورا کرے گا اور حسب و نسب کا حامل شخص جانتا ہے کہ تو نے اپنی عزت دائو پر لگائی ہے، اس لیے وہ خالی نہیں لوٹائے گا اور تیری حاجت پوری کرے گا۔(۷)

صبر و استقامت:
صبر یہ ہے کہ انسان سخت ترین حالات میں اپنے اعصاب پر قابو رکھے، اس میں کوئی شک نہیں کہ عاشورہ کے دن جن مشکل ترین اور سخت ترین حالات سے امامؑ گزرے، میں شاید ہی کوئی انسان اس کی تاب لاسکے، لیکن امامؑ نے ان سب حالات پر صبر کیا، اس طرح سے کہ ان کے صبر و استقامت، آہنی عزم و ارادے اور دلیرانہ جنگ پر فرشتے حیرت میں پڑگئے۔ حضرت مہدی علیہ السلام زیارت ناحیہ میں فرماتے ہیں: ’’قد عجبت من صبرک ملائکۃ السماوات، فاحدقوابک من کل الجہات، واثخنوک بالجراح، واحالوا بینک وبین الرواح، ولم یبق لک ناصرٌ وانت محستب صابر تذب عن نسوتک واولادک حتی نکسوک عن جوادک‘‘ یعنی: ’’(آپ نے تمام مصائب اور سختیوں کو برداشت کیا) یہانتک کہ آسمان کے ملائکہ آپ کے صبر پر حیرت زدہ ہوگئے، دشمنوں نے ہر طرف سے آپ کو اپنے محاصرے میں لے لیا اور زخموں سے چور ہو کر آپ گر گئے اور آپ کا کوئی مددگار باقی نہ رہا تھا۔ آپ نے صبر کیا اور اپنی عورتوں اور اپنی اولاد کا دفاع کیا۔‘‘(۸) جب آپ زخموں سے نڈھال ہو کر زمین پر گرگئے اور تمام تر مصائب و آلام کے باوجود نہ آپ نے آہ بھری اور نہ آنکھوں سے آنسو بہایا بلکہ مسلسل یہی فرما رہے تھے۔ ’’صبراً علی قضائِ کَ، لا معبودَ سِوَاک یا غیاث المُسْتَغِیِثیْنَ" یعنی: ’’تیری قضا پر راضی اور صبر کرتا ہوں، اے فریاد رسوں کے فریاد رس، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘

آخر میں فرمایا: ’’صبرا علی قضائِ کَ یا ربِّ، لا اِلہَ سِواک۔ یا غیاث المُسْتَغِیِثیْن، مالی رَبٌّ سِوٰاک ولا معبْودَ غیرُک، صبرًا علیٰ حُکْمِکَ، یا غیاثَ مَنْ لا غیاثَ لَہُ، یا دائماً لا نفادَلَہُ یا محییَ الموتیٰ، یا قائماً عَلٰی کُلِّ نفسٍ بما کَسَبَتْ۔ اُحْکُمْ بَیْنیِ وَبَیْنَہُم وَاَنْتَ خَیْرُ الحاکمین‘‘ یعنی: ’’تیرے فیصلے پر صبر کرتا ہوں، اے میرے رب، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، اے پناہ طلب کرنے والوں کی پناہ، اے خدا تیرے سوا میرا کوئی پروردگار نہیں ہے۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، تیرے حکم پر صبر کرتا ہوں، اے پناہ جس کی کوئی پناہ نہ ہو، اے ہمیشہ باقی رہنے والے، اے مردوں کو زندہ کرنے والے، اے وہ جو ہر شخص کے عمل کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔ میرے اور میرے دشمنوں کے درمیان فیصلہ فرما، اے بہترین فیصلہ کرنے والے۔‘‘(۹)

حلم و بردباری:
امام (ع) کے ایک غلام سے ایک خطا سر زد ہوئی، جس پر سزا لازمی تھی۔ امام (ع) نے حکم دیا کہ اُسے سزا دی جائے، اس نے عرض کیا میرے آقا: "والکاظمین الغیظ" (اور جو اپنے غصے کو پی جانے والے ہیں) امام (ع) نے فرمایا: اِسے چھوڑ دو، اس نے کہا ’’والعافین عن الناس‘‘ (وہ لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں) امام نے فرمایا: میں نے تجھے معاف کیا۔ اس نے کہا ’’وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ‘‘ (آل عمران، ۴ ۱۳) (اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔) امام (ع) نے فرمایا: (میں نے تجھے راہ خدا آزاد کر دیا اور پہلے سے دوگنا معاوضہ بھی تمہیں دیا کروں گا) (۱۰) عصام بن مصطلق بیان کرتا ہے کہ مدینے میں داخل ہوا، میرا سامنا حسین بن علی علیہما السلام سے ہوگیا، جب میری نظر ان پر پڑی تو ان کے والد علی علیہ السلام کے بارے میں میرے دل میں جو بعض و کینہ تھا، اس نے مجھے مجبور کیا کہ امام حسین علیہ السلام کو ناسزا کہوں اور اپنے بغض و کینہ کو ظاہر کروں، میں ان کے نزدیک گیا اور کہا کہ ابو تراب کے بیٹے تم ہو! امام نے اثبات میں جواب دیا، میں نے انہیں اور ان کے باپ کو خوب برا بھلا کہا۔ لیکن امام (ع) نے لطف و مہربانی سے میری طرف دیکھا اور فرمایا: ’’اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم  اخُذْ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَہِلِیْنَO وَإِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنْ الشَّیْطَنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاﷲِ إِنَّہٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ‘ (سورہ اعراف ۱۹۹۔۲۰۲) یعنی: ’’(اے رسول ) درگزر سے کام لیں، نیک کاموں کا حکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کش ہو جائیں اور اگر شیطان آپ کو اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگیں، یقیناً وہ بڑا سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘

یہ آیات اعلیٰ انسانی صفات کو بیان کر رہی ہیں، جن کے مخاطب رسول خدا ﷺ ہیں۔
اس کے بعد امام (ع) نے فرمایا: "اخفض علیک، استغفر اللہ لی ولک" آرام سے رہو میں تمہارے لیے اور اپنے لیے اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں۔ اگر تمہیں ہماری مدد کی ضرورت ہو تو میں تمہاری مدد کرنے کو تیار ہوں، اگر تمہیں پیسوں کی ضرورت ہے تو وہ تمہیں دیتا ہوں اور اگر ہدایت اور راہنمائی چاہتے ہو تو تمہاری راہنمائی اور ہدایت کے لیے آمادہ ہوں۔ عصام کہتا ہے میں اپنی باتوں اور اپنی غلطی پر سخت نادم اور پشیمان ہوا، امام نے اپنی فہم و فہراست سے میری شرمندگی کو سمجھ لیا اور فرمایا: ’’قَالَ لاَتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمْ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اﷲُ لَکُمْ وَہُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ‘‘ یعنی: ’’یوسف سے کہا: آج تم پر کوئی عتاب نہیں ہوگا، اللہ تمہیں معاف کر دے گا اور وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (یوسف ،۹۲) یہ آیت حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی، جب انہوں نے ان سے معافی طلب کی تھی۔

پھر انہوں نے پوچھا: تم اہل شام ہو؟ میں نے کہا: ہاں تو انہوں نے یہ ضرب المثل فرمائی: ’’شئشنۃ اعر فھا من اخزم‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں برا بھلا کہنا اہل شام کی رسم اور عادت بن گئی ہے، جسے امیر شام نے ان کے درمیان رائج کیا ہے۔ پھر فرمایا: تمہیں کوئی بھی حاجت ہو، کھلے دِل سے ہم سے مانگو، تاکہ اُسے پورا کروں۔ عصام کہتا ہے: میری تمام تر گستاخی اور جسارت کے باوجود امام (ع) کے اس اعلیٰ اور پسندیدہ اخلاق کی وجہ سے میں شرمندگی سے زمین میں گڑا جا رہا تھا، لہٰذا بندوں کے پچھے چھپتا چھپاتا ان کے حضور سے کھسک گیا۔ اس واقعے کے بعد جب بھی میں ان کو دیکھتا، لوگوں کے درمیان اپنے آپ کو چھپا لیتا۔ اس کے بعد میرے نزدیک امام (ع) اور ان کے والد سے بڑھ کوئی محبوب نہ تھا۔(۱۱)

تواضع و انکساری:
تواضع و انکساری حلم و تقویٰ سے پیدا ہوتی ہے۔ معاشرہ میں جو لوگ صاحب ثروت و جاہ و مقام، تھوڑے بہت مشہور، گھر و خاندان، بہت عزت و احترام اور بلند پایہ ہوتے ہیں، اکثر خود پسند اور متکبر ہو جاتے ہیں۔ جناب سید الشہداء علیہ السلام اپنے مقام و علم، اپنی اجتماعی چاہت، جو آپ کو خاندان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرد کی حیثیت سے حاصل تھی، ثروت و اختیار کے باوجود جو آپ کو اپنے عظیم نانا، والد محترم، والدہ گرامی اور برادر بزرگ سے وراثت میں ملی تھیں۔ اپنی شجاعت و طاقت و اختیار وسیع کی موجودگی کے ہوتے ہوئے ان بہادر و دلیر و قوی جوانوں کی معیت کے باوجود جو ہر وقت آپ کے احکام کے منتظر رہتے تھے، لوگوں کے ساتھ نہایت انکساری و تواضع سے پیش آئے تھے۔’’روی العیاشی عن مسعدۃ قال: مر الحسین بن علی علیہما السلام بمساکین قد بسطوا کساء لھم والقو علیہ کسرا، فقالوا: ھلم یا بن رسول اللہ، فثنی ورکہ فأکل معھم ثم تلا: ’’اِنَّہ لا یُحِبُّ المستکبرین‘‘ (نحل ۳۲) ’’ثم قال: قدا جبتکم فاجیبونی، فقامو معہ حتی اتوا منزلہ، فقال للجاریۃ: اخرجی ماکنت تدخرین‘‘ (۱۲)

یعنی: ’’عیاشی نے روایت کی ہے کہ ایک دن حضرت حسین بن علی علیہ السلام کا گزر غریبوں اور مسکینوں کے پاس سے ہوا، جنہوں نے دستر خوان لگایا ہوا تھا، جس پر روٹی کے خشک ٹکٹرے پڑے ہوئے تھے، انہوں نے امام (ع) سے کہا: اے رسول اللہ (ص) کے فرزند تناول فرمائیں۔ امام (ع) بیٹھ گئے اور ان کے ساتھ کھانے میں شریک ہوگئے، پھر اس آیت کو تلاوت فرمایا: ’’بے شک اللہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘ پھر فرمایا میں نے تمہاری دعوت کو قبول کیا اور تمہارے ساتھ شریک ہوا ہوں، اب تم سب میری دعوت قبول کرو۔ وہ سب اٹھے اور امام (ع) کے ہمراہ ان کے گھر آئے، آپؑ نے کنیز سے کہا: جو کچھ گھر میں ہے لے آئو۔‘‘ کچھ اور مورخین لکھتے ہیں کہ ایک دن مدینہ کے فقراء کی ایک جماعت نے امام حسین علیہ السلام کو مدعو کیا، آپ نے ان کی مہمانی کو قبول کیا اور ان کے درمیان تشریف فرما ہوئے، لیکن ان کے کھانے سے کچھ نہیں کھایا بلکہ فرمایا: اگر یہ کھانا مال صدقہ نہ ہوتا تو میں کھا لیتا، لیکن صدقہ ہم پر حرام ہے۔ پھر کچھ دیر ان کی ہمت افزائی و دلجوئی فرما کر اپنے بیت الشرف واپس آئے اور کافی مقدار میں کھانا، غذا، لباس اور رقم ان میں سے ہر ایک کو بھجوائی۔(۱۳)

شجاعت و بہادری:
علم اخلاق میں طے پایا ہے کہ انسان کی تمام قوتوں کا معتدل ہونا مجموعی طور پر فضائل کا سنگ بنیاد ہے۔ شجاعت یہ ہے کہ انسان کے لیے جس وقت قدم اٹھانا مناسب ہو اور اقدام ضروری ہو، اس وقت وہ بے خوف و خطر آگے بڑھے اور اپنے فریضے کو پورے طور پر ادا کرے، چاہے اس سلسلے میں اُسے جان بھی دینا پڑے اور جس موقعہ پر اقدام مناسب نہ ہو بلکہ سکوت کی ضرورت ہو، اس وقت وہ تحمل سے کام لے، چاہے کتنی ناگوار صورتوں کا مقابلہ کرنا پڑے اور اس میں کتنی ہی مشکلات درپیش کیوں نہ ہوں۔ امام حسین علیہ السلام دونوں معنوں میں شجاع اور بہادر تھے۔ حضرت کی شجاعت کی یہ کیفیت تھی کہ ایک دن مدینہ میں امام حسین علیہ السلام اور حاکم مدینہ ولید بن عقبہ کے درمیان ایک کھیت پر تنازع کھڑا ہوگیا۔ امام (ع) نے ولید کے سر سے عمامہ اتار لیا اور اس کی گردن میں لپیٹ کر کھینچا۔ مروان نے جب یہ حال دیکھا تو کہنے لگا۔ خدا کی قسم میں آج تک کسی شخص کو نہیں دیکھا جو اس طرح حاکم پر جرأت دکھائے۔ ولید نے کہا قسم خدا کی تو نے یہ جملہ میری طرف داری اور حمایت میں نہیں کہا بلکہ تو نے میرے حلم اور بردباری پر حسد کیا ہے، یہ کھیت انہی کا ہے۔ امام (ع) نے فرمایا اب جبکہ تو نے حق کا اقرار کر لیا ہے، میں نے وہ مزرعہ تجھے بخش دیا ہے، یہ کہہ کر آپ وہاں سے چلے آئے۔(۱۴)

یہ واقعہ جہاں امام (ع) کی جرأت اور شجاعت پر دلالت کرتا ہے، وہاں آپ کی جوانمردی اور اعلیٰ ظرفی پر بھی شاہد ہے، نیز یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام (ع) نے ولید پر ناحق چڑھائی نہیں کی تھی۔ معرکہ کربلا میں جب امام عالی مقام سے یزید کی اطاعت قبول کرنے کے لیے کہا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’لا واللہ لا اعطیکم بیدی اعطاء الذلیل، ولا افر فرار العبید‘‘ یعنی: ’’خدا کی قسم! نہ میں ذلیل لوگوں کی طرح تمہاری بیعت اور اطاعت کروں گا اور نہ ہی میں غلاموں کی طرح فرار کروں گا۔‘‘ پھر بلند آواز میں سے فرمایا :یا عباداللہ! میں اپنے اور تمہارے رب سے متکبر کے شر سے پناہ مانگتا ہوں، جو روز حساب پر ایمان نہیں رکھتا۔ پھر فرمایا: ’’موت فی عز خیر من حیاۃ فی ذلٌ‘‘ یعنی: "عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے۔‘‘ آپ نے بروز شہادت یہ شعر پڑھا: "الموت خیر من رکوب العار   والعار اولی من دخول النار واللہ ماھذا" جاری حاصل مطلب یہ ہے کہ: یعنی: ’’موت ننگ و عار سے بہتر ہے اور ننگ و عار جہنم میں جانے سے بہتر ہے، لہٰذا بخدا! ذلت برداشت کرنا ممکن نہیں ہے موت قبول کی جاسکتی ہے۔‘‘ (۱۵)

امام (ع) نے جہاں ان اشعار میں زندگی اور موت کے فلسفہ کو واضح کیا ہے، وہاں یہ باتیں آپ کی شجاعت اور بہادری، موت سے نہ ڈرنا، ذلت کو قبول نہ کرنے پر بین ثبوت ہیں۔ ان کلمات سے آپ کے عزم و حوصلے، اعلیٰ اہمیت اور روح کی بلندی کی غمازی ہوتی ہے۔ امام (ع) نے اس ننگ و عار یعنی یزید کی بیعت کو قبول نہ کرنے کی وجہ بھی بیان فرمائی ہے۔ روز عاشورہ جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو حضرت نے ان کی ہدایت کے لیے خطبہ ارشاد فرمایا، اسی میں یہ جملے بھی بیان کیے۔ ’’اَلاَ وَاِنَّ الدَّعِیَّ ابْنَ الدَّعِیَّ قَدْ رکز بین اثنتین بین السِّیکۃِ والذِلَّۃِ وھیھات مِنَّا الذِّلَّۃِ، یَأبیَ اللّٰہُ ذلکَ لَنٰا ورَسُولُہُ والمُؤمِنُونَ و حجورَ طَابَتْ وطَھُرَتْ وَاَنُوفٌ حَمِیَّۃٌ ونُفُوسٌ اَبیَّہٌ من ان نُوْئِرَطاعَۃَ اللّیِام علیٰ مَصٰاریح الکرام اٰلاٰ اِنِّی زاحف بِھذِہٖ الاُ سْرَۃِ مَعَ قِلَّۃِ العَدَدِ وَخِذْلَۃِ النَّاصر۔(۱۶) یعنی: ’’آگاہ رہو، اس حرام زادے اور حرام زادے کے بیٹے نے ہمیں ذلت اور موت کے دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے اور ہم کبھی بھی ذلت کو قبول نہیں کریں گے، یہ بات ہمارے لیے نہ ہی اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہے، نہ ہی صاحبان ایمان اور وہ گودیں جنہوں نے ہمیں پروان چڑھایا ہے، صاحبان غیرت و حمیت، ظلم و ستم کو قبول کرنے والے اور ذلت قبول کرنے والے تمام افراد ہمیں اجازت نہیں دیتے کہ ہم اس ذلت اور ننگ و عار کو گوارا کر لیں اور پست اور فرومایہ شخص کی اطاعت کو آبرو مندانہ موت پر ترجیح دیں آگاہ رہو، اگرچہ ہم بے یار و مددگار ہیں، میں اپنے خاندان کے انہی قلیل تعداد کے ساتھ تم سے جنگ کروں گا۔‘‘

حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’واما الحسین فان لہ جودی وشجاعتی‘‘(۱۷) یعنی: ’’حسین کو میری شجاعت اور سخاوت میراث میں ملی ہے۔‘‘ امام (ع) نے میدان کربلا میں اپنے نانا کی شجاعت و بہادری کا عملی طور پر نقشہ پیش کیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ حسین علیہ السلام غمزدہ، دل شکستہ، تشنہ و گرسنہ ہونے کے باوجود تن تنہاء جب تلوار کھینچ کر فوج مخالف پر حملہ آور ہوئے تو تمام گذشتہ بہادورں کے کارنامے محو ہوگئے اور انسانی حافظہ میں قیامت تک اس شجاعت و جرأت کی تصویر محفوظ رہ گئی۔ مگر یہ غیر مساوی جنگ ظاہری اعتبار سے اب عنقریب ختم ہونے والی تھی، اس لیے کہ ایک کا ہزاروں سے مقابلہ کہاں تک جاری رہ سکتا تھا۔ تاہم آپ نے اپنے دشمنوں کے دلوں میں وہ دھاک بٹھا دی تھی کہ ان میں کوئی بھی آپ کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہ کرتا تھا۔ یزیدی فوج کی اس سراسیمگی کو دیکھ کر شمر نے فوج کو للکارا اور نئے سرے سے لشکر کی ترتیب کی، سواروں کو پیادوں کے پیچھے کھڑا کیا اور تیر اندازوں کو حکم دیا کہ وہ تیرباراں کریں، اتنی شدت سے تیر برسائے گئے کہ جسم حسین ؑ ساہی کے کانٹوں کی طرح ہوگیا۔

اس وقت شمر نے چلا کر کہا ’’خدا تم سے سمجھے، کھڑے کیا دیکھ رہے ہو، انہیں قتل کرو، خدا کرے تمہاری مائیں تم پر روئیں‘‘ اس طرح غیرت دلائے جانے کے بعد لشکر بیکراں حسین ؑ پر چاروں طرف سے ٹوٹ پڑا اور آپ پر تیروں، تلواروں اور نیزوں کا مہنہ برسنے لگا، جس سے یقین ہے کہ گھوڑا بھی کافی زخمی ہوگیا ہوگا اور اس سے مجبور ہو کر آپ زین ذوالجناح سے زمین پر تشریف لائے، مگر پیادہ ہونے کے بعد بھی آپ نے مقابلہ جاری رکھا۔(۱۸) اب شمر نے پیادوں کو اپنے ساتھ لے کر خود آپ کا محاصرہ کر لیا، مگر عالم یہ تھا کہ جس طرف آپ رخ کرتے تھے، ادھر کی جماعت منتشر ہو جاتی تھی۔(۱۹) حمید بن مسلم نے اسی موقع کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا کہ میں نے کوئی ایسا انسان نہیں دیکھا، جو زخمی ہوچکا ہو اور اس کے اولاد، عزیز اور ساتھی سب قتل ہوچکے ہوں تو پھر حسین ؑ کی طرح مطمئن اور ثابت قدم نظر آئے اور ان کی طرح ہمت و حوصلے سے مقابلے کرے۔ حالت یہ تھی کہ پیادے چاروں طرف سے انہیں گھیرتے تھے اور وہ تلوار لے کر ان پر حملہ کر دیتے تو وہ سب دائیں بائیں سے یوں ہٹتے تھے، جیسے بھیڑوں کا ریوڑ حملہ کے وقت منتشر ہوتا ہے۔(۲۰) حضرت امام سجاد علیہ السلام سے مروی ہے کہ امام حسین علیہ السلام پر جتنے مصائب بڑھتے جا رہے تھے، ان کے چہرے کا رنگ کھلتا جا رہا تھا اور اطمینان بڑھتا جا رہا تھا، یہاں تک کہ فوج اشقیاء کے بعض لوگوں نے کہا: حسین ؑ کو دیکھو کہ آپ کے چہرے سے جھلک رہا ہے کہ آپ کو کسی قسم کا خوف نہیں ہے۔(۲۱)

انسانی ہمدردی:
یہ صفت درحقیقت امام عالی مقام کی صفات حسنہ بخشش و کرم کی شاخ کی طرح ہے، کیونکہ جب بھی کوئی انسان بلند اور اعلیٰ صفات کا حامل ہوتا ہے تو وہ دوسروں سے مہربانی اور محبت سے پیش آتا ہے، جس طرح بادل زمین پر اور سورج دیگر ستاروں پر محبت و مہربانی کرتا ہے۔ واقعہ کربلا کے بعد آپ کے کاندھے پر ایک گہرا زخم مشاہدہ کیا گیا، ظاہراً یوں لگتا تھا کہ یہ تلواروں کا زخم ہے، جنہوں نے اس زخم کو بغور دیکھا، وہ سمجھ گیا کہ یہ عام زخم نہیں ہے۔ امام سجاد علیہ السلام سے اس زخم کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ نشان زخم ان بوریوں کا ہے، جو امام حسین علیہ السلام راتوں کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر بیوائوں، یتیموں اور مسکینوں تک پہنچاتے تھے۔(۲۲) دوستوں کے ساتھ مراعات اور سلوک کرنا ایک معتدل فطرت انسان کا خاصہ ہوتا ہے اور یہ کوئی غیر معمولی امر نہیں ہے، لیکن دشمنوں کے ساتھ احسان کرنا اور ان لوگوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا جو جنگ کرنے کے لیے آئے ہوں اور اپنے خون کے پیاسوں کے کام آنا ہر ایک کا کام نہیں، بلکہ یہ اعلیٰ انسانی صفت امام حسین علیہ السلام کے کردار میں ملتی ہے۔

امام حسین علیہ السلام کا قافلہ جب منزل شراف پر پہنچا تو امام ؑ نے حکم دیا کہ پانی بھر لو، مشکیں اور چھاکلیں پُر کر لو۔ اس منزل سے قافلہ جب آگے بڑھا تو ذوحسم کے مقام پر حر کے لشکر سے سامنا ہوا۔ امام اپنے اصحاب سمیت عمامے سروں پر رکھے تلواریں حمائل کیے کھڑے تھے کہ دشمن کے ہانپتے گھوڑے اور سوار سامنے آکر کھڑے ہوگئے۔ پیاس کی شدت سے ان کا برا حال تھا۔ امام حسین علیہ السلام ایک حساس دِل رکھتے تھے، جس میں انسانی ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ آپ کے لیے دشمن یہ حالت ناقابل برداشت تھی۔ آپ نے اپنے نوجوانوں کو حکم دیا کہ مشکیزوں کے منہ کھول دیئے جائیں اور تمام فوج کو پوری طرح سیراب کیا جائے۔ حکم کی دیر تھی کہ اطاعت امام پر کمربستہ جوان کھڑے ہوگئے اور سب کو سیراب کیا۔

علی بن طفان محاربی حر کا ایک ساتھی تھا، وہ کہتا ہے کہ پیاس کے مارے میرا بُرا حال تھا اور میں سب سے آخر میں پہنچا۔ جب امام حسین علیہ السلام نے میری اور میرے گھوڑے کی پیاس کو دیکھا تو فرمایا: روایہ (یعنی شتر آبکش کو) بٹھا لو، میری زبان میں راویہ مشک کو کہتے تھے، اس لیے میں اس کے معنی نہ سمجھا۔ حضرت نے فرمایا: جمل یعنی اونٹ کو بٹھا لو میں نے اونٹ کو بٹھایا، حضرت نے فرمایا، اب پانی پیو مگر میں اتنا بدحواس تھا کہ جتنا پینے کی کوشش کرتا، پانی زمین پر بہتا اور منہ میں نہ جاتا۔ امام (ع) خود اٹھے اور میرے پاس آکر مشک کے دہانے کو ٹھیک کرکے مجھے دیا، میں نے خود بھی پانی پیا اور گھوڑے کو سیراب کیا۔(۲۳) یہ امام حسین علیہ السلام کی اعلیٰ ظرفی اور بلند اخلاقی کا بین ثبوت ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ کے مقابلے پر جو افراد تھے، وہ انتہائی پست فطرت اور ذلیل تھے۔ انہوں نے امام ؑ کے اعلیٰ اخلاق کا جواب ان پر اور ان کے اہل و عیال پر پانی بند کر دینے سے دیا۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
(۱)۔ عماد زادہ، عماد الدین اصفہانی، سیرت سید الشہداء، امامیہ پبلی کیشنز لاہور، جلد۱، ص۲۴
(۲)۔ ابن قتیسبہ دینوری، الامامۃ والسیاسۃ، مکتبہ مصطفی البابی الحلبی، ۱۳۸۲ھ، ق، ج۱، ص۱۸۴
(۳)۔ علی نقی نقن، شہید انسانیت، امامیہ مشن پاکستان، ٹرسٹ لاہور، ۲۰۰۶ء، ص۱۵۹
(۴)۔ حافظ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ترجمہ امام حسینؑ، تحقیق محمد باقر محمودی، موسئسہ الاعلمی بیروت، ج۴، ص۳۲۳
(۵)۔ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۴۴، ص۱۹۶۔۱۹۷، داراحیا ء التراث العربی، بیروت ۱۹۸۳ء
(۶)۔ مجلسی، ایضاً، ص۱۹۰، حافظ ابن عساکر، ایضاً، ص۱۶۰
(۷)۔ حسنی، ہاشم معروف، سیرۃ الائمہ الاثنی عشر، بیروت، ج۲، ص۳۱
(۸)۔ شیخ جعفر شوستری، الخصائص، الحسینہ، مکتب اہل بیت ، کراچی، ص۱۳۲
(۹)۔ مقرم، عبدالرزاق، مقتل الحسین(علیہ السلام)، بیروت، ص ۳۴۵
(۱۰)۔ مالکی، ابن صباغ، الفصول المھمہ، ذوی القربی، قم، ص۱۵۹
(۱۱)۔ قمی، شیخ عباس، منتھی الامال، ج۱،ص۵۳۱
(۱۲)۔ سمر قندی، محمد بن مسعود، تفسیر عیاشی، کتابفروشی اسلامیہ تہران، ج۲، ص۲۵۷، بحرانی، سید ہاشم، البرہان، فی تفسیر القرآن، موسئسہ الاعلیٰ بیروت،ج۲، ص۳۶۳
(۱۳)۔ عماد زادہ، ایضاً، ج۱،ص۸۸     
(۱۴)۔ مجلسی، بحار الانوار ،ج۴۴، ص۱۹۱، موسئسہ الوفاء، بیروت
(۱۵)۔ مجلسی، بحار، ج۴۴، ص۱۹۱
(۱۶)۔ ابن طاوئوس، سید علی بن طاوئوس حلی، اللھوف فی قتلی الطفوف، نجف، ص۹۶
(۱۷)۔ مفید، محمد بن نعمان، الارشاد، موسئسہ ،اہل بیت، قم، ص۱۹۱
(۱۸)۔ طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم والملوک، موسئسہ الاعلمی، بیروت، ج۶، ص۲۵۸
(۱۹)۔ طبری، ایضاً، ص۲۵۹
(۲۰)۔ مفید، محمد بن نعمان، الارشاد، موسئسہ آل البیت قم، ص۲۵۶
(۲۱)۔ شیخ جعفر شوستری، الخصائص مکتب اہل البیت، کراچی، ج۱، ص۱۳۲
(۲۲)۔ مجلسی، ایضاً، ص ۱۹۱، امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، دارالتعارف، بیروت، ج۴، ص۱۳۲
(۲۳)۔ طبری، ایضاً، ص ۲۴۷، مفید، ایضاً،ص۲۳۴
خبر کا کوڈ : 853238
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش