0
Friday 10 Apr 2020 11:00

جنگ بندی اور حملے ساتھ ساتھ

جنگ بندی اور حملے ساتھ ساتھ
اداریہ
سعودی عرب اس وقت مختلف داخلی و خارجی بحرانوں میں مبتلا ہے۔ ایک طرف کرونا وائرس نے شاہی محلات میں افراتفری مچا رکھی ہے، تو دوسری طرف تیل کی پیداوار کے حوالے سے روس سعودی عرب تعلقات کشیدگی کی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں۔ اسی دوران یمن کے مجاہدین کے تابڑ توڑ حملوں نے آلِ سعود کی نیندوں کو حرام کر دیا ہے اور حکومتی حلقوں میں کہرام مچا ہوا ہے۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق آلِ سعود کے فرمانروا شاہ سلمان اور ان کے فرزند اور ولی عہد، بن سلمان قریبی جزیروں میں پناہ لیے ہوئے ہیں، تاکہ کرونا وائرس اور یمنی مجاہدین کے حملوں سے محفوظ رہ سکیں۔ اسی دوران آلِ سعود نے سرحدوں پر دباؤ کم کرنے کے لیے اہل یمن کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

جارح سعودی اتحاد کے ترجمان ترکی المالکی نے اپنی حکومت کا سرکاری موقف بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ آلِ سعود حکومت دو ہفتوں تک جنگ بندی کا اعلان کرتی ہے اور اس مدت میں بعد میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔ جنگ بندی کا اعلان بھی ہوگیا ہے، لیکن اہل یمن کو آل سعود کے اعلانات پر بھروسہ نہیں، اسی لیے یمن کی تحریک انصاراللہ کی سیاسی کونسل کے رکن سلطان السامعی نے دو ہفتے کی جنگ بندی کو سعودی اتحاد کا نیا کھیل قرار دیا ہے۔ سعودی حکام کے بیانات کی گونج ابھی فضاء میں موجود تھی کہ جارح سعودی اتحاد کے جنگی طیاروں نے جنگ بندی کے اعلانات کے باوجود صعدہ اور حجہ صوبوں کے بعض علاقوں پر بمباری کی ہے۔

نجران کے سرحدی علاقوں میں بھی سعودی جنگی طیاروں اور اپاچی ہیلی کاپٹروں نے حصہ لیا۔ سعودی عرب اس سے پہلے سویڈن میں الحدیدہ کے علاقوں میں جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کرچکا ہے۔ آل سعود یمنی مجاہدین کے حوصلوں کو کمزور کرنے اور ان کے درمیان اختلافات ڈالنے، عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے جنگ بندی کی بات ضرور کرتا ہے، لیکن عملی میدان میں اس پر عمل درآمد نہیں کرتا۔ آل سعود کی طرف سے حالیہ جنگ بندی کو بھی اسی تناظر میں پرکھنے اور دیکھنے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 855851
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش