0
Monday 30 Mar 2020 20:30

کرونا تعصب اور خوف خدا

کرونا تعصب اور خوف خدا
تحریر: سید اسد عباس

آج جب پوری دنیا اور پاکستان کرونا جیسی آفت سے نبرد آزما ہیں، ایسے میں بعض سیاست دان اور کچھ میڈیا چینلز کرونا کے حوالے سے حکومت پاکستان پر تنقید کے نشتر چلانے میں مصروف ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ حکومت پاکستان ملک میں کرونا لانے کا موجب بنی ہے اور اس حوالے سے تفتان کے زائرین کو ملک لانے پر حکومت زیر عتاب ہے۔ مسلم لیگ کے راہنما خواجہ آصف نے تو ایک قدم آگے بڑھایا اور وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری پر ایران سے آنے والے زائرین کو تفتان سے فرار کروانے کا الزام عائد کر دیا، زلفی بخاری نے مسلم لیگ نون کے رہنماء خواجہ آصف کو ایک ارب کے ہر جانے کا قانونی نوٹس بھجوا دیا ہے۔ قانونی نوٹس کے ذریعے زلفی بخاری نے خواجہ آصف سے عائد کردہ جھوٹے اور من گھڑت الزامات فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے نون لیگ کے رہنماء سے علی الاعلان معافی مانگنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ زلفی بخاری کی جانب سے خواجہ آصف کو الزامات کی واپسی اور معافی کے لیے 14 روز کی مہلت دی گئی ہے۔

تفتان سے آنے والے زائرین کے معاملے پر اگر دقت سے غور کیا جائے تو اس حوالے سے ہونے والی باتیں اور الزامات کو چند تعصبات کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایک جانب تو فرقہ وارانہ تعصب ہے، جو چاہتا ہے کہ مکتب تشیع کے افراد کو ہر مصیبت، برائی کا سرچشمہ قرار دیا جائے اور ان کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہ برتی جائے۔ دوسرا تعصب سیاسی ہے، اپوزیشن بالخصوص مسلم لیگ نون کے لیے قابل برداشت نہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کے کسی بھی اقدام کو سراہا جائے۔ وہ حکومتی اقدامات پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، خواہ اس کا تعلق پاکستانیوں کی زندگی اور موت سے ہو۔ تیسری مشکل میڈیا کے کچھ چینلز کی ہے۔ ان کا کاروبار بند ہو جانے کے سبب انہیں ایک ایسے موضوع کی ضرورت ہے، جس کا معاشرے میں کوئی خریدار ہو۔ جیو نیوز کے مالک کی گرفتاری کے بعد تو جیو کا تفتان کے مسئلے کو اٹھانا اور حکومت پر دباو ڈالنا سمجھ آتا ہے۔ پنجابی زبان میں ایک محاورہ اسی کیفیت کو بیان کرتا ہے، جس کا اردو مفہوم یہ ہے کہ بات بیٹی کو کی جا رہی ہے اور سنایا بہو کو جا رہا ہے۔

ظاہر ہے جیو اس وقت اپنے مالک کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری پر براہ راست تو بات کر نہیں سکتا، لہذا اس کے پاس اس وقت یہی ایشو رہ جاتا ہے کہ وہ کرونا کے خلاف جنگ میں حکومتی ناکامیوں کو اچھالے۔ شہباز شریف کی اچانک ملک واپسی بھی حیران کن ہے، وہ اس ملک میں کرونا کے خلاف جہاد لڑنے یا عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے نہیں آئے بلکہ ان کا واحد مقصد حکومت کے اقدامات پر نظر رکھنا اور تنقید کرنا ہے۔ جہاں تک تفتان سے زائرین کی واپسی کا سوال ہے تو یہ نہایت بچگانہ اور متعصبانہ اعتراض ہے کہ ایران سے آنے والے زائرین کو ملک میں کیوں آنے دیا گیا۔ پوری دنیا میں سیاحتی ویزا پر کسی دوسرے ملک جانے والے شہری اپنے ویزا کی مدت کے خاتمے پر اپنے ملک میں ہی لوٹ رہے ہیں۔ کیسے ممکن تھا کہ پاکستان کے شہری جو سیاحتی ویزے پر کسی بھی ملک گئے ہوئے ہیں ان کو اپنے ملک آنے سے روکا جائے، یہ رکاوٹ شہری حقوق اور عالمی قوانین کے خلاف ہے۔ اعتراض کرنے والے چین میں زیر تعلیم طلبہ کی مثال پیش کرتے ہیں کہ حکومت پاکستان نے ان کو ملک میں آنے سے روکا ہے، بالکل چین کی مانند پاکستان کے متعدد طلبہ دنیا کے مختلف ممالک میں زیر تعلیم ہیں، یہ طلبہ پاکستان نہیں لوٹے ہیں، ان میں ایک کثیر تعداد ایران اور عراق میں زیر تعلیم طلبہ کی بھی ہے۔ لہذا اقامتی ویزے کے حامل افراد اور سیاحتی ویزے کے حامل افراد کے مابین فرق کیا جانا چاہیئے۔

ثانیا یہ کہ ایران سے آنے والے تمام زائرین کو خبروں کے مطابق چودہ روز ایران میں اور چودہ روز تفتان میں قرنطینہ میں رکھا گیا۔ ان زائرین کو مزید چودہ روز ان کے صوبوں میں بھی قرنطینیہ مین رکھا جا رہا ہے۔ ان زائرین کی ایک بڑی تعداد میں کرونا مثبت آیا ہے، جس کی وجہ تفتان میں ان کا نامناسب قیام تھا۔ حکومت پاکستان اتنی بڑی تعداد میں ایران سے آنے والے زائرین کے قرنطینہ کے لیے تفتان بارڈر پر مناسب انتظامات نہ کرسکی، جس کی وجہ سے اگر یہ مرض دس افراد کو تھی تو اس کے متاثرین کی تعداد دسیوں تک پہنچ گئی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ الحمدللہ صوبائی قرنطینہ مراکز میں موجود زائرین میں سے فی الحال کسی ایک زائر کی بھی موت واقع نہیں ہوئی ہے۔ پاکستان میں کرونا سے ہونے والی اموات میں زیادہ کا تعلق یورپ، امریکہ، جدہ اور عرب امارات سے واپس لوٹنے والے مریضوں یا ان سے متاثر ہونے والے افراد کا ہے۔ اپوزیشین اور میڈیا زائرین کی آمد پر اعتراض تو تب کرتی، جب یہ لوگ بغیر قرنطینہ کے ملک کے مختلف علاقوں میں پہنچ گئے ہوتے، معاملہ اس کے برعکس ہے۔ دنیا بھر سے واپس لوٹنے والے تقریباً 9 لاکھ پاکستانی شہری بغیر قرنطینہ کے اپنے شہروں کو چلے گئے، جن کی اموات کا سلسلہ بعد ازاں شروع ہوا۔

اللہ کریم تمام پاکستانیوں کو اس آفت سے محفوظ فرمائے۔ یہ وقت نہیں ہے کہ ہم مذہبی، سیاسی تعصب کی بنا پر کسی دوسرے طبقے کی دل آزاری کریں، فضلہ خور میڈیا کے کچھ چینلز کو بھی اپنی روش پر غور کرنا چاہیئے۔ اٹلی کی ایک بزرگ خاتون نے بہت خوبصورت بات کی کہ یہ کرونا تو چلا جائے گا، لیکن وہ تعصبات جو ہم اپنے معاشرے میں بو رہے ہیں، ہمیشہ قائم رہیں گے۔ ہمیں بھی اس تعصب سے بچنا چاہیئے اور حکومت وقت کرونا سے لڑنے کے لیے جو اقدامات کر رہی ہے، ان میں اس کا ساتھ دینا چاہیئے، کیونکہ یہ وقت نہیں ہے کہ ہم کسی سیاسی مہم جوئی میں پڑ کر پاکستانی شہریوں کی زندگیوں سے کھیلیں۔ دنیا کی بڑی بڑی معیشتیں کرونا سے لڑنے میں ناکام رہی ہیں، ایسے میں ایک کمزور معیشت اگر بعض جگہ وسائل نہ ہونے کے سبب ناکام ہوئی ہے تو ہمیں اس کو کوسنے کے بجائے بحیثیت قوم اس جنگ کو جاری رکھنا چاہیئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کے اس وقت تک کے اعلانات کرونا کے خلاف جنگ کے لیے مناسب اعلانات ہیں، امید ہے کہ ان پر عملی اقدام بھی اٹھایا جاتا رہے گا۔

ہماری گذشتہ حکومتون کے لیے تو لوڈشیڈنگ، گیس کی کمی، آٹے کا بحران اور اس جیسے چھوٹے چھوٹے مسائل سے نمٹنا ہی مشکل ہو جاتا تھا، کجا یہ عالمی آفت۔ اللہ کے ہر کام میں بہتری ہوتی ہے، عمران خان ایک کھلاڑی کے ساتھ ساتھ ایک سماجی کارکن بھی ہیں، ان کا شوکت خانم ہسپتال اس بات کی بین دلیل ہے، یہی شخص اس وقت ملک کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتا تھا۔ خدانخواستہ اگر عمران کے علاوہ کسی تاجر یا سرمایہ دار کی حکومت ہوتی تو ملک اور عوام کا حال نہ جانے کیا ہوتا۔ اللہ کریم ہماری حکومت کو توفیق دے کہ وہ اس عالمی وبا سے نمٹ سکے اور پوری دنیا اس عالمی آفت سے نجات حاصل کرسکے۔(امین)
خبر کا کوڈ : 853620
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش