1
2
Sunday 5 Apr 2020 11:52

اسباب گناہ قرآن و حدیث کی روشنی میں(3)

اسباب گناہ قرآن و حدیث کی روشنی میں(3)
تحریر: ساجد محمود
جامعہ المصطفی العالمیہ قم
Sajjidali3512@gmail.com 
 

9۔ گناہوں کو پھیلانا:
اسباب گناہ میں سے نواں سبب گناہوں کی تشہیر کرنا ہے۔ جب ایک معاشرے میں گناہ کر کے اسے پھیلایا جاتا ہے تو یہ چیز گناہ انجام دینے کا زمینہ فراہم کرتی ہے۔
جب ایک معاشرے میں گناہ کر کے پھیلایا جاتا ہے تو وہاں شرم و حیا ختم ہو جاتی ہے، اور ہر بندہ آسانی سے گناہ کر لیتا ہے۔ معصومین علیهم السلام نے اسکی کی علت بھی بیان فرمائی کہ کیوں ایک معاشرے میں گناہوں کی تشہیر کی جاتی ہے۔ اسکی سب سے بڑی وجہ معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی کمی ہوتی ہے۔
جب ایک معاشرے میں لوگ گناہ کر کے اس کو پھیلاتے ہیں خود اس کی بھی بہت ساری وجوہات ہیں۔ بسا اوقات انسان ایک گناہ کو گناہ سمجھتا ہی نہیں، یعنی اس کے نزدیک گناہ کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہوتی، جس کی بنا پر وہ گناہ کو پھیلاتا ہے۔ بسا اوقات انسان اپنے گناہوں کی توجیہ کرنے کے لیے دوسروں کے گناہوں کی تشہیر کرتا ہے۔ یعنی دوسروں کے گناہوں کو اپنے گناہ کرنے پر ایک دلیل بناتا ہے کہ فلاں بھی تو یہ کام کرتا ہے میں نے کر لیا تو کیا ہو گیا۔ امیرالمومنین علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: "ذَوُو الْعُیُوبِ یُحِبُّونَ إِشاعَةَ مَعَایِبِ النَّاسِ لِیَتَّسِعَ لَهُمُ الْعُذْرُ فِی مَعَایِبِهِمْ" گنہگار چاہتے ہیں کہ دوسروں کے گناہوں کی تشہیر کریں تاکہ اپنے گناہ کرنے پر بھانہ بنا سکیں۔ (1)
 
اور خداوند متعال نے قرآن کریم میں گناہوں کی تشہیر کی سختی سے مذمت کی ہے
سورہ نور میں ارشاد فرمایا: "إِنَّ الَّذینَ یُحِبُّونَ أَنْ تَشیعَ الْفاحِشَةُ فِی الَّذینَ آمَنُوا لَهُمْ عَذابٌ أَلیمٌ فِی الدُّنْیا وَ الْآخِرَة"۔ جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان کے درمیان بےحیائی پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ (2) روایات میں نقل ہوا ہے کہ گناہ کو پھیلانا سب سے بڑا گناہ ہے۔ اگر کوئی انسان (خدا نہ کرے) گناہ میں مبتلا ہو جائے تو اسے چاہیئے کہ اسکی تشہیر نہ کرے، چونکہ یہ خدا اور بندے کے معاملات میں سے ہے۔ جب دوسروں کے سامنے اپنے گناہوں کا بیان کر رہا ہے تو گویا دوسروں کو اپنے گناہوں پر گواہ بنا رہا ہے۔ معصومین علیهم السلام سے متعدد روایات نقل ہوئی ہیں کہ گناہوں کا اقرار فقط خداوند متعال کے حضور کرنا چاہیئے نہ کہ بندوں کے سامنے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "وَاللَّهِ مَا خَرَجَ عَبْدٌ مِنْ ذَنْبٍ بِإِصْرَارٍ وَ مَا خَرَجَ عَبْدٌ مِنْ ذَنْبٍ إِلَّا بِإِقْرَارٍ" خدا کی قسم کوئی بھی شخص جب تک گناہ پر اصرار کرے گناہ نہیں نکل سکتا اور اسی طرح کوئی بندہ بھی گناہ سے نہیں نکل سکتا مگر یہ کہ خدا کے حضور گناہ کا اقرار کرے۔(3)

امیرالمومنین علی علیہ السلام کے زمانہ حکومت کا مشہور واقعہ ہے: "علی بن إبراهیم، عن أبیه، عن ابن محبوب، عن علی بن أبی حمزة، عن أبی بصیر عن عمران بن میثم أو صالح بن میثم، عن أبیه قال: أتت امرأة مجح أمیرالمؤمنین علیه السلام فقالت یا أمیر المؤمنین: إنی زنیت فطهرنی طهرک الله فإن عذاب الدنیا أیسر من عذاب الآخرة الذی لا ینقطع، فقال لها مما اطهرک؟ فقالت: إنی زنیت فقال لها: أو ذات بعل أنت أم غیر ذلک؟ فقالت: بل ذات بعل، فقال لها: أفحاضرا کان بعلک إذ فعلت ما فعلت أم غائبا کان عنک؟ فقالت: بل حاضرا، فقال لها: انطلقی فضعی ما فی بطنک ثم ائتنی اطهرک فلما ولت عنه المرأة فصارت حیث لا تسمع کلامه قال: اللهم إنها شهادة فلم یلبث أن أتته فقالت: قد وضعت فطهرنی قال: فتجاهل علیها فقال: اطهرک یا أمة الله مماذا؟ فقالت: إنی زنیت فطهرنی فقال: وذات بعل إذ فعلت ما فعلت؟ قالت: نعم، قال: وکان زوجک حاضرا أم غائبا؟ قالت: بل حاضرا، قال: فانطلقی وارضعیه حولین کاملین کما أمرک الله، قال: فانصرفت المرأة فلما صارت من حیث لا تسمع کلامه قال: اللهم إنهما شهادتان، قال: فلما مضى حولان أتت المرأة فقالت: قد أرضعته حولین فطهرنی یا أمیر المؤمنین، فتجاهل علیها وقال: اطهرک مماذا؟

فقالت: إنی زنیت فطهرنی، قال: وذات بعل أنت إذ فعلت ما فعلت؟ فقالت: نعم، قال: و بعلک غائب عنک إذ فعلت ما فعلت أو حاضر قالت: بل حاضر؟ قال: فانطلقی فاکفلیه حتٰى یعقل أن یأکل و یشرب ولا یتردى من سطح ولا یتهور فی بئر قال: فانصرفت و هی تبکی فلما ولت فصارت حیث لا تسمع کلامه قال: اللهم إنها ثلاث شهادات، قال: فاستقبلها عمرو بن حریث المخزومی فقال لها: ما یبکیک یا أمة الله وقد رأیتک تختلفین إلى علی تسألینه أن یطهرک فقالت: إنی أتیت أمیرالمؤمنین علیه السلام فسألته أن یطهرنی فقال: اکفلی ولدک حتى یعقل أن یأکل ویشرب ولا یتردى من سطح ولا یتهور فی بئر وقد خفت أن یأتی علی الموت ولم یطهرنی فقال لها عمرو بن حریث: ارجعی إلیه فأنا أکفله فرجعت فأخبرت أمیرالمؤمنین علیه السلام بقول عمرو فقال لها أمیرالمؤمنین علیه السلام: و هو متجاهل علیها ولم یکفل عمرو ولدک؟ فقالت: یا أمیرالمؤمنین إنی زنیت فطهرنی فقال: و ذات بعل أنت إذ فعلت ما فعلت؟ قالت: نعم قال: أفغائبا کان بعلک إذ فعلت ما فعلت أم حاضرا؟

فقالت: بل حاضرا قال: فرفع (1) رأسه إلى السماء وقال: اللهم إنه قد ثبت لک علیها أربع شهادات و إنک قد قلت لنبیک صلى الله علیه وآله فیما أخبرته به من دینک: یا محمد من عطل حدا من حدودی فقد عاندنی وطلب بذلک مضادتی اللهم فإنی غیر معطل حدودک ولا طالب مضادتک ولا مضیع لاحکامک بل مطیع لک ومتبع سنة نبیک صلى الله علیه وآله قال: فنظر إلیه عمرو بن حریث وکأنما الرمان یفقأ فی وجه فلما رأى ذلک عمرو قال: یاأمیر المؤمنین إننی إنما أردت أکفله إذ ظننت أنک تحب ذلک فأما إذا کرهته فإنی لست أفعل فقال أمیرالمؤمنین علیه السلام: أبعد أربع شهادات بالله؟! لتکفلنه وأنت صاغر فصعد أمیر المؤمنین علیه السلام المنبر فقال: یا قنبر ناد فی الناس الصلاة جامعة، فنادى قنبر فی الناس فاجتمعوا حتى غص المسجد بأهله و قام أمیرالمؤمنین صلوات الله علیه فحمد الله و أثنى علیه ثم قال: أیها الناس إن إمامکم خارج بهذه المرأة إلى هذا الظهر لیقیم علیها الحد إن شاء الله فعزم علیکم أمیر المؤمنین لما خرجتم و أنتم متنکرون و معکم أحجارکم لا یتعرف أحد منکم إلى أحد حتٰى تنصرفوا إلى منازلکم إن شاء الله۔

قال: ثم نزل فلما أصبح الناس بکرة خرج بالمرأة و خرج الناس متنکرین متلثمین (2) بعمایمهم و بأردیتهم والحجارة فی أردیتهم و فی أکمامهم حتى انتهى بها والناس معه إلى الظهر بالکوفة فأمر أن یحفر لها حفیرة ثم دفنها فیها ثم رکب بغلته وأثبت رجلیه فی غرز الرکاب۔(3) ثم وضع إصبعیه السبابتین فی اذنیه ثم نادى بأعلى صوته یا أیها الناس إن الله تبارک و تعالى عهد إلى نبیه صلى الله علیه وآله عهدا عهده محمد صلى الله علیه وآله إلی بأنه لا یقیم الحد من لله علیه حد فمن کان علیه حد مثل ما علیها فلا یقیم علیها الحد۔ قال: فانصرف الناس یومئذ کلهم ماخلا أمیر المؤمنین علیه السلام والحسن والحسین علیهما السلام فأقام هؤلاء الثلاثة علیها الحد یومئذ وما معهم غیرهم۔ حضرت علی علیہ السلام کے دوران حکومت ایک  عورت آپ کے پاس آئی جو زنا سے حاملہ ہوئی تھی۔ اس نے حضرت سے کہا میں نے زنا کیا ہے مجھے پاک کریں اس لیے کہ دنیا کا عذاب قیامت کے عذاب سے آسان ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے اس سے سوال کیا کس چیز سے آپ کو پاک کروں؟ اس نے کہا:زنا سے حضرت نے پوچھا، تیرا شوہر ہے اس نے کہا، جی میرا شوہر ہے۔ حضرت نے پوچھا، جب تونے زنا کیا اس وقت تیرا شوہر تیرے پاس تھا یا نہیں (یعنی سفر پر تھا یا گھر)۔ اس نے کہا، میرے پاس ہی تھا

امام علی علیہ نے فرمایا، گھر جاؤ جب بچہ پیدا ہو جائے آ جانا میں آپ کو پاک کروں گا.
جب وہ عورت چلی گئی تو حضرت نے فرمایا: (خدایا یہ ایک گواہی اور اقرار تھا)۔ زیادہ مدت نہیں گزری تھی کہ وہ عورت دوبارہ آ گئی، کہا کہ بچہ پیدا ہو گیا ہے اب مجھے پاک کریں، حضرت علی علیہ السلام نے اس سے دوبارہ وہی سوال کئے (لیکن ایسے انداز میں کہ گویا جانتے ہی نہیں تھے) فرمایا: کس چیز سے پاک کروں؟ اس نے کہا: میں نے زنا کیا ہے مجھے پاک کریں. حضرت علی علیہ نے دوبارہ پہلے والے تمام سوالوں کا تکرار کیا اور عورت نے بھی تمام سوالوں کا جواب دیا۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: اپنے بچے کو دو سال دودھ پلائیں جس طرح خدا کا حکم ہے، پھر آپ کو پاک کروں گا۔ جب وہ عورت چلی گئی تو حضرت نے فرمایا :خدایا یہ دوسری گواهی اور دوبار اعتراف ہے۔ راوی کہتا ہے جب دو سال مکمل ہو گئے تو وہ عورت دوبارہ آ گئی، اور کہا: بچے کو دو سال دودھ پلا دیا ہے اب مجھے پاک کریں۔ حضرت علی علیہ السلام نے پھر اس سے وہی سوال کیے اور عورت نے بھی پہلے کی طرح جواب دیئے۔

اس بار حضرت نے فرمایا: جاؤ جا کر اپنے بچے کی کفالت کرو، جب جب اسے کھانے پینے کی سمجھ آ جائے اور اپنے حفاظت کرنے کی صلاحیت اس میں آ جائے، بلندی سے نہ گرے کنویں میں نہ گرے. جب آپ کا بیٹا اس حد تک پہنچ جائے، آ جانا آپ کو پاک کروں گا۔ جب وہ عورت چلی گئی تو حضرت نے فرمایا: خدایا یہ تیسری بار گواهی اور اقرار ہے۔ جب وہ عورت جا رہی تھی تو راستے میں اسے "عمر بن حریث مخزوم" ملے جو حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ عورت گریہ کر رہی ہے۔ انہوں نے وجہ پوچھی تو اس عورت نے ساری داستان سنائی۔ کہا کہ اب امیر المومنین نے کہا ہے بچے کو بڑا کرو پھر آؤ، لیکن میں ڈر رہی ہوں کہ میری موت آ جائے لیکن گناہ سے نہ ہوں۔ عمر مخزومی نے کہا: بچے کی فکر نہ کرو، میں تمہارے بچے کی کفالت کروں گا، تم دوبارہ امیر المومنین کی خدمت میں جاؤ تاکہ وہ تمہیں پاک کریں۔ وہ عورت فوراً امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا: کہ عمر مخزومی نے میرے بیٹے کی کفالت اپنے ذمہ لی ہے اب مجھے پاک کریں. دوبارہ حضرت علی علیہ السلام نے (ایسے انداز میں سوال کیا جیسے جانتے ہی نہ ہوں) پوچھا: کیوں عمر نے تیرے بیٹے کی کفالت اپنے ذمہ لی ہے؟ اس عورت نے کہا: میں نے زنا کیا ہے مجھے پاک کریں۔

حضرت نے تمام سوالات دوبارہ پوچھے اس نے جواب دیا۔ اب حضرت علی علیہ السلام نے سر آسمان کی طرف کیا اور فرمایا: خدایا چوتھی مرتبہ گواہی اور اقرار ثابت ہو گیا.
تو نے خود اپنے رسول کو یہ خبر دی ہےکہ اے میرے رسول جس نے بھی میری حدود میں سے کسی حد کو چھوڑا اس نے مجھ سے جنگ اور دشمنی کی، اے خدایا میں تیری حد کو پامال نہیں کروں گا، تیرے احکام کو ضائع نہیں کروں گا، بلکہ میں تیرا مطیع ہوں اور تیرے رسول کی سنت کی پیروی کروں گا۔ اس کے بعد حضرت علی علیہ نے فرمایا: کہ اب اس عورت پر حد جاری کروں گا........ (4) یہاں پر علماء نے لکھا ہے امیرالمومنین نے تین دفعہ اس عورت کو اس لیے واپس بھیجا تاکہ وہ خدا کے حضور توبہ کرے اور اسکا گناہ معاف ہو جائے اور وہ حد سے بچ جائے لوگوں کے سامنے شرمندہ اور رسوا نہ ہو. ایک مقام پر رسول خدا نے فرمایا: "الْمُسْتَتِرُ بِالْحَسَنَةِ یَعْدِلُ سَبْعِینَ حَسَنَةً وَ الْمُذِیعُ بِالسَّیِّئَةِ مَخْذُولٌ وَ الْمُسْتَتِرُ بِها مَغْفُورٌ لَه"۔ جس نے بھی چھپ کر نیکی کی خداوند متعال اسے ستر برابر زیادہ نیکیاں عطا فرمائے گا اور جس نے گناہوں کی تشہیر کی وہ ذلیل و رسوا ہے، جس نے گناہ کو چھپایا رحمت خدا اسکے شامل حال ہو گی۔ گناہوں کی تشہیر ایک معاشرے کی تباہی کا سبب بنتی ہے۔ جب لوگ دوسروں کے گناہوں کو دیکھتے ہیں خود گناہ کرنے پر جرات پیدا کرتے ہیں اور یہ سب سے بڑا گناہ ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: "إِیَّاکَ وَ الْمُجَاهَرَةَ بِالْفُجُورِ فَإِنَّهَا مِنْ أَشَدِّ الْمَآثِمِ"۔ گناہوں کے ظاہر (تشہیر) سے بچو کیوںکہ یہ سب سے بڑا گناہ ہے۔(5)

10۔ لقمہ حرام:
گناہوں کے اسباب میں سے دسواں سبب ناپاک غذا ہے۔ انسان کی زندگی میں غذا کا بہت بڑا کردار ہے۔ اسلام نے غذا کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ قرآن کریم میں متعدد آیات اور معصومین علیهم السلام سے متعدد روایات موجود ہیں، جن میں حرام غذا کے نقصانات سے ہمیں آگاہ کیا گیا۔ حرام غذا انسان کی روح پر اثر وضعی کرتی ہے اور انسان کو گناہ کی طرف لے جاتی ہے۔ اس کی بہترین مثال کربلا ہے۔ روایات میں ملتا ہے کہ روزِ عاشورا کو امام حسین علیہ السلام نے چند مرتبہ قوم اشقیاء کو خطاب کیا اور حق کی طرف دعوت دی۔ جب آخری مرتبہ خطاب فرمایا اور کوئی اثر محسوس نہ کیا تو فرمایا: تم یہ بھی جانتے ہو میں نواسہ رسول اللہ ہوں، یہ بھی جانتے ہو میں علی و بتول سلام اللہ علیھما کا بیٹا ہوں، اور یہ بھی جانتے ہو میں حق پر ہوں، اس کے باوجود جو میری بات کا تم پر اثر نہیں ہو رہا، اسکی علت یہ ہے کہ تمہارے پیٹ مال حرام سے پُر ہیں۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: "لمّا عَبَّأَ عُمَرُ بنُ سَعدٍ أصحابَهُ لِمُحارَبَتِهِ علیه السلام و أحاطُوا بهِ مِن کُلِّ جانِبٍ حتّى جَعَلُوهُ فی مِثلِ الحَلْقَةِ فَخَرَجَ علیه السلام حتّى أتى الناسَ فَاستَنصَتَهُم فَأبَوا أن یُنصِتُوا حتّى قالَ لَهُم ـ : وَیلَکُم! ما علَیکُم أن تُنصِتوا إلَیَّ فَتَسمَعوا قَولی؟! و إنّما أدعُوکُم إلى سَبیلِ الرَّشادِ ... و کُلُّکُم عاصٍ لِأمری غیرُ مُستَمِعٍ قَولی فقد مُلِئَت بُطونُکُم مِن الحَرامِ و طُبِعَ على قُلوبِکُم"۔

جب عمر بن سعد نے اپنے سپاہیوں کو امام حسین علیہ السلام کے ساتھ جنگ کے لیے آمادہ کیا، اور امام حسین علیہ السلام کو ہر طرف سے گھیر لیا۔ اس وقت امام حسین علیہ السلام دشمن کے طرف نکلے اور انہیں کہا کہ خاموش ہو جاؤ، لیکن وہ خاموش نہ ہوئے، تو امام حسین علیہ السلام نے انکو مخاطب کر کے فرمایا: وای ہو تم پر تمہارا کیا نقصان ہے کہ خاموش ہو جاؤ اور میری بات کہ آپ کو راہ حق کی طرف دعوت دے رہا ہوں سنو ،تم سب میری نافرمانی کر رہے ہو اور میری بات کو نہیں سن رہے؛ چونکہ آپ کے شکم مال حرام سے پر ہو چکے ہیں اور تمہارے دلوں پر غفلت کی مہر لگ چکی ہے۔ (6) لہٰذا یہاں پر امام حسین علیہ السلام کے اس نورانی کلام سے چند نقطے ہمارے لئے مورد توجہ ہیں۔ ایک یہ کہ اگر پیٹ میں حرام ہو تو معصوم تبلیغ کرے تب بھی مؤثر نہیں ہوتی، دوسرا یہ کہ جب پیٹ مال حرام سے پر ہوں پھر انسان میں حق کی تشخیص ختم ہو جاتی ہے۔ تیسرا یہ گناہ کے لیے زمینہ فراہم کرتی ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا گناہ ہو سکتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام جیسے ھادی برحق کو شہید کر دیا جاتا ہے۔

امام سجاد علیہ السلام نے رسالة الحقوق میں مفصل حقوق بیان فرمائے کہ ماں کا بیٹے پر کیا حق ہے، بیٹے کا ماں پر کیا حق ہے۔ شوہر کا بیوی پر کیا حق ہے، بیوی کا شوہر پر کیا حق ہے۔ استاد، شاگرد کے حقوق، بہن، بھائی کے حقوق، نوکر، مالک کے حقوق وغیرہ... یہاں تک کہ حیوانات کے حقوق بیان فرمائے۔ ان تمام حقوق میں سے ایک حق شکم کے لیے بھی بیان فرمایا: "طَهِّرْ مَأْکَلَکَ وَ لا تُدْخِلْ بَطْنَکَ الْحَرَامَ" تیرے شکم کا تیرے اوپر یہ حق ہے کہ اسے حرام کا ظرف نہ قرار دینا۔ (7) ایک شخص رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا یا رسول اللہ! دعا کرتا ہوں مستجاب نہیں ہوتی تو آپ نے فرمایا: "طَهِّرْ مَأْکَلَکَ وَ لا تُدْخِلْ بَطْنَکَ الْحَرَامَ" اپنی غذا کو پاک رکھ اور حرام کو شکم میں داخل نہ کر۔ (8) خداوند متعال قرآن میں مؤمنین کو لقمہ حرام سے دور رہنے کا کہا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "وَ لا تَأْکُلُوا أَمْوالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْباطِلِ؛" اپنے درمیان ایک دوسرے کے مال کو باطل طریقے سے نہ کھائیں۔ (9) یہاں پر خداوند متعال نے صیغہ نہی کا استعمال کیا ہے "لاتأکلوا" کہا ہے جو حرمت پر دلالت کرتا ہے۔ ایک اور مقام پر سورہ نساء میں ارشاد فرمایا: "إِنَّ الَّذینَ یَأْکُلُونَ أَمْوالَ الْیَتامی ظُلْماً إِنَّما یَأْکُلُونَ فی بُطُونِهِمْ ناراً وَ سَیَصْلَوْنَ سَعیرا" جو بھی یتیموں کا مال ظلم کے ساتھ کھاتے ہیں. وہ فقط جہنم کی آگ کھا رہے ہیں اور عنقریب جلتی ہوئی آگ میں جلیں گے۔ (10)

ان تمام آیات و روایات کے مطالعہ کے بعد معلوم یہ ہوا کہ لقمہ حرام گناہوں کا سرچشمہ ہے۔
لقمہ حرام دل کو سخت کرتا ہے۔
لقمہ حرام خدا سے دور کرتا ہے۔
لقمہ حرام حق کی تشخیص کو سلب کرتا ہے۔
لقمہ حرام عذاب جہنم کا موجب بنتا ہے۔
لقمہ حرام حق کو قبول کرنے سے مانع ہے۔
لقمہ حرام انسان کو عبادت خدا سے دور کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ (غررالحکم و دررالکلم، ص 288.)
2۔ (نور: 19)
3۔ (الکافی ،ج ۲ ، ص ۴۲۶)
4۔ (فروع کافی، ج7، ص185 - و کتاب تهذیب شیخ طوسی، ج10، ص9)
5۔ (مستدرک الوسائل، ج 11، ص 368)
6۔ (بحارالأنوار، ج45)
7۔ (مکارم الاخلاق، ص 419)
8۔ (سفینة البحار، ج 1، ص 448.)
9۔ (بقره: 188)
10۔ (نساء: 10)
خبر کا کوڈ : 854814
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

طارق مسعود
Pakistan
بہت اچھی تحریر ہے، خدا ہمیں گناہوں سے محفوظ رکھے بحق اہلبیت صلوات اللہ اور بھائی جان کی توفیقات میں مزید اضافہ فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
ہماری پیشکش