0
Friday 10 Apr 2020 17:44

کرونا کے سائے اور چینی کا بحران

کرونا کے سائے اور چینی کا بحران
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

عمران خان صاحب پاکستان کے وزیراعظم ہیں، ان کی بائیس سالہ جدوجہد کو دیکھا جائے تو انہوں نے ایک بات بار بار کی کہ کرپٹ عناصر جنہوں نے ملک کو لوٹا ہے، انہیں نہیں چھوڑیں گے۔ انہوں نے وزیراعظم بنتے ہی احتساب کے عمل کو تیز کرنے کی بات کی اور اس حوالے سے کئی انتظامی خامیوں کی نشاندہی بھی کی۔ اس سب کے باوجود ایک وقت ایسا آیا جب ماضی کے تین منتخب وزرائے اعظم کرپشن چارجز پر جیلوں میں تھے۔ حزب اختلاف وزیراعظم پر بار بار انتقامی کارروائیوں کا الزام لگاتی رہی، مگر عمران خان اور پی ٹی آئی کا موقف رہا کہ یہ کیسز پہلے سے چل رہے ہیں، ہم نے یہ کیسز نہیں بنوائے۔ اگرچہ احتساب کا پورا عمل ہی مشکوک بنتا رہا  بالخصوص سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فیصلہ دینے والے جج کی ویڈیو نے عدلیہ کے کردار پر سوالات اٹھائے، جس پر اعلیٰ عدلیہ نے اس کے خلاف کارروائی کی۔ عمران خان صاحب اپوزیشن سے لوٹی دولت نکلوانے کے خواب دیکھ رہے تھے کہ پہلے سوشل میڈیا پر اور پھر قومی میڈیا پر یہ خبریں آنے لگیں کہ چینی ایکسپورٹ کرنے کے نام پر پی ٹی آئی کے جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کو کروڑوں کی سبسٹڈی دی گئی ہے۔ جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کا نام آنے سے پی ٹی آئی کی کافی سبکی ہوئی اور پی ٹی آئی نے اس کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی، جس کی سربراہی واجد ضیاء نے کی۔

سب سے پہلے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ یہ سبسڈی کیوں دی جاتی ہے؟ اس کی بنیادی طور پر دو وجوہات ہیں، ایک تو اس سے زرمبادلہ ملک میں آتا ہے اور دوسرا پیسہ کسان کی جیب میں جاتا ہے۔ اس پوری سائنس کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ یہ سب کیسے ہوتا ہے؟ جب شوگر ملوں کے پاس چینی زیادہ ہوتی ہے تو وہ حکومت سے کہتی ہیں کہ ہمیں چینی برآمد کرنے کی اجازت دیں، اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہمارے پاس اضافی چینی موجود ہے، جس سے کی وجہ سے ہم نئی چینی کے لیے گنا نہیں خریدیں گے، گنا نہیں خریدا جائے گا تو کسان رل جائیں گے۔ حکومت کہتی ہے کہ چینی برآمد کریں۔ اب شوگر ملوں کے مالکان کہتے ہیں کہ ہماری لاگت زیادہ ہے اور بین الاقوامی مارکیٹ میں چینی سستی ہے، اس فرق کو ختم کرنے کے لیے   سبسٹڈی دی جاتی ہے۔ اسی سبسٹڈی کی رقم سے جہانگیر ترین صاحب نے  چھپن کروڑ اور خسرو بختیار صاحب نے پنتیس کروڑ لیے ہیں۔ وفاقی حکومت نے سبسٹڈی دینے سے اس لیے انکار کر دیا کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے برآمد کنندگان کو کوئی نقصان نہیں ہوا، مگر پنجاب حکومت نے یہ کہہ کر تین ارب روپے سبسٹڈی دے دی کہ پنجاب کے کسان کا مسئلہ ہے۔

واجد ضیاء صاحب کی کمیٹی کی رپورٹ سے پاکستان کی سیاست میں بھونچال آگیا، کیونکہ عام طور پر ایسی کمیٹیاں ایشو دبانے کے لیے تشکیل دی جاتی ہیں۔ کمیٹی نے پی ٹی آئی کی حکومت میں شامل انتہائی طاقتور حلقوں کو اس بحران کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کارروائی کی سفارش کی۔ لوگوں کی امید تھی کہ ترین اور خسرو بختیار کے خلاف کارروائی کا مطلب ایک کمزور حکومت کے بس کی بات نہیں، مگر عمران خان نے کارروائی کا اعلان کیا، جس میں صوبائی وزیر سمیع اللہ چودھری سے استعفیٰ لیا گیا جبکہ سابق سیکرٹری فوڈ بھی او ایس ڈی بنا دیئے گئے۔ جہانگیر ترین کو زراعت ٹاسک فورس کی چیئرمین شپ سے ہٹا دیا گیا اور کئی دیگر افسران کی بھی تنزلی کی گئی۔ پی ٹی آئی کے لکھاری ہمدرد حسینی صاحب نے تجزیہ کرتے ہوئے لکھا: مجھے ان لوگوں پر حیرت ہو رہی تھی، جو پچھلے دو دنوں سے یہ لکھ رہے تھے کہ کچھ نہیں ہونا اور فرانزک آڈٹ میں جہانگیر ترین، خسرو بختیار وغیرہ کو بری کر دیا جائے گا اور یہ محض ڈھکوسلا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ رپورٹ جاری ہی نہ کی جاتی۔ تجزیہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنی وش فل تھنکنگ اور پسند نا پسند سے اٹھ کر صورتحال کو دیکھا جائے۔

یہ فیصلے بہرحال عمران خان کے فیصلے ہی ہیں۔ ان پر بے شک تنقید کریں یا ستائش کریں، مگر یہ اسٹیبلشمنٹ کے فیصلے نہیں۔ عمران خان نے آٹا سکینڈل کے بعد ہی سے جہانگیر ترین کے ساتھ فاصلے پیدا کر لئے تھے، دو ہفتوں تک ملاقات نہیں کی اور پھر ملاقات ہوئی بھی تو سرد مہری ختم نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت ہی باخبر حلقوں نے کہہ دیا تھا کہ خان صاحب کے دل میں دراڑ پڑ گئی ہے اور ایک بار جب ان کا شیشہ دل ٹوٹ جائے تو پھر وہ اپنے دیرنیہ دوستوں اور کزنز تک کی پروا نہیں کرتے۔ عمران خان کو چاہے اس کا نقصان ہو، مگر اس نے مورال گرائونڈ پر بڑی کامیابی ضرور حاصل کی ہے۔ اس کے اثرات کیا ہوسکتے ہیں۔؟ ایک تو اس کا اگلا شکار گنے کے کسان ہوسکتے ہیں، جنہیں پہلے ہی شدید مسائل کا سامنا ہے، جب فصل ہوتی ہے تو صحیح ریٹ نہیں ملتا اور ان کی محنت کا پھل چند صنعت کار کھا جاتے ہیں۔ اس لیے حکومت کو اس معاملے پر نظر رکھنا ہوگی کہ کہیں کسان کے ساتھ زیادتی نہ ہو جائے۔ جہانگیر ترین صاحب کے جہاز کا پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت بنانے میں بہت اہم کردار ہے، ایسے میں سیاسی طور پر وفاق اور پنجاب میں مشکلات کا سامنا ہوگا۔ لگ یوں رہا ہے کہ عمران خان نے سوچ سمجھ کر مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک شاٹ کھیلا ہے، اس پر چھکا بھی لگ سکتا ہے اور کیچ آوٹ بھی ہوسکتے ہیں، ایک بڑے ایشو پر کرونا کے سائے پڑ گئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 855838
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش