0
Friday 3 Apr 2020 20:58

افغانستان آئینی ترامیم کا متقاضی

افغانستان آئینی ترامیم کا متقاضی
اداریہ
افغانستان پر سویت یونین کے حملے سے لیکر آج تک چالیس برس سے زائد کا عرصہ ہو چلا ہے۔ اس ملک کے عوام کو سکھ کا سانس نصیب نہیں ہوا۔ سویت یونین کی براہ راست جارحیت کے بعد افغانستان امریکہ کی بالواسطہ اور بلاواسطہ جارحیت کا شکار رہا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔ کچھ عرصہ پہلے امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے کی خبریں منظرعام پر آئیں، لیکن امریکہ نے آج تک کبھی کسی دوسرے ملک کے مفاد میں کوئی معاہدہ نہیں کیا، لہٰذا یہ معاہدہ بظاہر طالبان کی حیثیت اور سیاسی وجود کو تسلیم کرنے کا باعث ضرور بنا، لیکن افغانستان میں طالبان کے علاوہ دیگر طاقتوں جن میں صدر اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ، وار لارڈز اور داعش کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بین الافغان مذاکرات کے ابتدائی مراحل طے ہو گئے ہیں، لیکن اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے باہمی اختلافات افغان مستقبل کے ہر مرحلے میں نمایاں رکاوٹ بن کر سامنے آ رہے ہیں۔ افغان جہادی گروہوں کی اہم شخصیت عبدالرسول سیاف نے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان معاملات کو سلجھانے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔ جسکی تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں آئیں، لیکن اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں اقتدار کے ایوانوں سے باہر جانے کے لیے تیار نہیں۔ گذشتہ انتخابات اور اختلافات میں عبداللہ عبداللہ کے لیے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ گھڑا گیا تھا۔

جبکہ عبداللہ عبداللہ وزیراعظم کے منصب کا مطالبہ کر رہے تھے۔ چیف ایگزیکٹو اور وزیراعظم دونوں منصب افغانستان کے قومی آئین غیر آئینی ہیں۔ افغانستان میں آئین میں تبدیلی کے لیے لوئی جرگہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان حالیہ مصالحت وزیراعظم کے عہدے پر منتہج ہوگی یا کوئی اور آئینی ترمیم ہوگی۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے، اس مرتبہ عبداللہ عبداللہ کسی غیر آئینی اور کم اختیارات والے منصب پر راضی ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔
 
خبر کا کوڈ : 854474
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش