1
Wednesday 4 Jul 2012 16:43
۱۵ شعبان ۱۴۳۲ ولادت باسعادت امام زمانہ عج کی مناسبت سے:

امام زمانہ عج کی نیابت عام، مرجعیت تقلید سے ولایت فقیہ تک

امام زمانہ عج کی نیابت عام، مرجعیت تقلید سے ولایت فقیہ تک
مترجم:سید عباس ہمدانی

غیبت کبری کے آغاز سے امام زمانہ عج کی جانب سے نائبین عام کی علمی نیابت کے علاوہ مالی اور سیاسی نیابت کا زمینہ معرض وجود میں آ گیا۔ غیبت کے طولانی ہونے اور خمس کے دینی احکام معطل ہونے کی وجہ سے امام زمانہ عج کے علمی نائبین نے ابتدا میں امین افراد اور بعد میں فقیہ اور نائب امام زمانہ عج کی حیثیت سے حضرت ولیعصر عج سے متعلق اموال کی ذمہ داری سنبھال لی۔ دوسری طرف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ولایت فقیہ کی شکل میں امام زمانہ عج کی سیاسی نیابت کی زیادہ منظم صورت کا زمینہ فراہم ہوا۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں عظیم اسلامی انقلاب کی کامیابی اور میدان عمل میں ولایت فقیہ کا مرجعیت تقلید کی تکامل یافتہ صورت کے طور پر تحقق پا لینے کے بعد اسکے گرد عوام کی ثابت قدمی اور اتحاد کے مرحلے کا آغاز ہو گیا۔

مقدمہ:

اہل تشیع عصر نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے 250 سال بعد تک جانشین پیغمبر ص کو اپنے درمیان موجود پاتے تھے اور ان سے معنوی، علمی، دینی سرپرستی، عدالتی فیصلوں اور کچھ حد تک سیاسی راہنمائی سے مستفیض ہوتے تھے۔ لیکن عصر غیبت کے شروع ہونے کے بعد شیعیان اہلبیت ع امام معصوم ع کے حاضر ہونے کی نعمت سے محروم ہو گئے اور اپنے درمیان شدید خلاء کا احساس کرنے لگے۔ اس خلاء کو پر کرنے کیلئے راہ حل کی تلاش ہونے لگی۔ امام زمانہ عج اور دوسرے معصومین علیھم السلام نے اپنی روایات میں ایسے امور کی ذمہ داری جنکا کوئی والی وارث نہ تھا، دینی علماء کے کندھوں پر ڈالی اور لوگوں نے بھی اپنی ایسی دینی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے جو وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں، علمای دین کا رخ کیا۔

ان چار عناصر یعنی عوام، علماء، وقت کی تبدیلیاں اور دینی منابع کے باہمی تعامل کا نتیجہ مرجعیت تقلید کے ابھر کر سامنے آنے کی صورت میں نکلا۔ مرجعیت تقلید کے مرحلہ وار تکامل اور ترقی کا پھل نظام ولایت فقیہ تھا جو انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران کی سرزمین پر سیاسی اور اجتماعی حوالے سے فعال کردار کا حامل ہو گیا۔ اس مضمون میں امام زمانہ عج کی "نیابت عام" کے مرحلہ وار تکامل اور بتدریج ترقی کا جائزہ لیا گیا ہے جو تاریخ کے ایک مرحلے میں مرجعیت تقلید کی شکل میں ابھر کر سامنے آئی اور پھر آہستہ آہستہ ترقی کرتے ہوئے آخرکار ولایت فقیہ کی صورت میں آشکار ہو گئی۔

امام زمانہ عج کی علمی نیابت:

آئمہ معصومین علیھم السلام کے حضور کے زمانے میں عام افراد براہ راست یا شاگردوں کے ذریعے امام معصوم ع سے دینی تعلیمات حاصل کرتے تھے۔ غیبت صغری کے دوران بھی امام زمانہ عج سے رابطہ انکے نائبین خاص کے ذریعے کسی حد تک ممکن تھا۔
لیکن چوتھے نائب خاص کی وفات کے بعد یہ امکان بھی ختم ہو گیا۔ نہ خود امام زمان عج تک لوگوں کی رسائی ممکن تھی اور نہ ہی انکا کوئی شاگرد یا نائب خاص انکے درمیان موجود تھا۔ ایسی صورت میں شیعیان اہلبیت ع کو کیا کرنا چاہئے تھا؟۔ 

آئمہ معصومین علیھم السلام کی موجودگی میں کچھ ایسے افراد لوگوں میں معروف ہو گئے جو ان تک آپ ع کی احادیث پنچاتے تھے۔ ان کو "راویان حدیث" کہا جاتا تھا۔ آئمہ معصومین علیھم السلام بھی ہمیشہ علمی حوالے سے ان افراد کی حمایت اور تائید فرماتے تھے۔ امام زمانہ عج نے اپنے دوسرے نائب خاص کے ذریعے اپنی غیر موجودگی میں عام افراد کو انہیں راویان حدیث کی جانب رجوع کرنے کی تاکید فرمائی تھی۔ یہی روایت چوتھے نائب خاص کی وفات کے بعد امام زمانہ عج کی نیابت عام کا زمینہ فراہم کرنے کا باعث بنی۔ 
روایت میں شیعیان اہلبیت ع کو مخاطب قرار دے کر فرماتے ہیں:
"پیش آنے والے حوادث اور واقعات میں ہمارے راویان حدیث کی جانب رجوع کریں، وہ میری طرف سے آپ پر حجت ہیں اور میں خدا کی طرف سے ان پر حجت ہوں"۔ [صدوق، 1405، ص 484]

اس دستورالعمل کی رو سے راویان حدیث کی فرمانبرداری اور اطاعت امام زمانہ عج کی اطاعت قرار دی گئی ہے۔ یہی "نیابت" کا معنی و مفہوم ہے۔ لیکن یہ نیابت "نیابت خاص" نہیں کیونکہ امام زمانہ عج نے کسی ایک فرد کو مشخص نہیں کیا، بلکہ مخصوص افراد کے ایک گروہ کو مشخص کیا ہے جو خاص خصوصیات کے حامل ہیں [ان خصوصیات کی جانب اس روایت اور کچھ دوسری روایات میں اشارہ کیا گیا ہے]۔ یہ خصوصیات جس شخص میں بھی پائی جائیں گی وہ امام زمانہ عج کا نائب تصور کیا جائے گا۔ "نیابت عام" کا معنی و مفہوم یہی ہے۔ محقق کرکی [متوفای 940 ھ ق] نیابت عام کی تعریف یوں کرتے ہیں:
"نائب عام ایسا شخص ہے جس میں فتوا اور حکم دینے کی تمام صلاحیتیں موجود ہوں۔ اسے نائب عام اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ کلی طور پر امام معصوم ع کی جانب سے منصوب کیا گیا ہے"۔ [محقق کرکی، 1408، ج 11، ص 266]۔

غیبت کے آغاز سے ہی دینی علماء نے بڑے پیمانے پر آئمہ معصومین علیھم السلام سے منسوب روایات اور احادیث کو اکٹھا کرنے کا کام شروع کر دیا۔ اسی جدوجہد کا نتیجہ آج حدیث کی معتبر اور بڑی کتابوں کی صورت میں موجود ہے جو اہل تشیع کیلئے اہم منابع کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ عظیم کارنامہ اس زمانے میں علمای دینی کی "علمی نیابت" کے تکامل کو ظاہر کرتا ہے۔ علمی نیابت کے مرحلے کا تحقق پانا نیابت عام کے اگلے مراحل کا زمینہ فراہم ہونے کا باعث بن گیا۔چوتھی صدی ہجری کے آخری 25 سالوں میں اہل تشیع فقہاء کے کلام کو خود امام زمانہ عج کے کلام
کی طرح معتبر سمجھتے ہوئے قبول کرتے تھے۔ دوسرے الفاظ میں فقہاء امام زمانہ عج کے ترجمان کی حیثیت اختیار کر چکے تھے۔

امام زمانہ عج کی مالی نیابت:

نیابت عام کی مرحلہ وار ترقی اور تکامل کا اگلا مرحلہ مالی نیابت کا تھا۔ البتہ تاریخی اعتبار سے مالی نیابت اور علمی نیابت کے درمیان فاصلہ پایا جاتا ہے۔ مالی نیابت کو مزید واضح کرنے کیلئے ہم خمس کے مسئلے پر تھوڑی روشنی ڈالیں گے۔
خمس ایک طرح کا ٹیکس ہے جسکا ادا کرنا خاص شرائط کے ساتھ افراد پر واجب ہو جاتا ہے۔ خمس کا آدھا حصہ "سہم امام" کہلاتا ہے جو امام معصوم ع کے اختیار میں قرار پاتا ہے اور باقی آدھا حصہ "سہم سادات" کہلاتا ہے۔ آئمہ معصومین علیھم السلام کی موجودگی میں انکے وکلاء کا ایک نیٹ ورک موجود تھا جو افراد سے خمس اکٹھا کر کے ان تک پہنچاتے تھے۔ لیکن امام زمانہ عج کے چوتھے نائب خاص کی وفات کے بعد یہ نیٹ ورک ختم ہو گیا اور خمس اکٹھا کرنے کا سلسلہ رک گیا۔

کچھ علماء نے یہ فتوا دیا کہ خمس کی رقم کو امام زمانہ عج کے ظہور تک کسی محفوظ مقام پر دفن کر دیا جائے۔
کافی عرصہ گزر جانے کے بعد معروف فقیہ اور عالم دینی ابو صلاح حلبی نے پہلی بار یہ فتوا دیا کہ خمس کی رقم ایک امین فقیہ کو سونپی جائے۔ لیکن انکا یہ فتوا صرف "سہم سادات" کے ساتھ مخصوص تھا اور "سہم امام" کے بارے میں نہیں تھا۔ ان کے بعد قاضی ابن براج [متوفا 481 ھ ق] وہ دوسرے شیعہ فقیہ اور عالم دین تھے جنہوں نے یہ فتوا دیا کہ سہم امام فقیہ کو سونپا جائے۔ البتہ فقیہ سے انکی مراد امانت دار شخص ہے جو خود یا دوسروں کے ذریعے ظہور کے وقت یہ رقم امام زمانہ عج کو پہنچا دے۔ 

ساتویں صدی ہجری تک خمس کی رقم کو امام زمانہ عج کے ظہور تک محفوظ مقام پر نگہداری کرنے پر تمام فقہاء متفق تھے۔ لیکن جب غیبت کا دورانیہ طویل ہوتا گیا اور شیعیان اہلبیت علیھم السلام خمس کی رقم کے بارے میں مشکلات کا شکار ہونے لگے تو فقہاء خاص طور پر محقق حلی رہ نے سہم امام دریافت کرنا شروع کر دیا اور اسے مذہبی سرگرمیوں میں خرچ کرنے لگے۔ بعد میں آنے والے فقہاء نے بھی اسی طریقے پر عمل کیا۔ یہاں سے امام زمانہ عج کی جانب سے "مالی نیابت" کا مرحلہ شروع ہو گیا۔

امام زمانہ عج کی سیاسی نیابت:

شیعیان اہلبیت ع جو پیغمبر اکرم ص کی وفات کے وقت اقلیت کی صورت اختیار کر چکے تھے اپنی دینی سیاسی زندگی میں انتہائی شدید دباو کا شکار رہے۔ اسی وجہ سے آئمہ معصومین ع نے تقیہ کا راستہ اختیار کیا۔
اہل تشیع کا سیاسی میدان سے دور ہو جانے کے باوجود آئمہ معصومین ع اپنے خاص اصحاب کو اسلام کے سیاسی نظام کے قواعد و ضوابط کی تعلیم دیتے
رہتے تھے۔ جب علماء تشیع نے روایات اور احادیث کی جمع آوری کا کام شروع کیا تو ایسی روایات جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر اسلام کے سیاسی مسائل سے مربوط تھیں انہیں ایک الگ باب میں رکھا۔ اسی طرح چوتھی، پانچویں اور چھٹی صدی ہجری کے دوران شیعہ حکومتوں کے برسر اقتدار آنے سے شیعہ علماء کو سیاسی میدان میں فعالیت کرنے کیلئے مناسب موقع فراہم ہو گیا۔ 

چوتھی صدی ہجری میں مصر میں فاطمیون کی حکومت، شام میں حمدانیان کی حکومت، یمن میں زیدیوں کی حکومت اور عراق و ایران میں آل بویہ کی حکومت قائم ہوئی۔ ان حکومتوں کے درمیان آل بویہ کی حکومت نے تشیع کی ترویج میں سب سے زیادہ فعال کردار ادا کیا۔ آل بویہ حکمرانوں کے شیعہ علماء سے بہت اچھے تعلقات تھے۔
یہ تمام واقعات نیابت عام کے مفہوم میں بنیادی تبدیلی اور سیاسی نیابت کے مطرح ہونے کا باعث بنے۔ امام زمانہ عج کی توقیع میں دو الفاظ بہت اہم ہیں۔ ایک "راویان" اور دوسرا "حوادث واقعہ"۔ وقت کے تقاضوں کے مطابق راویان سے مجتہدین کا معنا سمجھا جانے لگا۔ اسی طرح "حوادث واقعہ" سے مراد ایسے واقعات تھے جنکے رونما ہونے پر عام افراد کا وظیفہ شرعی معلوم ہونا ضروری تھا۔ ان واقعات میں سیاسی تبدیلیاں بھی شامل تھیں۔ لہذا سیاسی معاملات میں مجہتدین کی جانب رجوع کرنا ایسا دستورالعمل تھا جس نے نیابت عام کو سیاسی نیابت تک وسعت بخش دی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شیعہ مجتہدین نے امام معصوم ع کے ساتھ مخصوص امور جیسے نماز جمعہ کی امامت، حدود کا اجراء، خمس اور زکاۃ کی جمع آوری اور حکم جہاد صادر کرنا وغیرہ انجام دینا شروع کر دیئے۔ مرحوم کلینی رہ آل بویہ کے زمانے میں تاکید کرتے تھے کہ اہل تشیع اپنے جھگڑوں میں فیصلے کیلئے غیردینی افراد سے رجوع نہ کریں۔ اسی طرح شیخ مفید رہ حدود کے اجراء کو علماء کے ساتھ مخصوص قرار دیتے تھے۔ 

ایران میں صفویہ دور سلطنت [970 تا 1148 ھ ق] کا قیام اور صفویہ حکمرانوں کی جانب سے شیعہ مذھب کو رسمی مذھب کے طور پر اعلان کرنا اور دنیا بھر کے شیعہ مجتہدین کو ایران آنے کی دعوت دینا اس بات کا باعث بنا کہ یہاں "فقہ سیاسی تشیع" ترقی کے مراحل طے کرے۔ کیونکہ فقہ ہی وہ علم ہے جو دین کے قوانین کو بیان کرتا ہے اور قانون اجتماعی زندگی اور حکومت کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔
ولایت فقیہ:
حضرت امام خمینی رہ نے جب ایران میں سلطنتی نظام کے خلاف اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تو یہ موقف اختیار کیا کہ "شاہ" کو ایران سے نکل جانا چاہئے۔ امام خمینی رہ نے عصر غیبت میں اسلامی حکومت کا نظریہ پیش کیا۔ وہ اس سے قبل اپنے فقہی دروس میں حاکم اسلامی کی شرائط اور اختیارات
کو نظریہ ولایت فقیہ کی صورت میں بیان کر چکے تھے۔ انہوں نے امام معصوم ع کے روحانی مقام اور ولایت تکوینی کو انکے دنیوی مقام اور حکومتی اختیارات سے جدا کرتے ہوئے ایک مجتہد جامع الشرائط کیلئے اسی دنیوی مقام اور حکومتی اختیارات کا اثبات کیا۔ امام خمینی رہ نے مجتہد جامع الشرائط کی جانب سے امام زمانہ عج کی سیاسی نیابت کو مطرح کیا اور ثابت کیا کہ وہ عصر غیبت میں اسی دنیوی مقام اور حکومتی اختیارات کا حامل ہے جو امام معصوم ع اپنی موجودگی کے زمانے میں برخوردار ہیں۔

اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ امام خمینی رہ کی نظر میں حکومت سے مربوط وہ تمام ذمہ داریاں اور اختیارات جو انبیای الھی اور آئمہ معصومین ع سے متعلق ہیں، عصر غیبت میں عادل فقیہ انکا حامل ہے۔ البتہ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ فقیہ عادل کا مرتبہ آئمہ معصومین ع یا انبیای الھی کے برابر ہے۔ ائمہ معصومین ع اور انبیای الھی کے روحانی مقامات اور مناصب صرف انکے ساتھ مخصوص ہیں۔ ولی فقیہ صرف دنیوی مقام اور حکومتی امور میں امام معصوم ع کا نائب اور جانشین ہے۔

نتیجہ:

بطور خلاصہ یہ کہ امام زمانہ عج کی جانب سے نیابت عام مرحلہ وار ترقی اور تکامل کے درجات طے کرتی آئی ہے۔ اپنے آغاز میں یہ نیابت علمی نیابت کی شکل میں ظاہر ہوئی، اسکے بعد مالی نیابت اور پھر سیاسی نیابت کی شکل اختیار کر گئی۔ البتہ اس مرحلہ وار ترقی میں بدلتے ہوئے حالات اور واقعات نے انتہائی اہم اور بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ نیابت عام کی ترقی اور پیشرفت کا یہی سفر بالآخر نظام ولایت فقیہ تک آن پہنچا جو عصر حاضر کے بہترین اسلامی سیاسی نظام کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ 

نظام ولایت فقیہ میں امام زمان عج کی جانب سے فقیہ کو مزید وسیع اختیارات کی منتقلی باعث بنی ہے کہ "نیابت عام" کا تحقق وسیعتر بنیادوں پر انجام پائے۔ دوسرے الفاظ میں نظام ولایت فقیہ انسانی معاشرے میں امامت اور مھدویت کے زیادہ سے زیادہ متجلی ہونے کا باعث بنا ہے جسکی وجہ سے احکام دین کے اجراء کا زمینہ فراہم ہوا ہے۔ انسانی معاشرے میں دین کا اجراء امامت کے فوائد اور برکات میں سے ایک ہے جو نائب امام کے ذریعے معاشرے میں تحقق پایا ہے۔

انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد نظام ولایت فقیہ پر مبنی اسلامی حکومت کی تشکیل سے شیعیان اہلبیت ع نے "ولایت مداری"، جو امام زمانہ عج کے ظہور کی شرائط اور مھدوی حکومت کی خصوصیات میں سے ہے، کا ایک بڑا تجربہ انجام دیا ہے۔ شیعیان اہلبیت علیھم السلام کی جانب سے ولایت مداری کا یہ تجربہ اور اسے عالمی سطح پر پیش کرنا ظہور امام زمانہ عج کی جانب ایک اہم قدم شمار ہوتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 85595
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش