QR CodeQR Code

اٹھارہویں صدی کے دو اہم واقعات

5 Apr 2020 10:34

اسلام ٹائمز: 2 اکتوبر 1711ء کو اورنگزیب کے بیٹے معظم نے خطبہ جمعہ میں "علی ولی اللہ" کے الفاظ کے اضافہ کیے جانے کا حکم دیا تو احمد آباد اور لاہور سمیت دوسرے شہروں میں اس حکم کی مخالفت کی گئی۔ احمد آباد میں حکم کی تعمیل کی گئی تو خطیب کو قتل کر دیا گیا۔ لاہور میں اس فیصلہ پر عملدرآمد کا وقت آیا تو بادشاہ نے علماء کو بحث و مباحثہ کیلئے بلایا اور انہوں نے اورنگزیب کے بیٹے معظم کو کھری کھری سنا دیں اور کہا کہ شہادت ہماری خواہش ہے، ہم مر جائیں گے، مگر ایسا نہیں ہونے دینگے، یہ بحث جاری رہی۔


تحریر و تحقیق: توقیر کھرل

مغل بادشاہ بہادر شاہ ایک وسیع القلب انسان تھے۔ وہ ہندووں کے جذبات کی بھی قدر کرتے تھے اور ان کی بعض رسوم بھی ادا کرتے تھے۔ انہوں نے شاہ عباس کی درگاہ پر ایک علم چڑھانے کے لیے لکھنؤ بھیجا، جس کے نتیجہ میں افواہ پھیل گئی  کہ وہ شیعہ ہوگئے ہیں، لیکن جب سنی علماء و اکابر نے اس پہ مواخدہ کیا تو بادشاہ نے اس افواہ کی تردید کے لیے مرزا غالب سے ایک فارسی مثنوی لکھوا کر عوام و خواص کو اپنے سُنی ہونے کا یقین دلایا (البتہ غالب خود بھی شیعہ تھے)۔ یہ وہ زمانہ ہے جب اہل تشیع اپنے عقائد کو چھپانے پر مجبور تھے اور کوئی بھی اہل بیت کا نام لیتا تو اسے شیعہ سمجھا جاتا، یہ تاثر غلط ہے کہ دور حاضر میں بھی صرف اہل بیت کا نام لینے والا، علم لگانے والا اب بھی شیعہ کہلاتا ہے۔(ضیاء الحق کے دور سے تو شیعہ افراد سے کینہ روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے، جس کی ایک مثال حالیہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں اہل تشیع کو الزام دینا شامل ہے)۔

اسی زمانہ میں ایک اور واقعہ بھی پیش آیا کہ 2 اکتوبر 1711ء کو اورنگزیب کے بیٹے معظم نے خطبہ جمعہ میں "علی ولی اللہ" کے الفاظ کے اضافہ کیے جانے کا حکم دیا تو احمد آباد اور لاہور سمیت دوسرے شہروں میں اس حکم کی مخالفت کی گئی۔ احمد آباد میں حکم کی تعمیل کی گئی تو خطیب کو قتل کر دیا گیا۔ لاہور میں اس فیصلہ پر عملدرآمد کا وقت آیا تو بادشاہ نے علماء کو بحث و مباحثہ کے لیے بلایا اور انہوں نے اورنگزیب کے بیٹے معظم کو کھری کھری سنا دیں اور کہا کہ شہادت ہماری خواہش ہے، ہم مر جائیں گے، مگر ایسا نہیں ہونے دیں گے، یہ بحث جاری رہی۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ بادشاہی مسجد لاہور کے منبر سے نئے احکام کے ساتھ خطبہ پڑھا جائے، لیکن لاہور میں ایک لاکھ سے زائد عوام سڑکوں پر نکل آئے، بالآخر بادشاہ کو اپنا حکم منسوخ کرنا پڑا۔ اس احتجاج کے بعد حکومت نے ایسے عقائد کی پشت پناہی سے ہاتھ اٹھا لیا۔

بعدازاں بہت سی ریاستوں میں اکثریت شیعہ حکام کی شامل رہی۔ مغلیہ سلطنت کے آخری دور میں بھی علم تاریخ کے میدان میں بھی مسلک تشیع پیش پیش تھا۔ علامہ شبلی نعمانی نے مضامین عالمگیری میں بڑے شکایت آمیز لہجے میں اس امر کا اظہار کیا ہے کہ عہد عالمگیری میں سب سے برگزیدہ مورخ شیعہ تھے۔ اردو ادب کی ابتداء اور ترقی میں لکھنو، دکن، مرشد آباد اور عظیم آباد کے سادات اور خاندانوں کا کردار شامل ہے۔ اگلی قسط میں قاضی نور اللہ شوشتری کا تعارف تفصیلی انداز میں بیان کیا جائے گا اور اس ضمن میں یہ بھی واضح کیا جائے گا کہ حکومت کی حمایت کے باجود انہیں کیسی مشکلات کا سامنا رہا اور ان کی کیا خدمات ہیں۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مآخد
رُود کوثر، اکرام خاں
آخری مغل بادشاہ کون تھا۔ روزنامہ دنیا
ظفر بادشاہ۔ ریختہ ویب


خبر کا کوڈ: 854762

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/854762/اٹھارہویں-صدی-کے-دو-اہم-واقعات

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org