QR CodeQR Code

کرونا سے پہلے اور بعد کی دنیا

31 Mar 2020 11:24

اسلام ٹائمز: لگ یوں رہا ہے اب دنیا کو کچھ عرصہ کرونا کیساتھ رہنا ہوگا، اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم کرونا کیساتھ جینا سیکھ لیں۔ وہ تمام احتیاطیں ہماری زندگی کا حصہ بن جائیں، جو کرونا سے بچاتی ہیں۔ جیسے بجلی ہر گھر میں موجود ہے اور سب کو معلوم ہے کہ یہ جان لے لیتی ہے، اس لیے اسے کوئی ہاتھ نہیں لگاتا بلکہ بچوں کو بھی نہیں لگانے دیا جاتا، جس کیوجہ سے ہم سب محفوظ رہتے ہیں۔ کرونا کو بھی اتنا خطرناک فرض کرنا ہوگا تو ہی وہ حساسیت پیدا ہوگی، جس سے دنیا کرونا سے محفوظ ہوگی۔


تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

کرونا نے دنیا بھر کے انسانوں کی زندگیوں کو تبدیل کر دیا ہے اور حیران کن طور پر  انسان سہم سا گیا ہے۔ قدرت کے نظام میں بڑھتی ہوئی انسانی مداخلت کے خطرناک نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ بہت عرصہ پہلے ایک مثال سنی تھی کہ دریا کی زمین پر جب مداخلت کی جاتی ہے اور دریا کے قدرتی راستے پر انسانی بستیاں بسا لی جاتی ہیں تو ایک دن دریا کو غصہ آتا ہے اور وہ اپنے ساتھ ایک سیلابی ریلا لے کر آجاتا ہے، جس سے وہ اپنی زمین تو لیتا ہی ہے، ساتھ ساتھ ان لوگوں کو سزا بھی دے جاتا ہے، جنہوں نے اس کی زمین پر قبضہ کیا ہوتا ہے۔ انسان نے اتنی بڑی تعداد میں جنگلی ماحول میں مداخلت کی کہ قدرت کا نظام بدلنے لگا، جنگلی جانوروں کی بڑی بڑی مارکیٹس وجود میں آئیں اور اربوں ڈالر کی تجارت ہونے لگی۔ پابندیاں لگیں تو  دنیا بھر میں بالعموم اور ترقی پذیر ممالک میں بالخصوص ایسے گروہ معرض وجود میں آنے لگے، جو ان جانوروں کو غیر قانونی طور پر سمگل کرنے لگے۔ اس سے جنگل جانوروں سے خالی ہونے لگے، درختوں کو ٹمبر مافیا پہلے ہی چاٹ رہا تھا۔ اس چھیڑ چھاڑ  کے نتیجے میں ایک جانوروں کا وائرس انسانوں میں منتقل ہوگیا، جس سے اب تک سات لاکھ لوگ متاثر ہوچکے ہیں۔

کسی نے انڈیا کے بڑے شہر کی ویڈیو بھیجی، رات کے وقت ہرن شہر کے بیچ پھر رہے ہیں، اسی طرح اٹلی میں بندر سٹی سنٹر کے درمیان گروہوں میں آرہے ہیں۔ جس طرح انسان نے آہستہ آہستہ جنگلی حیات کے مسکن جنگل پر قدم جمائے، یوں لگتا ہے اب جانور بڑے تپاک سے انسانی بستیوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس وبا نے ایک الارم کا کام کیا ہے اور ہمیں سوچنے اور غور و فکر کرنے کی دعوت دی ہے۔ ہمارے ہاں صفائی کا اتنا بوسیدہ نظام تھا، عام لوگوں کی بات ہی کیا کرنی؟ پڑھے لکھے لوگ  بھی کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کی زحمت نہیں کرتے تھے۔ کرونا نے اس قدر الرٹ کیا ہے کہ ہر تیس منٹ بعد تیس سیکنڈ تک مسلسل اچھے صابن سے ہاتھ دھوئے جا رہے ہیں۔ میرا جسم میری مرضی کے نام سے چند دن پہلے طوفان بدتمیزی مچایا گیا تھا، دلفریب نعرے سے فحاشی، عریانی اور بغیر روک ٹوک جنسی تعلق کی آزادی کا پرچار کیا گیا تھا، مگر آج کیا ہے؟ وہ جو جسم دکھانے چلیں تھیں، منہ چھپائے پھر رہی ہیں، جو جنسی آزادی کے نعرے لگا رہی تھیں، گھر سے باہر نہیں نکل رہیں، اپنے والد اور بھائی سے ہاتھ نہیں ملا رہیں۔

ہم جو اسلام پر عمل کرنے والے تھے، ہاتھ ملانا اور گلے ملنا ہماری تہذیب کا حصہ بن گیا تھا، اب وہ دن گئے، دور سے ہی ہاتھ لہراتے ہیں، اب کہنی ملانے اور پاوں لڑانے سے استقبال کیے جا رہے ہیں۔ شادیاں انتہائی سادگی سے انجام پا رہی ہیں، ہمارے گاوں میں ایک شادی ہوئی ہے، چند لوگ چھپتے چھپاتے بارات لے کر آئے اور اسی سادگی سے بارات لے کر چلے گئے، نہ وہ فائرنگ ہوئی، جو ہمارے ہاں شادیوں کا لازمی حصہ ہے اور نہ ہی ولیمے کے بڑے فنگشن ہوئے، خواتین کے پہناوں کا مقابلہ بھی کرونا کی نذر ہوگیا۔ پارکس خالی ہیں، مارکیٹس ویران ہیں۔ بڑے عرصے بعد لوگوں کو موقع ملا ہے کہ گھر رہ رہے ہیں۔ اپنے گھر والوں کو وقت دے رہے ہیں۔ یہ سب روایت سے ہٹ کر ہو رہا ہے کہ دن کے وقت بھی شوہروں کی بڑی تعداد گھروں پر موجود ہے، جس کے اثرات کا پتہ تو بعد میں چلے گا، امید ہے کہ یہاں اثرات اچھے ہوں گے، کیونکہ ووھان میں سنا گیا تھا کہ شرح طلاق کافی بڑھ گئی۔ گھر پر بیٹھ بیٹھ کر لوگوں میں چڑچڑا پن آگیا ہے، شروع شروع میں تو لوگ چھٹیوں کا سن کر بہت خوش ہوئے تھے، مگر اب انہیں حالات کی سنگینی کا احساس ہو رہا ہے کہ کرونا کس قدر بڑی مصیبت ہے، جس سے انہیں پالا پڑا ہے۔

آن لائن کا شعبہ پاکستان میں اس قدر ترقی یافتہ نہیں تھا، انٹرنٹ کو زیادہ تر سوشل میڈیا کی حد تک انٹرٹینمنٹ کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا، مگر اب اس کی افادیت بڑھ گئی ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء سے لے کر تعلیم تک کا سلسلہ اس سے جوڑا جا رہا ہے۔ بہت سے تعلیمی اداروں نے بڑی تیزی سے اپنا تعلیمی نظام آن لائن کلاسز سے جوڑ دیا ہے۔ اب رات کو جلدی سونا اور صبح کا جلدی اٹھنے کا تصور بھی تبدیل ہونے لگا ہے، کیونکہ جب پوری رات کلاسز پڑھیں گے یا پڑھائیں گے تو جلدی تاخیر تو اپنی جگہ دن اور رات کا تصور بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ مسجد نماز پڑھنا بہت اچھا سمجھا جاتا تھا، اب اس پر شدید تنقید ہوتی ہے، جو مسجد میں نماز پڑھتا ہے۔ حج و زیارات سے آنے والوں کے استقبال ہوتے تھے، ان کے بوسے لیے جاتے تھے، مگر اب وہ چودہ چودہ دن قرنطینہ میں گذارتے ہیں۔

چین ہمارا دوست ملک ہے اور ہر مشکل میں ہمارے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، انہیں بھی اپنا کھانے پینے کا نظام تبدیل کرنا ہوگا۔ میں یہ ہرگز نہیں کہوں گا کہ چائینہ اسلام کے تصورِ حلال و حرام کو اپنا لے اور صرف حلال جانوروں کو کھانے کی اجازت دی جائے بلکہ چائنہ کو اپنی فوڈ منسٹری کے سائنسدانوں سے مل کر ایسے جانوروں کی فہرست جاری کرنی ہوگی، جو انسان کو متاثر نہیں کرتے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو دنیا بار بار ایسے وائرس دیکھتی رہے گی، جس سے سب سے پہلے چین اور بعد میں پوری دنیا کرونا کی طرح متاثر ہوگی۔ دنیا اب ایک گاوں کی طرح ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ چائنہ یا دنیا کا کوئی ملک ہر معاملہ میں صرف اپنی مرضی کرے بلکہ اس حوالے سے بین الاقوامی قوانین بنانا ہوں گے اور اگر بنیں ہیں تو سب کو فالو کرنا ہوگا۔ لگ یوں رہا ہے اب دنیا کو کچھ عرصہ کرونا کے ساتھ رہنا ہوگا، اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم کرونا کے ساتھ جینا سیکھ لیں۔ وہ تمام احتیاطیں ہماری زندگی کا حصہ بن جائیں، جو کرونا سے بچاتی ہیں۔ جیسے بجلی ہر گھر میں موجود ہے اور سب کو معلوم ہے کہ یہ جان لے لیتی ہے، اس لیے اسے کوئی ہاتھ نہیں لگاتا بلکہ بچوں کو بھی نہیں لگانے دیا جاتا، جس کی وجہ سے ہم سب محفوظ رہتے ہیں۔ کرونا کو بھی اتنا خطرناک فرض کرنا ہوگا تو ہی وہ حساسیت پیدا ہوگی، جس سے دنیا کرونا سے محفوظ ہوگی۔


خبر کا کوڈ: 853761

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/853761/کرونا-سے-پہلے-اور-بعد-کی-دنیا

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org