QR CodeQR Code

معاشی بحران اور قومی لائحہ عمل

13 Apr 2020 23:56

اسلام ٹائمز: آج یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ اگر پاکستان کے زرعی شعبے کو ترقی یافتہ بنانے کی کوشش کی جاتی تو آج ہمیں خوراک میں خود کفالت حاصل ہوتی، ہمارا کسان خوشحال ہوتا جس کے نتیجے میں دیہات میں بسنے والا زرعی مزدور شہروں کا رخ نہ کرتا، اسے گاؤں میں ہی روز گار ملتا۔ اسی طرح صنعتی پالیسی بناتے وقت، ملک کی ضروریات اور اس کے جغرافیے اور زمینی ماحول کو سامنے رکھ کر کارخانے لگانے کی اجازت دی جاتی تو اس سے زراعت بھی پھیلتی اور ملکی صنعت بھی ترقی کرتی۔


ترتیب و تنظیم: ٹی ایچ بلوچ

عالمی ریٹنگ کے ادارے موڈیزکی پیشگوئی کے مطابق رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی شرح نمو 2.9 فیصد کے بجائے 2.5 فیصد رہے گی۔ اس کی وجوہات میں طلب میں کمی ہونے سے معاشی ترقی کی شرح متاثر ہونا ہے، کراس باڈر ٹریڈ اور سپلائی چین میں تعطل ہے، عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں کم ہوگئی ہیں، تیل برآمد کرنے والے ممالک کے لیے مشکلات ہیں۔ ہمارے معاشی ماہرین کو سر جوڑ کر بیٹھنا اور ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے اقدامات پر غور کرنا ہوگا۔ ایک جانب تو کورونا وائرس کے سبب اموات کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا اور روزانہ کی بنیاد پر اس کے مریضوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری جانب ملک میں لاک ڈاؤن ہے لیکن منافع خور مافیا سرگرم ہے۔ لاہور جیسے شہر میں دکانوں، مارکیٹوں اور چکیوں پر آٹا نایاب ہوگیا ہے۔ چکی مالکان کا کہنا ہے کہ گندم مہنگی ہوگئی اور سپلائی کم آرہی ہے، آٹے کی جتنی مقدار ملتی فوری بک جاتی ہے۔ دالوں کی قیمتوں میں 32 روپے سے 58 روپے فی کلو تک کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ دال چنا 118 روپے سے بڑھ کر 150 روپے کلو ہوگئی۔ دال ماش 42روپے اضافہ کے ساتھ 240 روپے کلو میں فروخت کی جارہی ہے، جب کہ دال مونگ کی قیمت میں 58 روپے فی کلو اضافے کے بعد نئی قیمت 260 روپے فی کلو ہوگئی ہے۔ چینی فی کلو 10روپے اضافے کے ساتھ 75کے بجائے 85روپے کلو بکنے لگی ہے۔ پورے ملک میں منافع خور مافیا سرگرم عمل ہے۔ جس کے خلاف وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

 کورونا سے متاثرین کی امداد کے لیے حکومت نے اعلانات تو کیے مگر سماج دشمن عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کے دعوے محض دعوے ہی رہ گئے، کسی مافیا کو کوئی سزا نہیں ملی، سماج میں عام آدمی کو کورونا نے اعصابی اور جسمانی اعتبار سے مضمحل کردیا ہے۔ افلاس، بیروزگاری اور بے یقینی اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے عوام میں برہمی بھی عود کر آئی ہے، اس کا اظہار نہیں ہوتا مگر اندر سے اضطراب کی گرمی اظہر من الشمس ہے۔ معاشی حالات پر حکمرانوں کی نظر ہونی چاہیے، کسی کو اس خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ بغیر کھائے پیئے کوئی انسان ایک ماہ یا سال بھر تک کورونا کا عذاب برداشت کرتا رہے گا اور کوئی رد عمل سامنے نہیں آئے گا۔ ماہرین اقتصادیات مارکیٹ کے عوامل کا بار بار حوالہ دیتے رہے ہیں، حکومت کو ریلیف کے اعلانات کا پٹارہ کھولنا چاہیے، لوگ انتظار ایک حد تک کریں گے پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ ماہرین شعبہ زراعت کے ساتھ ہونے والے کھلواڑ کی بھی دہائی دیتے آرہے ہیں، ایک اطلاع یہ ہے کہ پاکستان میں 12کروڑ افراد خط غربت سے نیچے جاسکتے ہیں، وزیراعظم کہتے ہیں کہ 70 فی صد دالیں ہم امپورٹ کرتے ہیں۔ حکومت اولین فرصت میں زرعی شعبے کی کسمپرسی اور کسانوں اور ہاریوں کی حالت زار کی طرف توجہ دے، ایک ایٹمی ملک آٹا، گھی، لہسن، ادرک، چینی، گیس اور اشیائے خورونوش کی قلت اور مہنگائی کا شور مچائے اور اس کے عوام افلاس اور بیروزگاری سے نڈھال ہوں اس سے بڑی بے انصافی اور کیا ہوسکتی ہے، ارباب اختیار کو کورونا سے جنگ لڑنے کے ساتھ ساتھ غربت اور مہنگائی اور لاعلاجی کے خلاف بھی لڑنے کے وسائل پیدا کرنے چاہئیں۔

یہ خوش آئند ہے کہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے ملک میں آٹے کی قلت کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ آٹے کی قلت نہیں اور خبردار کیا ہے کہ ایسی صورتحال میں ذخیرہ اندوزی کرنے والے اللہ تعالیٰ، ملک اور قوم کے مجرم ہیں، تاہم میڈیا کو آٹے کی قلت کی شکایات مختلف ذرائع سے ملی ہیں، عوام نے شکایت کی کہ آٹا آسانی سے دستیاب نہیں، چکی مالکان اور فلور ملز کے ذرائع نے گندم کی عدم رسائی کا حوالہ دیا ہے، صوبائی حکومتوں کو مسئلہ کے گمبھیر ہونے سے قبل آٹے کی قلت کی قیاس آرائیوں کا سدباب کرنا چاہیے۔ اگر یہ افواہ ہے تو اس دھویں کے پیچھے موجود تپش کا پہلے سے خاتمہ ہونا ضروری ہے۔ ذرائع کے مطابق پنجاب میں گندم کی زیر کاشت فصل کو شدید خطرات لاحق ہیں، بارشوں، ژالہ باری، ٹڈی دل اور یلورسٹ (پیلی کنگی) سے پیداوار میں کمی کا اندیشہ ہے۔ معاشی بحران میں گھری وفاقی حکومت کے لیے کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث آیندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاری میں بھی مزید مشکلات پیدا ہونے کے امکانات واضح نظر آ رہے ہیں۔ رواں مالی سال کے لیے تمام اقتصادی اہداف متاثر ہونے کی وجہ سے اگلے بجٹ کے حوالے سے اقتصادی اہداف کے تعین میں بھی مشکلات کا حائل ہونا خارج از امکان نہیں۔ کورونا سے پیدا ہونے والی صورتحال سے ملکی معیشت کو 1300 ارب روپے سے زائد نقصان پہنچنے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔

یہ گھمبیر معاشی صورتحال آنے والے طوفان کا پیش خیمہ ہے، کیونکہ ایک جانب تو کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے انسانی زندگیوں کی بقا کا مسئلہ درپیش ہے تو دوسری جانب ملکی معیشت بیٹھ جانے کے امکانات ہمارے لیے نئے مسائل جنم دے سکتے ہیں۔ ہمیں ایسی حکمت عملی پر غور کرنا چاہیے کہ ملکی معیشت کسی نہ کسی طور بہتری کی جانب رواں ہو، اس بحرانی کیفیت میں دوست ممالک سمیت، عالمی اداروں کو بھی ہمارا خیال رکھنا ہوگا۔ لیکن پاکستان نے عالمی برادری اور دیگر بڑی طاقتوں سے خیرات یا امداد کی جو توقع وابستہ کر رکھی ہے اس کا پورا ہونا اس لیے مشکل نظر آتا ہے کہ جن معاشی طاقتوں نے دنیا کو کورونا سے بچانا ہے وہ خود ایک مشکل ترین اقتصادی صورتحال سے دوچار ہیں، بلاشبہ امریکا کی معیشت دنیا کی طاقتور اقتصادی حقیقت ہے، وہ اس بحران سے نکل سکتی ہے، مگر امریکا میں 30 لاکھ افراد بے روزگار ہوچکے۔ جب کہ کہا جاتا ہے کہ امریکا کورونا کا سب سے بڑا مرکز بننے کے خطرہ سے دوچار ہے، اسی طرح بھارت کی معیشت خطے کی ایک حقیقت ہے، مودی 2 ارب 26کروڑ ڈالر کا کورونا ریلیف پیکیج دینے پر تیار ہے۔ ایک طرف چین کے صدر شی چنگ پنگ نے جی ٹونٹی اجلاس میں عالمی تجارت میں رکاوٹیں دور کرنے پر زور دیا ہے، دوسری جانب سعودی عرب اور روس کے درمیان تیل کی پیداوار کم کرنے پر اتفاق رائے نہ ہوسکنے کے باعث ایک آئل وار شروع ہوچکی ہے، پاکستان اس وار سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں ضرور ہے، لیکن اسے اَن دیکھے شدید معاشی ڈیزاسٹر کا سامنا ہے، نہیں معلوم کہ حکومت کو ادراک ہے کہ نہیں کہ کورونا کی روک تھام کے لیے لاک ڈاؤن یا کرفیو مجبوری تو ہوسکتی ہے، لیکن اسے مہم جوئی نہیں بنایا جاسکتا۔

یہ ضروری ہے کہ کورونا وائرس کی سائنٹیفک طریقوں سے موثر روک تھام اور طبی سہولتوں کے ساتھ ساتھ اکانومی کے سنگلاخ حقائق کو بھی پیش نظر رکھا جائے، کیونکہ یہ بات تو عالمی ادارہ صحت کے سربراہ بھی کہہ چکے ہیں کہ لاک ڈاؤن ہی کورونا کے تدارک کا واحد ذریعہ نہیں، ان کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عالمی انسانیت کو بے بس یا معاشی اعتبار سے مجبور رکھنا صائب انداز فکر نہیں، یہی وجہ ہے فہمیدہ حلقوں کی یہ تشویش بلاوجہ نہیں کہ ملک کو معاشی بحران اور اقتصادی گرداب میں پھنسنے سے روکا جائے۔ بے روزگاری، اشیائے خورونوش کی رسد میں تسلسل ناگزیر ہے، اقتصادی ماہرین کثیر جہتی خدشات کے سر اٹھانے کا عندیہ دے رہے ہیں تو ان پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے، اس ضمن میں عالمی مالیاتی اداروں سے قرض کی ادائیگی کے لیے مہلت پر غور بھی جاری ہے۔ اقتصادی ذرائع کے مطابق ہمیں اگلے 3 ماہ کے دوران 2.3 ارب ڈالر ادا کرنے ہیں، زر مبادلہ پر دباؤ بھی آسکتا ہے۔ وزارت توانائی نے مقامی ریفائننگ کمپنیوں کی سروسز کو لازمی قرار دیتے ہوئے خام تیل کی درآمد یکم اپریل سے بند کردی ہے۔ ضرورت ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی ہے، زرعی شعبہ حکمرانوں کی نظر التفات کا مستحق ہے، ایک ایسی معیشت کا ملک منتظر ہے۔ جسے خود کفالت دوسروں کی بیساکھی کی شکل میں  ہر گز نہ ملے، کشکول توڑنے کے دن آچکے ہیں، کورونا سے جان چھڑانے کا یہ زریں موقع ہے، ہمارے مسیحاؤں نے کورونا سے نمٹنے کیلیے جوش وجذبہ، ایثار اور اخلاص و محنت کا شاندار مظاہرہ کیا ہے اس کی دنیا تعریف کررہی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ارباب اختیار کو فیصلہ سازی کی استقامت درکار ہے، ابھی تک اس بات کا فیصلہ ہوجانا چاہیے تھا کہ وطن عزیز کس قسم کی غیر ملکی امداد چاہتا ہے، ظاہر ہے کہ عالمی کساد بازاری کو سینگ تو لگے نہیں، ہر باشعور شخص جانتا ہے کہ دنیا ایک برمودا ٹرائنگل میں الجھی ہوئی ہے، کورونا نے اعصاب جھنجھوڑ دیے ہیں، لاک ڈاؤن یا شٹ ڈاؤن کی پیدا شدہ صورتحال کے اندر سے حکومت کو اپنی مثالی حکمت عملی پیش کرنی چاہیے، چین نے کورونا کا درد سہا اور اس کی دوا بھی بنالی۔ اب ووہان میں کوئی کورونا وائرس نہیں، چین کے تجربے سے سیکھنے کے لیے جنوری کی ابتدائی تاریخوں میں ہمیں کورونا کے وبال سے نمٹنے کی تیاری کرلینی چاہیے تھی مگر ہم خواب خرگوش میں پڑے رہے، اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں گیا۔ کورونا کو ایک حادثہ سمجھ کر اس سے دائمی سبق سیکھنا ہی ایک تاریخی رویہ ہے، اسے یاد رکھنا چاہیے۔ حکومت لاک ڈاؤن ضرور کرے لیکن خلق خدا کو اور دیہاڑی دار، ملازمت پیشہ افراد اور غریبوں کے جم غفیر کو دو وقت کی روٹی بھی مہیا کرے، انھیں ریلیف، راشن اور زندہ رہنے کی سہولت دیے بغیر لاک ڈاؤن کرنا غیر انسانی اور غیر جمہوری فعل ہے، انسان کو کسی کنسنٹریشن کیمپ میں رکھنا، قید کرنا اور محصور کردینے سے کورونا کے خاتمے کی اخلاقی مہم اور قومی مشن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو بحرانی کیفیت کا سامنا ہے، عام آدمی شدید مالی بحران کا شکار ہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے، روزگار کے ذرایع مسدود ہیں، اس لیے عوام کو ریلیف دینے کا بھی کوئی آسان راستہ کھلنا چاہیے، ورنہ عوام شدید ڈپریشن کا شکار ہونگے، اقوام متحدہ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ کورونا کے باعث گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور خواتین اور لڑکیوں پر تشدد کا رجحان سر اٹھا رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کورونا سے لڑنے کی کثیر جہتی اسٹرٹیجی میں تبدیلی وقت کا تقاضہ ہے، عوام کے معاشی مسائل حل نہیں ہونگے تو کورونا اپنے ساتھ کئی دردناک داخلی چیلنجز کی سوغات لاسکتا ہے، حکومت آخر کتنے محاذوں پر لڑے گی، ارباب بست وکشاد کو عوام کے معاشی مسائل لازماً حل کرنا ہونگے۔ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ آج یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ اگر پاکستان کے زرعی شعبے کو ترقی یافتہ بنانے کی کوشش کی جاتی تو آج ہمیں خوراک میں خود کفالت حاصل ہوتی، ہمارا کسان خوشحال ہوتا جس کے نتیجے میں دیہات میں بسنے والا زرعی مزدور شہروں کا رخ نہ کرتا، اسے گاؤں میں ہی روز گار ملتا۔

اسی طرح صنعتی پالیسی بناتے وقت، ملک کی ضروریات اور اس کے جغرافیے اور زمینی ماحول کو سامنے رکھ کر کارخانے لگانے کی اجازت دی جاتی تو اس سے زراعت بھی پھیلتی اور ملکی صنعت بھی ترقی کرتی۔ آج حالت یہ ہے کہ دالیں، سبزیاں اور پھل تک بیرون ملک سے منگوائے جا رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ملکی زراعت کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ ایسی صنعتیں لگائی گئی ہیں جن کی پاکستان کے عوام کو ضرورت نہیں۔ اگر ملک میں چھوٹی کارخانہ داری کو فروغ دیا جاتا تو آج شوگر ملز اور سیمنٹ ملز کارٹل بنا کر من مانی نہ کرتی، اسی طرح صحت اور تعلیم کو نجی تحویل میں دے کر کاروباری درجہ نہ دیا جاتا تو آج سرکاری اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیاں ماضی کے معیار کے مطابق بلکہ اس سے بڑھ کر نتائج دے رہی ہوتی، ریاست نے چونکہ سب کچھ کاروباری افراد کے حوالے کر دیا تو اس کا نتیجہ آج یہ ہے کہ ریاست کے پاس اپنے عوام پر خرچ کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔


خبر کا کوڈ: 856273

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/856273/معاشی-بحران-اور-قومی-لائحہ-عمل

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org