QR CodeQR Code

آج کا سوشل میڈیا اور ہم

4 Apr 2020 15:38

اسلام ٹائمز: بانی شر بنتے سے گریز کریں، کیونکہ آپکی جانب سے ایک لمحہ میں سینڈ کی ہوئی ویڈیو یا تصویر ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں کو غلط راہ کی طرف دعوت دینے کے مترادف ہے۔ جس طرح نیک کام کے بانی بنے کی صورت اس نیکی پر عمل کرنیوالے کے برابر آپکو ثواب ملے گا، بالکل اسی طرح گناہ کی صورت میں گناہ کے مرتکب ہونیوالوں کے گناہ میں بھی آپ برابر کے شریک ہونگے۔


تحریر: محمود علی یعسوبی

انسان کی فطرت میں یہ یہ صفت رکھی گئی ہے کہ وہ کمال سے بے پناہ محبت کرتا ہے، کمال کی تلاش میں رہتا ہے اور کمال حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اگر کمال حاصل کرنے میں ناکام ہو جائے تو بھی اپنے آپ کو کمال سے منسوب کرنے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صفت سخاوت سے محروم کسی شخص کو بھی سخی کہنا اچھا لگتا ہے، ایک بزدل کو بھی بہادر کہنا اچھا لگتا ہے اور علم و معرفت سے نابلد شخص کو عالم یا باخبر کہنا اچھا لگتا ہے۔ غرض یہ کہ فطرتاً انسان کمال کی جانب مائل ہوتا ہے، کسی بھی وجہ سے انسان کمالات کے حصول سے محروم ہو تو پھر بھی اسے ہر صورت اس کے حصول کی سعی و کوشش جاری رکھنا چاہیئے۔ یہی وہ سبب ہے، جس کی بنا پر انسان کسی نہ کسی دن ترقی کی منازل طے کرتا ہوا کمالات کو پانے میں کامیاب ہوتا ہے۔ یہ ایک اچھی صفت ہے، جسے اپنانا چاہیئے۔ جیسا کہ اس کی تائید مولا علی ؑ کے فرمان مبارک سے بھی ہوتی ہے: إنْ لَم تَكُن حَليما فَتَحَلَّمْ؛ فإنَّهُ قَلَّ مَن تَشبَّهَ بقَومٍ إلاّ أوْشَكَ أنْ يكونَ مِنهُم(نہج البلاغہ حکمت:207) اگر تم واقعاً بردبار نہیں بھی ہو تو بردباری کا مظاہرہ کرو، بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کسی قوم کی شباہت اور ان میں سے نہ ہو جائے۔ اس فرمان  مبارک میں ایک صفتِ کمال بُردباری اور برداشت کو بیان کرنے کے بعد اسے اپنانے میں ناکام ہونے کی صورت میں بھی کم از کم شباہت اختیار کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔
 
اس ضمن میں انسان انہی کمالات کو خود اپنانے کے ساتھ ساتھ دوسروں تک پہنچانے اور دوسروں کو بھی اپنا ہم سفر بنانے کی کوشش کرتا ہے اور یہ واضح اسلامی احکامات کی روشنی میں امر بالمعروف اور تعاون علی الخیر کی ایک عملی صورت بھی ہے، لیکن بسا اوقات اس سلسلے میں انسان سستی اور لاپرواہی کا مظاہرہ کرتا ہے اور اپنے من کی ہر چیز کو بلا تحقیق و تفکر دوسروں تک پہنچاتا ہے تو پھر مشکلات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہاں سے یہ مستحسن عمل قبیح عمل میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر آج کے جدید دور میں سوشل میڈیا کو اسلام دشمن عناصر اسلام کے خلاف ایک مستحکم اسلحہ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تو ہمیں بھی سوشل میڈیا کے استعمال میں احتیاط سے کام لیتے ہوئے اسلام کے اصلی چہرے کو دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی ایران نے بھی اس ضمن میں خاص تاکید فرمائی  ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے سے اسلام دشمن سازشوں کو ناکام بنایا جائے۔ یہ سوشل میڈیا دنیا تک اپنا نظریہ اور پیغام پہنچانے کا ایک آسان ذریعہ ہونے کے ساتھ خطرناک بھی ہے۔

لہذا ہمیں فیس بک، واٹس ایپ یا سوشل میڈیا کے کسی بھی پلیٹ فارم سے موصول ہر مواد کو آگے فاروڈ کرنے سے قبل درجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا ہوگا، تاکہ ہمارا یہ عمل ہمیشہ اچھا اور مستحسن ہی باقی رہے۔
1۔ یہ جو میسج ہم تک پہنچا ہے، آیا بھیجنے والا کوئی مستند شخص ہے یا اس بات کی کوئی بنیاد بھی ہے۔؟ مثلاً ایک حدیث آپ تک پہنچے تو دیکھیئے کہ اس کا تعلق اخلاقیات سے ہے یا احکام سے یا اخلاقیات سے متعلق  ہے، اگر تو عقائد اور احکام سے متعلق ہے تو اس کی صحت و سقم کو اچھی طرح سے پرکھیں اور اس کا مکمل حوالہ دیکھنے اور اس کو مکمل سمجھنے کے بعد اگر درست لگے تو آگے دوسروں کو سینڈ کیجئے، وگرنہ اغیار جس طرح سے آج ہمارے ذاکرین کو ہمارے خلاف اسلحہ بناتے ہیں، بالکل اسی طرح ہماری ارسال کی ہوئی روایت ہمارے ہی خلاف اسلحہ ثابت ہونگی اور ایک ایسی بات جس کا تعلیمات اہلبیت سے کوئی تعلق ہی نہیں، مومنین کے لیے مشکلات کا باعث بنے، شرعی لحاظ سے درست نہیں۔ البتہ اگر اخلاقیات سے متعلق کوئی بات ہے یا کوئی واقعہ ہے تو اس کو آگے بھیجنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پھر بھی جھوٹ ہونے کا احتمال ہو تو محمد و آل محمد علیھم السلام کی طرف نسبت کے ساتھ آگے فاروڈ کر دینا درست نہیں ہے۔

2۔ کہیں یہ مواد فتنہ انگیزی کا باعث تو نہیں ہے؟ ہماری سینڈ کی ہوئی ایک ویڈیو، ایک خبر، ایک کالم، ایک شخص، ایک گروہ یا ایک قوم میں فتنہ کا باعث ہوسکتا ہے،  اس صورت میں ان تمام معاملات میں اس فتنے کے بانی آپ ہونگے۔ بسا اوقات دنیاوی پکڑ دھکڑ کے علاوہ اخروی عذاب کا باعث بھی آپ ہونگے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے: مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا (المائدۃ32) (جس نے کسی ایک کو قتل کیا، جبکہ یہ قتل خون کے بدلے میں یا زمین میں فساد پھیلانے کے جرم میں نہ ہو تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا)
3۔ کسی شخص کی عزت نفس مجروح تو نہیں ہوتی: سوشل میڈیا میں اس بات کا خیال ہی نہیں رکھا جاتا ہے کہ اس سے کسی کی عزت نفس پر حرف آرہا ہے۔ حق کے لیے آواز بلند کرنا ایک الگ مسئلہ ہے۔ یہ آواز ہر صورت میں بلند ہونی چاہیئے، لیکن بغیر کسی ثبوت اور دلیل کے کسی کی حرزہ سرائی کرنا اصلاً درست عمل نہیں ہے۔  بسا اوقات کسی کی برائی آپ کی نگاہ سے گزری بھی ہے تو دین آپ کو ہرگز اجازت نہیں دیتا ہے کہ آپ اس کی برائی پوری دنیا کے سامنے بیان کرنا شروع کر دیں۔ ایک مومن اگرچہ آپ کی نگاہ میں گناہگار ہی کیوں نہ ہو، اس کی عزت کعبہ سے زیادہ ہے۔ اس ضمن میں آحادیث و ادلہ کو بیان کی ضرورت نہیں ہے، سب کو معلوم ہے کہ عزت نفس ہر انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہے۔

4۔ آیا یہ مواد واقعاً آپ کے سامعین و قارئین کے لیے فائدہ مند بھی ہے، وگرنہ اتنے سارے لوگوں کا وقت ضائع کرنا ایک عاقل شخص عموماً اور خاص طور پر مسلمان ہونے کے ناطے پسندیدہ عمل نہیں ہے۔ اپنا اور اپنی قوم کا وقت ضائع کرنے سے گریز کیجئے۔
5۔ یہ بھی خیال رہے کہ بسا اوقات کسی کی آئی ڈی سے غیر متوقع مواد آتا ہے تو  جلد اس کے بارے بدگماں نہ ہوں، کیونکہ یہ کسی دوسرے شخص کی سازش بھی ہوسکتی ہے، یہ اکثر اوقات مذہبی شخصیات کے ساتھ سازش کے لیے تیسرا گروہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ خاص طور پر خواتین کے معاملات میں سخت احتیاط سے کام لیں۔ کہیں آپ کی ایک معمولی سی غلطی کی سزا اسے ساری زندگی بھگتنا نہ پڑے،  یعنی اس سے ازدواجی زندگی سے محرومی اور ذہنی و جسمانی اذیت سے دوچار ہونا نہ پڑے۔ یہ اسلامی نکتہ نگاہ سے تہمت اور قذف کے زمرے میں آئے گا۔ آگر آپ کو دنیا میں کوئی عذاب نہ بھی ملے تو خدا کی بارگاہ میں جوابدہ ہونا پڑے گا۔

6۔ کسی ایشو کے بارے میں اگر معاملہ واضح نہ ہو تو خاموشی جہالت کے اظہار سے کئی درجہ بہتر عمل ہے، جیسا کہ مولائے متقیانؑ کے مطابق "اگر جاہل اپنی زبان کو لگام دے تو دنیا سے فساد ختم ہو جائے۔" مزید برآں آپ ہی سے منسوب ہے کہ 
کن فی الفتنۃ کابن البون۔۔۔ (نہج البلاغہ حکمت:1) "فتنے میں دو سالہ اونٹنی کے بچے کی مانند رہو، نہ اس کی پیٹھ سواری کے قابل ہوتی اور نہ ہی اس کا تھن دودھ دینے کے قابل ہوتا ہے۔"
7۔ بانی شر بنتے سے گریز کریں، کیونکہ آپ کی جانب سے ایک لمحہ میں سینڈ کی ہوئی ویڈیو یا تصویر ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں کو غلط راہ کی طرف دعوت دینے کے مترادف ہے۔ جس طرح نیک کام کے بانی بنے کی صورت اس نیکی پر عمل کرنے والے کے برابر آپ کو ثواب ملے گا، بالکل اسی طرح گناہ کی صورت میں گناہ کے مرتکب ہونے والوں کے گناہ میں بھی آپ برابر کے شریک ہونگے۔ جیسا کہ فرمان پیامبر صلی اللہ علیہ و الہ و سلم ہے: (مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ كُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا ،وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ . وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ كُتِبَ عَلَيْهِ مِثْلُ وِزْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا ، وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ) (ریاض صالحین ص:199) نہ کم نہ زیادہ برابر کے شریک ہونگے۔ لہذا اپ تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ مذکورہ بالا نکات کو سامنے رکھتے ہوئے سوشل میڈیا کو استعمال کریں۔


خبر کا کوڈ: 854611

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/854611/آج-کا-سوشل-میڈیا-اور-ہم

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org