1
Wednesday 8 Apr 2020 12:39

مسلمانوں کا قتل عام اور ایران

مسلمانوں کا قتل عام اور ایران
تحریر: ناصر رینگچن

کچھ دنوں پہلے اوریا مقبول جان کا ایک ویڈیو کلپ سنے کو ملا، جس میں وہ ہمیشہ کی طرح ایک دفعہ پھر تعصب کی عینک پہن کر کورونا وائرس کی آڑ میں فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس سے مثاثر ممالک میں ایران پانچویں نمبر پر ہے، جس کے لئے وہ اپنا ایک الگ فلسفہ پیش کر رہے تھے کہ اسلامی ممالک میں ایران واحد ملک ہے، جو اس قدر متاثر ہوا ہے، ایران کیوں متاثر ہوا ہے، اس کے لئے بھی الگ وجوہات بیان کر رہے تھے۔ پھر وہ اپنے وظیفہ کو جاری رکھتے ہوئے فوراً تاریخی حقائق کو پس پشت ڈال کر ایران پر بے بنیاد الزامات لگانے لگے کہ ایران نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیا، عراق، شام اور لبنان میں مسلمانوں کی قتل و غارت گری میں کرداد ادا کیا وغیرہ وغيره۔۔۔۔۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی صاحب بصیرت شخص اوریا مقبول جان صاحب کو یہ سمجھا دے کہ یہ جو کورونا وائرس ہے، یہ اُن کے اندر موجود فرقہ پرست والے وائرس سے بہت فرق رکھتا ہے۔ کورونا وائرس ان کی طرح تعصب اور بغض کا لبادہ اوڑھ کر کسی خاص فرقہ، نسل یا قوم کو ٹارگٹ نہیں کرتا۔ یہ ایک بیماری ہے، جو کسی کو بھی لاحق ہوسکتی ہے۔ اگر کوئی احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کرے گا تو اس وائرس نے اثر کرنا ہے۔ ان کی انفارمیشن کے لئے عرض کرتا چلوں کہ اس وقت ایران آٹھویں نمبر پہ ہے اور ایران میں تیزی سے وائرس پر قابو پایا جا رہا ہے اور احتمال ہے کہ آئندہ ایک دو ہفتوں میں حالات معمول پر آجائیں۔

دوسری بات انہوں نے افغانستان میں طالبان حکومت کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینے کا کہا ہے، یہ بھی سراسر جھوٹ ہے اور تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ مختصراً یہ کہ انقلاب اسلامی کے بعد سے اب تک امریکہ، برطانیہ سے ایران کے تعلقات خراب ہیں، جس کی تاریخ گواہ ہے، کیونکہ انقلاب سے پہلے ایران میں رضا شاہ کی حکومت تھی، جو ایک طرح سے امریکہ کا چوکیدار تھا، بلا چون چراں امریکہ کی ہر بات کو تسلیم کرتا تھا، مگر انقلاب اسلامی نے عالمی طاقتوں کے ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھائی، دنیا کے مظلوموں اور مستضعفین کا ساتھ دیا، جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو کسی طرح قبول نہیں تھا۔ یوں ایران پر عراق جنگ مسلط کر دی گئی۔ اس کے بعد پابندیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا، حتی کہ اس وقت کورونا کے اس وبائی مرض سے لڑنے کے لئے ایران کو جو میڈیکل ایکوپمنٹس کی ضرورت ہے، ان پر بھی پابندیاں لگا دی گئی ہیں، جو سراسر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔  پھر بھی ایران، عراق جنگ سے لیکر کورونا جنگ تک اپنے بل بوتے پر لڑ رہا ہے اور دشمنان اسلام سے ڈٹ کر مقابلہ بھی جاری ہے۔

اب بھلا ایران اپنے سب سے بڑے دشمن کے ساتھ مل کر افغانستان میں مسلمانوں کا قتل عام کیوں کرے گا؟؟ آپ ایک دفعہ تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں، طالبان حکومت سے لیکر آج تک افغان ایران بارڈر پر ذرہ برابر بھی کوئی نوک جھونک نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس پاک افغان پارڈر پر نگاہ ڈالیں، جہاں آئے روز کشیدگی کی اطلاعات ہیں۔ یہ انہوں نے امریکہ کا ساتھ دیکر نہیں کیا بلکہ ان کی بہترین حکمت عملی تھی کہ اپنی سرحدوں کو محفوظ رکھا۔ جس کی وجہ سے طالبان حکومت کو ایران کے ساتھ اپنے نظریاتی اختلافات کے باوجود کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ایران نے طالبانی حکومت کو تسلیم کیا ہو، ایرانی طالبانی فکر کے مخالف تھے اور اب بھی ہیں بلکہ دنیا کا ہر باشعور فرد طالبانی طرز حکومت کی مخالفت کرتا ہے، کیونکہ طالبان امریکہ کا ہی پراجیکٹس تھا، جس کو اس نے اپنے مقاصد کی خاطر پروان چڑھایا اور افغانستان پر مسلط کیا تھا۔

اس کے علاوہ طالبان نے اسلام کے نام پر اپنی من پسند کے قوانین نافذ کئے تھے، جن کا اسلام محمدی سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا، بلکہ طالبانی حکومت نے اسلام کے حقیقی چہرے کو مسخ کرکے پیش کیا، جس سے اسلام اور مسلمانوں کو کاری ضرب لگی۔ پھر بھی وقتاً فوقتاً طالبان ایران سے مدد بھی طلب کرتے رہے ہیں اور حال ہی میں طالبان کے وفد نے ایران کا دورہ بھی کیا۔ اب طالبان کے دورہ ایران سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایران نے امریکہ کی افغان جنگ میں کوئی مدد نہیں کی تھی بلکہ دوسرے اسلامی ممالک جنہوں نے طالبان کو پروان چڑھانے میں مدد کی تھی، انہوں نے امریکہ کا کھل کر ساتھ دیا تھا۔

تیسری بات اوریا مقبول جان صاحب نے عراق، شام اور لبنان میں مسلمانوں کے قتل و عام کا الزام بھی ایران پر لگایا ہے، جو صد در صد حقیقت کے منافی ہے۔ پہلے ہم عراق کی بات کرتے ہیں، انقلاب اسلامی کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے صدام کے ذریعے ایران پر جنگ مسلط کی، جو تقریباً آٹھ سال جاری رہی اور دونوں طرف لاکھوں لوگ اس جنگ کا نشانہ بنے، یہاں تک کہ جس طرح امریکہ نے طالبان کو استعمال کرنے کے بعد افغان وار شروع کی تھا، بالکل اسی طرح عراقی صدر صدام حسین کو بھی ٹیشو پیپر کی طرح استعمال کرنے کے بعد 2003ء میں کیمیائی ہتھیاروں کے بہانے عراق پر حملہ آور ہوا۔ امریکی حملے کا مقصد عراقی قدرتی وسائل تیل و گیس وغیرہ پر قبضہ کرنا اور ایران کا گھیرا تنگ کرنا تھا۔ ساری دنیا نے ایک دفعہ پھر عراق جنگ میں بھی امریکہ کا ساتھ دیا، سوائے ایران کے، جس نے نہ صرف اس جنگ کی مخالفت کی بلکہ عراقی عوام کی بھرپور مدد بھی کی۔

صدام حکومت کو ختم کرنے کے بعد امریکہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ عراق میں کوئی جمہوری اور مضبوط عوامی حکومت بنے، کیونکہ اگر عراق میں کوئی مضبوط حکومت بنتی تھی تو یہ امریکہ کے لئے خطرے کی گھنٹی تھی اور امریکہ کے پاس کوئی جواز نہیں بچتا تھا کہ وہ عراق میں مزید قیام کرے۔ لہذا امریکہ نے طالبانی تجربہ کو دھراتے ہوئے اُسی طالبانی ذہنیت کے ایک نئے گروہ کو ترتیب دی، تاکہ یہ عراق میں قتل و غارت گری کا بازار گرم  اور عراق کو مختلف حصوں میں تقسیم کرے نیز امریکہ کو یہاں رہنے کا جواز پیدا کرے۔ یہ نئے گروہ اس قدر شدت پسند تھے کہ دنیا طالبان اور القاعدہ کو بھول گئی اور یہ گروہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پشت پناہی میں داعش یا آئی ایس آئی ایس کے نام سے عراق اور پھر شام کی سرزمین پر ابھرا، ان کی وحشت گری نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔

امریکہ جو اپنے آپ کو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا چمپیئن تصور کرتا تھا، داعش کے خلاف فیک جنگ کا ڈھنڈورا پیٹنے لگا اور ساری دنیا اس بات کی گواہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے باوجود داعش نے آدھے عراق پر اپنا تسلط قائم کیا تھا اور بڑی تیزی کے ساتھ دوسرے علاقوں پر قابض ہو رہے تھے۔ انہوں نے اسلام کے نام پر جو دہشت گردی پھیلائی، شاید اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ انہوں نے حلال محمدی کو حرام اور حرام محمدی کو حلال کر دیا، ان کے ستم سے بچوں سے لیکر بزرگ، خواتین کوئی بچ نہیں پایا اور سادی دنیا میں اسلام کو مسخ کرکے رکھ دیا۔ داعش بڑی تیزی کے ساتھ ابھر رہے تھے اور انہوں نے عراق کے ساتھ ساتھ شام میں بھی اپنے قدم جمانے شروع کر دیئے تھے، داعش کے اس قدر طاقتور ہونے کے پیچھے امریکہ و اسرائیل کے اتحادیوں کا ہاتھ تھا، جنہوں نے ظاہری طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا جھنڈا تھاما ہوا تھا اور پشت پردہ دہشت گردوں کی ہر طرح سے سپورٹ کر رہے تھے۔

ان حالات میں عراق و شام کی حکومت اور عوام کو کسی ایسی طاقت کی ضرورت تھی، جو بیک وقت امریکہ اور داعش جیسی لعنت سے مقابلہ کرسکے۔ لہذا عراق و شام کو انقلاب اسلامی ایران کے علاوہ کوئی اور ملک نظر نہیں آیا، جو اس مشکل کی گھڑی میں مسلمانوں کی مدد کرسکے۔ انہوں نے باقاعدہ رسمی طور پر ایران کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد کی اپیل کی (عراقی اور شامی ذمہ داران ایران کو رسمی طور دعوت دینے کا کئی دفعہ اعتراف کرچکے ہیں)، یوں ایران نے اپنے بہترین جنگی مشاورین کو شام اور عراق کی طرف بھیجا، جنہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے چار سے پانچ سال کے قلیل عرصے میں نہ صرف داعش کا خاتمہ کیا بلکہ غاصب امریکہ کا مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک میں جینا حرام کر دیا اور امریکی مقاصد کو خاک میں ملا دیا۔

تیسری بات لبنان کی، جہاں حزب اللہ نے اسرائیل کو جنوبی لبنان سے نکال باہر پھینکا ہے اور غاصب صہونیوں کے مقابلے میں ایران نے حزب اللہ کی مدد کی ہے، جو جناب اوریا مقبول جان کو پسند نہیں ہے، کیونکہ حزب اللہ نے ان کے آقا اسرائیل کی نیندیں حرام کر دی ہیں، اب اسرائیلوں کو نکال باہر کرنے کو جناب اوریا مقبول جان لبنان کے مسلمانوں کا قتل عام کہتے ہیں اور داعش کی شر سے عراقی اور شامی عوام کو نجات دینے اور اسلام کی حفاظت کرنے کو عراق، شام میں قتل عام کہتے ہیں۔ یاد رہے، فلسطین جہاں پر مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، وہاں کی مزاحمتی تحریکیں جن میں سرفہرست حماس ہے، جو مسلکی طور پر سنی مسلمان ہیں، ان کو سب سے زیادہ مدد کرنے والا حزب اللہ اور ایران ہے۔ اگر آپ کو یقین نہ آتا تو حماس اور دوسری فلسطینی تحریکوں کے بیانات کو دیکھیں، جو ایران اور حزب اللہ کے حوالے سے دیئے گئے ہیں۔

فلسطین کے حوالے سے سعودی عرب کی مدد کا طریقہ کار بھی نرالا ہے، جس طرح اوریا مقبول جان غاصب صہونیوں اور عالمی ظالموں کے خلاف قیام کرنے والے مظلومین کے خلاف قلم اور زبان سے جہاد کرتے ہیں، اسی طرح سعودی عرب بھی عملی میدان میں مصروف عمل ہے، جس کی چھوٹی سی مثال سعودی عرب میں قید حماس کے رہنماء اور مالی مدد کرنے والے لوگ ہیں، جن کو اسرائیل کے اشارہ پر قید کر دیا گیا ہے، لیکن مجال ہے کہ اس حوالے سے اوریا مقبول جان صاحب کا قلم اٹھے۔ آج اگر ساری دنیا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کسی کو ہیرو مانتی ہے تو وہ ایران کے القدس کے کمانڈر شہید قاسم سلیمانی ہیں، جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے خون کا آخری قطرہ بھی عراقی سرزمین پر گرا دیا اور اگر انہوں نے واقعاً عراق، شام اور لبنان میں مسلمانوں کا قتل عام کیا ہوتا تو ان کی شہادت کے موقع پر لبنان سے لیکر عراق تک لوگ ان کی تصاویر اٹھا کر سڑکوں پر نہیں نکلتے اور ساری دنیا میں ہلچل نہیں مچتی۔

دہشت گردی کے خلاف قاسم سلیمانی اور ایران کے کردار کو اس وقت ساری دنیا خراج تحسین پیش کرتی ہے، سوائے چند تکفیریوں کے، جو اپنے مفادات کی خاطر نہ صرف اسلام کو بدنام کرتے ہیں بلکہ جو لوگ اسلام کے دفاع میں میدان میں حاضر ہیں، ان کے خلاف بھی پروپیگنڈا کرتے ہیں اور عام عوام کے ذہنوں کو خراب کرتے ہیں۔ جناب اوریا مقبول جان کے اکثر کالم اور ٹاک شوز کو دیکھیں، یہ ہمیشہ تکفیری نظریات کا پرچار اور حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ کبھی بھی حماس اور دوسرے مجاہدین جو اسرائیل اور امریکہ کے خلاف بر سرپیکار ہیں، ان کا ذکر نہیں کرتے۔ ان کو ہمیشہ طالبان، القاعدہ یا داعش ہی اسلام کے محافظ نظر آتے ہیں، جنہوں نے صرف اور صرف اسلام کو بدنام کیا ہے اور اسلام کی حرمت کو پامال کیا ہے، مسجدوں اور اصحاب رسول (ص) کے مزاروں کو دھماکوں سے اڑایا ہے اور مسلمانوں کا قتل عام کیا ہے، خواتین کی عصمت دری کی، بچوں کو ذبح کیا اور ہمیشہ امریکہ اور اسرائیل کے وفادار رہے ہیں۔

اوریا مقبول جان صاحب نے ہمیشہ تاریخی حقائق سے لیکر عصر حاضر کے حالات سب کو ایک ہی سوچ اور عینک سے دیکھا ہے اور کبھی سچائی کو سجھنے اور قبول کرنے کی کوشش نہیں کی۔ مختصر یہ کہ اس ایک چھوٹے سے مقالے میں اوریا مقبول جان کے تکفیری نظریات کو بیان نہیں کرسکتا، ان کے رول ماڈل طالبان، القاعدہ اور داعش وغیرہ کی حقیقت کو بیان کرسکتا ہوں اور نہ ہی امریکہ، اسرائیل کے خلاف اور عالم اسلام کے دفاع کے لئے ایران اور مقاومتی بلاک کے کردار کو بیان کرسکتا ہوں۔ میں نے بس مختصراً کچھ حقائق کی جانب اشارہ کیا ہے۔ ہمیں چاہیئے ہمیشہ چار انگلیوں کے فرق کو سمجھیں اور اس فارمولے کو اپنائیں کہ ہمارے کانوں اور آنکھوں کے درمیان چار انگلیوں کا فرق ہے، جو آنکھوں سے دیکھیں، وہ حقیقت ہے اور جو کانوں سے سنیں اُس پر تحقیق لازم ہے۔ لہذا اس میڈیا وار میں ہمیشہ حقیقت کو جاننے کی کوشش کریں۔
خبر کا کوڈ : 855393
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش