1
Tuesday 31 Mar 2020 15:19

اسباب گناہ قرآن و حدیث کی روشنی میں(2)

اسباب گناہ قرآن و حدیث کی روشنی میں(2)
تحریر: ساجد محمود
جامعه المصطفیٰ العالمیه
Sajjidali3512@gmail.com
 
5۔ دنیا سے محبت:
گناہوں کے اسباب میں سے پانچواں سبب دنیا سے محبت ہے۔ دنیا سے محبت اور دنیا پرستی جب حد سے تجاوز کر جائے تو یہ گناہ کے لیے زمینہ فراہم کرتی ہے۔ خداوند متعال نے جب قرآن کریم میں گنہگاروں کے اوصاف بیان کیے تو فرمایا: "إِنَّ هَٰؤُلَاءِ يُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ وَيَذَرُونَ وَرَاءَهُمْ يَوْمًا ثَقِيلًا"۔ یقیناً یہ لوگ دنيا پسند ہیں اور اپنے پیچھے ایک بہت سنگین دن کو نظر انداز کئے بیٹھے ہیں۔ (انسان ٢٧)۔ قرآن کریم میں ایک اور مقام پر قیامت سے انکار کی علت دنیا سے محبت کو قرار دیا: "یَسْئَلُ أَیَّانَ یَوْمُ الْقِیامَةِ ... کَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعاجِلَة". وہ پوچھتا ہے قیامت کا دن کب آئے گا۔ کیا یہ انکار اس لیے ہے کہ قیامت ناقابل فہم ہے؟ ہرگز نہیں یہ اس لیے ہے کہ تم دنیا پرست ہو۔(قیامت: 6 و 20)۔ جو لوگ یتیموں کا احترام نہیں کرتے اور ایک دوسرے کو غریبوں پر خرچ کرنے کی تلقین نہیں کرتے اور یتیموں کا مال کھاتے ہیں انکو خداوند متعال نے یوں یاد کیا ہے: "وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّااور مال سے جی بھر کر محبت کرتے ہو۔
(فجر ٢٠)۔ دنيا پرستی گناہوں کا زمینہ فراہم کرتی ہے اور دنیا سے دوری انسان کو سعادت کی طرف لے جاتی ہے۔

خداوند متعال انسان یہ چاہتا ہے: "وَلا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا لِنَفْتِنَهُمْ فِیهِ وَرِزْقُ رَبِّکَ خَیْرٌ وَأَبْقَى" اور (اے رسول) دنیاوی زندگی کی اس رونق کی طرف اپنی نگاہیں اٹھا کر بھی نہ دیکھیں جو ہم نے آزمانے کے لیے ان میں مختلف لوگوں کو دے رکھی ہے اور آپ کے رب کا دیا ہوا رزق بہتر اور زیادہ ہے۔ (طہ ١٣١) امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ : إِنَّ أَوَّلَ مَا عُصِيَ اَللَّهُ بِهِ سِتَّةٌ حُبُّ اَلدُّنْيَا وَ حُبُّ اَلرِّئَاسَةِ وَ حُبُّ اَلطَّعَامِ وَ حُبُّ اَلنَّوْمِ وَ حُبُّ اَلرَّاحَةِ وَ حُبُّ اَلنِّسَاءِ"پہلی وہ چیز جس سے خداوند متعال کی نافرمانی ہوئی وہ چھ چیزیں تھیں۔ دنیا سے محبت، مقام و منصب سے محبت، کھانے سے محبت، نیند سے محبت، آسانی سے محبت، عورت سے محبت۔ (وسائل الشیعة ؛ج 15, ص 339)۔ اميرالمؤمنين علی علیه‌ السلام نے ارشاد فرمایا: "حُبُّ اَلدُّنْيَا يُفْسِدُ اَلْعَقْلَ وَ يُصِمُّ اَلْقَلْبَ عَنْ سَمَاعِ اَلْحِكْمَةِ وَ يُوجِبُ أَلِيمَ اَلْعِقَابِ" دنیا پرستی عقل کو فاسد کرتی ہے دل اور کان کو حکمت آمیز بات سننے سے بہرہ کر دیتی ہے اور دنیا و آخرت میں دردناک عذاب کا موجب بنتی ہے۔ (غرر الحکم؛ ج 1, ص 348) ان تمام آیات و روایات کی بررسی کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا سے محبت انسان کو خدا سے دور کرتی ہے اور معصیت تک لے جاتی ہے، لہٰذا گناہوں کے اسباب میں سے ایک سبب دنیا سے زیادہ محبت کرنا ہے.
 
6۔ جہنم کا انکار:
اسباب گناہ میں سے چھٹا سبب جہنم کا انکار ہے۔ قرآن کریم میں خداوند متعال نے جہنم سے انکار کرنے کو گناہ کا سبب قرار دیا ہے کیوںکہ اگر انسان کا یہ عقیدہ ہو کہ جو اعمال میں اس دنیا میں انجام دے رہا ہوں یقیناً ایک دن آئے گا کہ ان اعمال کے سزا یا جزا ملے گی تو انسان گناہ نہیں کرتا یا اگر گناہ کرتا بھی ہے تو پھر خدا کے حضور طلب مغفرت کرتا ہے چونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ ایک دن خداوند متعال کے حضور جانا ہے اور اعمال کا اجر ملنا ہے اور اس کے برعکس اگر انسان کا جہنم پر ایمان نہ ہو تو انسان آسانی سے گناہ کر لیتا ہے چونکہ اس کا عقیدہ یہ ہے کہ جہنم نامی کوئی چیز نہیں لہٰذا ڈرنے کی ضرورت نہیں، بس یہی زندگی ہے یہاں عيش و عشرت سے گزاریں۔ ان لوگوں کے متعلق خداوند متعال نے قرآن میں کہا: "أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَهُ"۔ آيا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ ہم ہڈیوں جمع نہیں کریں گے (قیامت ٣)
"بَلَىٰ قَادِرِينَ عَلَىٰ أَنْ نُسَوِّيَ بَنَانَهُ" ہاں در حالانکہ ہم اس چیز پر بھی قادر ہیں انکی انگلیوں کو بھی جمع کریں۔ (قیامت ٤) "يَسْأَلُ أَيَّانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ"۔ وہ سوال کرتا ہے کہ قیامت کب آئے گی (قیامت ٦۔) جو فقط اس عقیدے کی بنا پر گناہ کرتے ہیں کہ جہنم نامی کوئی چیز نہیں زندگی بس یہی ہے۔ انکو مخاطب کر کے خداوند متعال نے فرمایا: "يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ" اے انسان کس چیز نے تجھے اپنے پروردگار سے غافل کیا۔ (انفطار ٦) اس کے بعد آیت نمبر نو میں خود جواب دیا اور فرمایا: "كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُونَ بِالدِّينِیہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ تم نے قیامت کا انکار کر دیا۔ (انفطار ٩)۔
 
7۔ اکثریت کی پیروی:
گناہوں کے اسباب میں سے ساتواں سبب اکثریت کو دیکھ کر عمل کرنا ہے۔ خداوند متعال نے معیار حق کو قرار دیا ہے نہ کہ اکثریت کو۔ خداوند متعال نے انسان کو عقل سے نوازا ہے کہ اس کے ذریعے راہ حق کو درک کر سکے، اگر انسان کا معیار حق نہ ہو بلکہ اکثریت ہو تو بہت سے گناہوں کا شکار ہو جاتا اور موجودہ دور میں ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم حق کو نہیں دیکھتے بلکہ اکثریت کو دیکھتے ہیں۔ بسا اوقات ہم لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی آخرت خراب کر دیتے ہیں۔ مثلاً جب ہم کسی محفل میں موجود ہوتے ہیں اور وہاں چند افراد مل کر کسی کی غیبت کر رہے ہوتے ہیں تو ہم بھی اس اکثریت کو دیکھ کر اس میں شامل ہو جاتے ہیں اور اس گناہ کبیرہ میں انکے ساتھ شریک ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ حق یہ ہے کہ وہاں غیبت کو روکا جائے گو جس کی غیبت کی جا رہی ہے وہ ایک ہے غیبت کرنے والے زیادہ ہیں لیکن حق اس کے ساتھ ہے جس کی غیبت کی جا رہی ہے۔
لیکن ہم بھی اکثریت کو دیکھ کر ان کے ساتھ شریک گناہ ہو جاتے ہیں، اس کے علاوہ بھی بہت سارے مقامات پر ہم بغیر سوچے سمجھے اندھی تقلید کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہم بھی گناہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جناب لقمان نے اپنے بیٹے کو جب وصیت کی تو یہی کہا: "لا تُعَلِّقْ قَلْبَکَ بِرِضَی النّاس فَإِنَّ ذَلِکَ لایَحْصُلُ"۔ اے بیٹا اپنے دل کو لوگوں کی خوشنودی کے ساتھ وابستہ نہ کرو چونکہ جو بھی کرو گے لوگوں کی خوشنودی حاصل نہیں کر سکو گے۔ (سفینۃ البحار، شیخ عباس قمی، ج2، ص511)
 
واقعہ:
جناب لقمان نے جب اپنے بیٹے کو وصیت کر لی تو اسے عملی طور پر سمجھانے کے لیے بیٹے اور اپنے گدھے کو ساتھ لیا اور سفر شروع کر دیا۔ ابتداء میں خود گدھے پر سوار ہو گئے بیٹے کو گدھا پکڑا دیا، جب ایک جگہ پر پہنچے جہاں کچھ افراد اپنے کام میں مصروف تھے، جیسے ہی یہ منظر دیکھا کہ باپ گدھے پر سوار ہے اور بیٹے نے گدھا پکڑا ہوا ہے فوراً اعتراض کیا کہ یہ بوڑھا کتنا سنگ دل، کتنا ظالم ہے خود سوار ہے بیٹا پیدل چل رہا ہے۔ اب خود اتر گئے بیٹے کو سوار کر دیا کچھ آگے گئے، پھر اعتراض کہ کتنا گستاخ بیٹا ہے بوڑھا باپ پیدل چل رہا ہے خود سوار ہے۔ اس کے بعد دونوں سوار ہو گئے لیکن پھر اعتراض شروع ہو گیا کہ دونوں کتنے ظالم ہیں، بیچارے گدھا کتنی مشکل میں ہے۔ اب دونوں اتر کر پیدل چلنے لگے لیکن اعتراض پھر بھی ہوا. اب کہا دیکھو کتنے بیوقوف ہیں گدھا پاس ہے لیکن دونوں پیدل چل رہے ہیں. اب جناب لقمان نے بیٹے کو مخاطب کر کے کہا کہ دیکھو کبھی بھی لوگوں کی رضامندی کے لیے کام نہ کرنا۔ ہمیشہ خداوند متعال کے مطیع و فرمانبردار رہو. خدا کے خوشنودی کے لئے کام کرو: "فَلا تَلْتَفِتْ إلَیْهِمْ وَ اشْتَغِلْ بِرِضَی اللهِ جَلَّ جَلالُهُ"۔ اے بیٹا لوگوں کی طرف متوجہ نہ ہوں بلکہ خداوند متعال کی خوشنودی حاصل کرنے میں مشغول رہو۔ (سفینة البحار، ج 2، ص 511.)۔

ہمارے معاشرے میں عموماً ایسا ہی ہوتا ہے کہ ہم لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے حدود الٰھی کو پامال کرتے ہیں اور آخر میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ بھی خوش نہیں کر پاتے۔ امام موسٰی کاظم علیہ السلام نے اپنے شاگرد ھشام کو فرمایا: "یا هِشَام! لَوْ کَانَ فِی یَدِکَ جَوْزَةٌ وَ قَالَ النَّاسُ لُؤلُؤَةٌ مَا کَانَ یَنْفَعُکَ وَ أَنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهَا جَوْزَةٌ وَ لَوکَانَ فِی یدِکَ لُؤلُؤَةٌ وَ قَالَ النَّاسُ إِنَّهَا جَوزَةٌ مَا ضَرَّکَ وَ أَنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهَا لُؤلُؤَةٌ". اے ھشام اگر تیرے ہاتھ میں اخروٹ ہو اور لوگ کہیں کہ ہیرا ہے یہ آپ کو فائدہ نہیں دے گا. چونکہ تجھے معلوم ہے یہ اخروٹ ہے اور اگر تیرے ہاتھ میں ہیرا ہو اور لوگ کہیں کہ اخروٹ ہے تو اس سے آپ کو نقصان نہیں ہو گا چونکہ تجھے معلوم ہے کہ یہ ہیرا ہے۔ (سفینة البحار، ج 2، ص 511.) معلوم ہوا لوگوں کی اطاعت ضروری نہیں حق کی اطاعت ضروری ہے۔ اسی طرح ہی امام محمد باقر علیہ السلام بہت پیاری وصیت ہے جو آپ نے اپنے شاگرد جابر جعفی کو کی تھی آپ نے فرمایا: "واعلم بأنك لا تكون لنا وليا حتى لو اجتمع عليك أهل مصرك وقالوا: إنك رجل سوء لم يحزنك ذلك، ولو قالوا: إنك رجل صالح لم يسرك ذلك ولكن اعرض نفسك على كتاب الله، فإن كنت سالكا سبيله زاهدا في تزهيده راغبا في ترغيبه خائفا من تخويفه فاثبت وأبشر، فإنه لا يضرك ما قيل فيك"۔

اے جابر! جان لے، تو اس وقت تک ہمارا نہیں ہو سکتا جب تک تمام اھل شہر یہ نہ کہیں کہ تو بہت برا انسان ہے۔ اس وقت تونے پریشان نہیں ہونا؛ اور اگر پورا شہر کہہ دے کہ تو بہت اچھا انسان ہے تو خوش نہ ہونا بلکہ تجھے چاہیئے کہ اپنے آپ کو کتاب خدا کے سامنے پیش کرو۔ اگر قرآن کے مطابق زندگی گزار رہا ہے یعنی جس چیز سے قرآن محبت کرتا ہے تو بھی اسی چیز سے محبت کرتا ہے اور جس چیز سے قرآن نفرت کرتا ہے تو بھی اسی چیز سے نفرت کرتا ہے، جس سے قرآن نے منع کیا ہے تونے اسے چھوڑ دیا ہے تو اسے پر برقرار رہ اور خوشخبری ہے آپ کے لیے کہ اس حال میں لوگ جو کچھ تیرے بارے میں کہتے ہیں تجھے کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ (تحف العقول. ابن شعبة الحراني جلد: 1صفحه: 284) اور مقام پر امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: "قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ: مَنْ طَلَبَ مَرْضَاةَ اَلنَّاسِ بِمَا يُسْخِطُ اَللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ كَانَ حَامِدُهُ مِنَ اَلنَّاسُ ذَامّاً وَ مَنْ آثَرَ طَاعَةَ اَللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ بِمَا يُغْضِبُ اَلنَّاسَ كَفَاهُ اَللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ عَدَاوَةَ كُلِّ عَدُوٍّ وَ حَسَدَ كُلِّ حَاسِدٍ وَ بَغْيَ كُلِّ بَاغٍ وَ كَانَ اَللَّهُ لَهُ نَاصِراً وَ ظَهِيراً۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، جو بھی یہ چاہتا ہے کہ اس چیز کے ساتھ لوگوں کی خوشنودی حاصل کرے جو خداوند متعال کو ناپسند ہے لوگ اس کی مذمت کریں گے اور جو خداوند متعال کی اطاعت کرے گا اس چیز میں کہ جو لوگوں کو ناپسند ہے، تو خدا اسے ہر حاسد کے حسد، ہر ظالم کے ظلم، اور ہر دشمن کی دشمنی سے محفوظ رکھے گا اور خداوند متعال اس کی مدد اور پشت پناہی کرے گا۔ (الکافي، جلد 5، صفحه 62)۔
 
8۔ گناہ کو چھوٹا سمجھنا:
گناہ کے اسباب میں سے آٹھواں سبب گناہ کو چھوٹا (ناچیز) سمجھنا ہے۔ یہ ایسا خطرناک سبب ہے کہ جب انسان گناہوں کو چھوٹا یا ناچیز سمجھ کر انجام دیتا رہتا ہے تو ان گناہوں کا عادی بن جاتا ہے۔ پھر اسے گناہ کرتے وقت کسی قسم کا خوف نہیں آتا اور گناہ کرنے کے بعد ندامت نہیں ہوتی۔ ابتدا میں انسان یہ کام گناهان صغیرہ سے شروع کرتا ہے جب ان گناہوں کو اہمیت نہیں دیتا تو پھر گناهان کبیرہ کی نوبت آ جاتی ہے۔ جب ان تمام گناہوں کا تکرار کرتا ہے تو پھر خداوند متعال اس سے آہستہ آہستہ توفیقات سلب کر لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معصومین علیهم السلام بہت تاکید فرمائی ہے کہ (خدا نہ کرے) جب کوئی انسان گناہ کرے تو فوراً توبہ کرے اور توبہ کی بنیاد شرط یہ بتائی کہ دوبارہ اس گناہ کی تکرار نہ کرے۔ اس حوالے سے امام سجاد علیہ السلام کی دعا کا بہت خوبصورت جملہ ہے، ارشاد فرمایا: "اللَّهُمَّ اعُوذُبِکَ مِن ... الإِصرارِ عَلَی الإِثمِ وَ اسْتِصْغار المَعْصِیَةِ" خدایا تجھ سے پناہ چاہتا ہوں گناہوں پر اصرار اور گناہوں کو چھوٹا جاننے سے۔ (صحیفہ سجادیہ، دعا 8) جب انسان گناہوں کو چھوٹا سمجھ کر انجام دینا شروع کر دیتا ہے تو پھر گناہ اتنے زیادہ ہو جاتے ہیں کہ انسان کے لیے توبہ سخت ہو جاتی ہے. اس کی مثال بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک دھاگہ ہو، اگر ایک دھاگے کو توڑنا ہو تو آسان ہے اور اگر وہی چند دھاگے مل کر ایک مضبوط رسی کی شکل اختیار کر جائیں تو پھر توڑنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔


اسی طرح اگر انسان گناہوں کو اہمیت دے انہیں چھوٹا شمار نہ کرے اور جیسے ہی گناہ سرزد ہو فوراً خداوند متعال کے حضور طلب مغفرت کر۔ اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کرے اور اگر انسان ایسا نہ کرے یعنی گناہوں کو چھوٹا سمجھے اور تکرار کرتا رہے توبہ بھی نہ کرے تو پھر یہ اس مضبوط رسی کی طرح گناہوں کا انبار لگ جائے گا پھر ان سے توبہ کرنا مشکل ہو جائے گا۔ خداوند متعال نے قرآن میں مومن کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بتائی کہ مومن گناہ پر اصرار نہیں کرتا۔ ارشاد فرمایا: "وَ لَمْ یصِرُّوا عَلی ما فَعَلُوا وَ هُمْ یعْلَمُون"۔ اور وہ جان بوجھ کر اپنے کئے (گناہ) پر اصرار نہیں کرتے۔ (آل عمران: 135) امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: یہاں اصرار سے مراد کہ انسان گناہ کرے۔ گناہ کرنے کے بعد خدا کے حضور طلب مغفرت اور توبہ کی فکر نہ کرے۔ (اصول کافی، ج 2، ص 28۔) معصوم (ع) نے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: "إِیّاکَ وَ الإِصْرارَ فَإِنَّه مِنْ أَکْبَرِ الْکَبَائِرِ وَ أَعْظَمِ الْجَرائِمِ"۔ گناہوں پر اصرار سے بچو کیونکہ گناہوں پر اصرار یہ گناهان کبیرہ میں سے ہے۔ (مستدرک الوسائل، ج 11، ص 368.) امام جعفر صادق علیہ السلام ایک بہت خوبصورت مثال رسول اللہ سے نقل فرمائی ہے فرمایا: "إن رسول الله (صلى الله عليه وآله) نزل بأرض قرعاء [1] فقال لأصحابه: ائتوا بحطب، فقالوا: يا رسول الله نحن بأرض قرعاء ما بها من حطب قال: فليأت كل إنسان بما قدر عليه، فجاؤوا به حتى رموا بين يديه، بعضه على بعض، فقال رسول الله (صلى الله عليه وآله): هكذا تجتمع الذنوب، ثم قال: إياكم والمحقرات من الذنوب"۔

رسول خدا ایک دن اپنے اصحاب کے ساتھ سفر پر جا رہے تھے ایک ایسی زمین پر پہنچے، جہاں نہ پانی تھا، نہ سبزہ، رسول اللہ نے اصحاب کو کہا سب جائیں اور یہاں سے کچھ لکڑی تلاش کر کے لے آئیں تاکہ کھانا بنائیں. اصحاب نے کہا یا رسول اللہ یہ خشک زمین ہے یہاں سے لکڑیاں نہیں ملیں گی۔ رسول خدا نے فرمایا: آپ جائیں جتنی جنتی ملتی ہیں لے آئیں اصحاب گئے اور سب تھوڑی تھوڑی لکڑیاں لے کر آئے اور سب لکڑیاں رسول اللہ کے سامنے ایک دوسرے کے اوپر رکھتے گئے یہاں پر رسول خدا نے ارشاد فرمایا: ان لکڑیوں کی طرح ہی گناہ بھی اکٹھے ہوتے ہیں۔ پھر فرمایا: گناہوں کو چھوٹا سمجھنے سے بچیں. جب انسان گناهان صغیرہ کو ناچیز سمجھ کر انجام دیتا ہے تو یہی گناہ اسے گناهان کبیرہ میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ اسی حوالے سے امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: "الصغائر من الذنوب طرق الي الکبائر، و من لم يخف الله في القليل لم يخفه في الکثير". چھوٹے گناہ بڑے گناہوں تک پہنچنے کا راستہ ہیں، جو چھوٹے گناہ کرتے وقت خدا سے نہیں ڈرتا، وہ بڑے گناہوں کو انجام دیتے وقت بھی خدا سے نہیں ڈرے گا۔ (بحار الانوار 353/73.)۔ ایک جگہ پر امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا: "قال المسيح للحواريين: ان صغار الذنوب و محقراتها من مکائد ابليس، يحقرها لکم و يصغرها في اعينکم، فتجتمع و تکثر فتحيط بکم" حضرت عیسٰی علیہ السلام نے اپنے حواریوں کو کہا کہ چھوٹے گناہ اور ان کو چھوٹا شمار کرنا یہ شیطان کے حیلوں میں سے ایک حیلہ ہے۔ وہ ان گناہوں کو آپ کی نظر میں چھوٹا اور حقیر کر کے دکھاتا ہے۔ اس طرح کہ یہ سب جمع ہو جاتے ہیں اور زیادہ ہو جاتے ہیں اور آپ کو ہلاک کر دیتے ہیں۔ (ميزان الحکمه، ماده ذنب.)
خبر کا کوڈ : 853784
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش