0
Friday 10 Apr 2020 17:45

آخر ہم بھی انسان ہیں، کراچی میں پولیس اہلکار شہریوں سے خائف

آخر ہم بھی انسان ہیں، کراچی میں پولیس اہلکار شہریوں سے خائف
رپورٹ: ایس ایم عابدی

کراچی پولیس نے پچھلی 3 دہائیوں میں شہر میں ہر قسم کے جرائم ہوتے ہوئے دیکھے ہیں اور بڑے بڑے ٹارگٹ کلرز اور دہشتگردوں کو پکڑا بھی ہے، لیکن سال 2020ء اس ملک کے باقی شہروں کی طرح کراچی میں بھی ایک ایسا خطرہ ساتھ لایا، جس کو قابو کرنا کالی وردی والوں کیلئے بہت مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ 26 فروری کو پاکستان میں پہلے دو کورونا وائرس کے کیس رپورٹ ہوئے اور ان میں سے ایک مریض کا تعلق کراچی سے تھا۔ کچھ ہی ہفتوں بعد 23 مارچ کو کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کے سبب سندھ حکومت نے صوبہ بھر میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا، جس کے بعد کراچی سمیت پورے سندھ میں تمام تعلیمی ادارے، مارکیٹس، شاپنگ سینٹرز، ریسٹورانٹس اور دیگر عوامی مقامات بند کر دیئے گئے۔ صوبہ بھر کی پولیس کو یہ احکامات جاری کئے کہ وہ لوگوں کو بلاضرورت گھروں سے باہر نکلنے سے روکیں اور لاک ڈاؤن کے فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنائیں، لیکن کراچی شہر میں لوگوں کو گھروں تک محدود رکھنا پولیس کیلئے ایک مشکل کام ثابت ہو رہا ہے۔ پولیس افسران کہتے ہیں کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کرونا وائرس کے خطرے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔ شہر میں جگہ جگہ لگے ناکوں پر پولیس اہلکار کاروں اور موٹر سائیکلوں کو روکتے ہیں، چہرے پر ماسک لگانے کو کہتے ہیں اور گھر جانے کی تلقین کرکے چھوڑ دیتے ہیں۔

کراچی کی بڑی سڑکیں تو لاک ڈاؤن کے دوران خالی رہتی ہیں، لیکن علاقوں کے اندر لوگوں کی بڑی تعداد اکثر دکھائی دیتی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ناظم آباد، کراچی کا ایک گنجان آباد علاقہ ہے، یہاں شام کے تقریباً ساڑھے 5 بجے سڑکیں گاڑیوں
اور موٹر سائیکلوں سے بھری پڑی ہیں، یہاں ایک سڑک پر چار پولیس اہلکار ایک طرف بیٹھے ہیں اور آنے جانے والی گاڑیوں کو دیکھ رہے ہیں۔ ان چار پولیس اہلکاروں میں سے ایک ادھیڑ عمر اہلکار موٹر سائیکلوں پر آتے جاتے لڑکوں پر چیخ رہا ہے۔ ذرائع نے جب اس سے پوچھا کہ لاک ڈاؤن میں کام کرنا اس کیلئے کتنا مشکل ہے؟، یہ سوال سن کر وہ اہلکار غصے میں آگیا اور کہنے لگا ہم تھرڈ کلاس لوگ ہیں، جاؤ ہمارے افسران سے بات کرو، کیونکہ میں اپنی نوکری نہیں گنوانا چاہتا۔ کراچی کے دیگر علاقوں میں پولیس اہلکار کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کی نوکری کا دورانیہ بڑھ گیا ہے۔ گلشن اقبال میں ایک جوان پولیس اہلکار شرجیل کا کہنا ہے کہ پہلے وہ 8 گھنٹے کام کیا کرتا تھا، لیکن لاک ڈاؤن کے بعد اب 10 سے بھی زیادہ گھنٹے ڈیوٹی دینا پڑتی ہے۔ شرجیل نے بتایا کہ وہ اور اس کے ساتھی اہلکار لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے پر لوگوں کو گرفتار کرنے میں کتراتے ہیں، کچھ لوگوں کے پاس گھروں میں کھانا نہیں ہے، وہ اس لئے باہر نکلتے ہیں اور یہ بات ہم سمجھتے ہیں، لیکن یہاں ایسے بھی لوگ ہیں، جو تفریح کیلئے گھروں سے نکلتے ہیں۔

سندھ پولیس کی رپورٹس کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران اب تک صرف کراچی میں پولیس نے 1278 لوگوں کو حراست میں لیا ہے، تاہم پولیس افسران کا کہنا ہے کہ وہ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی پر ہر راہ چلتے شخص کو نہیں پکڑتے۔ کراچی پولیس کے ایک سینیئر پولیس افسر کا کہنا ہے کہ زیادہ تر لوگوں کو وارننگ دے کر گھر جانے کو کہہ دیا جاتا ہے۔ اس پولیس افسر نے بتایا کہ سڑکوں پر ڈیوٹی دیتے یہ سپاہی بھی اس معاشرے کا
حصہ ہیں اور انہیں بھی کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان سپاہیوں کو بھی وائرس سے ڈر لگتا ہے، آپ کو کیا لگتا ہے کہ یہ کیوں منہ کو ماسک سے ڈھکتے ہیں؟، کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ یہ روزانہ کی بنیاد پر لوگوں سے ملتے جلتے ہیں اور اس سے ان کی جان بھی خطرے میں پڑسکتی ہے۔ پچھلے ماہ کے آخری ہفتے میں کراچی کے ساؤتھ ڈسٹرکٹ میں تعینات ایک انسپکٹر میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی تھی اور سندھ پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے کی ویلفیئر برانچ انسپکٹر اور ان کے گھر والوں کا خیال رکھ رہی ہے۔ شہر میں جگہ جگہ رکاوٹیں لگا کر بند کی گئیں سڑکیں کچھ سابق پولیس افسران کو 90ء کے دہائی کے آپریشن کی بھی یاد دلاتی ہیں۔

آصف رزاق حال ہی میں تقریباً 3 دہائیوں کی نوکری کے بعد سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کراچی میں کرفیو لگا کرتے تھے، لیکن وہ ایک یا دو دن کی بات ہوتی تھی، لیکن موجودہ حالات کرفیو جیسے نہیں ہیں اور یہ لاک ڈاؤن بھی کافی لمبا ہے۔ آصف رزاق کہتے ہیں کہ کراچی جس کی آبادی 22 ملین سے زیادہ ہے، یہاں پولیسنگ ویسے ہی ایک مشکل کام تھا، لیکن لاک ڈاؤن نے اسے مزید مشکل بنا دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عام طور پر لوگ اکثر پولیس سے خائف رہتے ہیں اور موجودہ صورتحال میں روک ٹوک سے شاید وہ مزید خائف ہو رہے ہیں۔ آصف رزاق کہتے ہیں کہ کراچی کے لوگوں کو پولیس اہلکاروں کی عزت کرنی چاہیئے، کیونکہ سڑکوں پر کھڑے یہ اہلکار اپنی پرواہ کئے بغیر نوکری کر رہے ہیں، یہ کورونا وائرس ایک بالکل نئی چیز ہے، جس کے
بارے میں پولیس کچھ نہیں جانتی، لیکن دیکھیں وہ پھر بھی اپنی نوکری کر رہے ہیں، شہر کے لوگ پولیس کی ہدایات کو تو نظر انداز کر دیتے ہیں، لیکن سڑکوں پر نکلیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں کھڑے رینجرز کے جوانوں کو ہر شخص سنجیدگی سے سنتا ہے، سوشل میڈیا پر آئے دن ایسی ویڈیوز سامنے آتی ہیں، جس میں پولیس یا رینجرز اہلکار لڑکوں پر تشدد کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں چوک پر کھڑے ایک رینجرز اہلکار وقاص جو کہ گلگت کے رہنے والے ہیں، انہوں نے بتایا کہ لوگ ان کی ہدایات کو بالکل نظر انداز نہیں کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا یہاں ہولڈ ہے، ہماری بات نہیں مانتے تو ہم ڈنڈے سے مارتے ہیں۔ پولیس افسران یہ بھی کہتے ہیں کہ جمعہ کا دن خاص طور پر اہلکاروں کیلئے ایک امتحان کی طرح ہوتا ہے۔ واضح رہے ملک کے دیگر شہروں کی طرح کراچی میں بھی نماز جمعہ کے اجتماعات پر پابندی عائد ہے، جس کی کچھ مذہبی شخصیات مخالفت کرتی بھی نظر آتی ہیں۔ گذشتہ جمعہ (3 اپریل) کو لیاقت آباد 8 نمبر کے علاقے کی مسجد غوثیہ میں پابندی کے باوجود نماز جمعہ باجماعت پڑھائی گئی۔ آج بھی اورنگی ٹاؤن میں نماز جمعہ کے موقع پر پولیس پر پتھراؤ کیا گیا، جس سے موقع پر موجود خاتون ایس ایچ او بھی زخمی ہوگئیں۔ ان واقعات کے بارے میں پولیس افسران کہتے ہیں کہ ان حملوں میں علاقہ مکین ملوث ہی نہیں ہیں بلکہ کچھ شرپسند عناصر اس حملے کے پیچھے ہیں، جن کا مقصد شہر میں قائم امن کو خراب کرنا ہے، یہاں انہوں نے ان شرپسند عناصر کا نام تو نہیں لیا، لیکن اشارہ ان کا ایک مذہبی جماعت کی جانب تھا۔
خبر کا کوڈ : 855828
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش