1
Tuesday 14 Apr 2020 22:08

والعصر، ان الانسان لفی خسر

والعصر، ان الانسان لفی خسر
تحریر: سید اسد عباس

دنیا میں کرونا تھم رہا ہے یا نہیں، اس کے بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ بہرحال کئی ایک ممالک میں یہ اموات کی انتہائی حد تک پہنچ چکا ہے، وہ ممالک جہاں یہ اموات زیادہ واقع ہوئی ہیں، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق ترقی یافتہ دنیا سے ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں اب تک یہ وبا اس قدر جان لیوا ثابت نہیں ہوئی ہے۔ اس کی وجہ غریپوں کا مدافعتی نظام ہے یا کچھ اور امر یہ قابل تحقیق ہے۔ ایشیاء اور افریقہ کے بہت سے ممالک کی آبادی کی ایک بڑی تعداد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اسی طرح ان ممالک کے باشندوں میں سے اکثر کی صاف ماحول، شفاف پانی حتی زندگی بچانے والی ادویات تک بھی رسائی نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کا اندرونی مدافعتی نظام اس قابل ہے کہ کسی بھی بلا کا مقابلہ کرسکے اور اسے شکست دے دے۔

شاید آب و ہوا کے فرق کی بھی اس میں کوئی مداخلت ہو، ہم وثوق سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ایشیاء اور افریقہ میں کرونا سے متاثر ہونے والے افراد کم ہوں گے، کیونکہ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق ان ممالک میں ترقی یافتہ ممالک کی نسبت بہت کم ٹیسٹ ہوئے ہیں، لہذا متاثرین کی جو تعداد بتائی جا رہی ہے، وہ تو درست نہیں ہے۔ وطن عزیز پاکستان میں اب تک فقط 70 ہزار کے قریب ٹیسٹ کیے گئے ہیں، بھارت میں ٹیسٹوں کی تعداد دو لاکھ کے قریب ہے، فلپائن میں 38 ہزار، ایران میں دو لاکھ ستاسی ہزار، مصر میں پچیس ہزار، عراق میں 45 ہزار، نائجیریا میں پانچ ہزار، کینیا میں آٹھ ہزار، روانڈا میں 6 ہزار، لیبیا میں پانچ سو پینتالیس اور یمن میں ایک بھی ٹیسٹ انجام نہیں دیا گیا ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں ترقی یافتہ ممالک مین امریکا میں تقریباً تیس لاکھ، اٹلی میں دس لاکھ، جرمنی میں تیرہ لاکھ، روس میں چودہ لاکھ اور برطانیہ میں تقریباً چار لاکھ ٹیسٹ ہوچکے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ ایشیائی اور افریقی ممالک کی حکومتوں نے اپنے نظام صحت کو جانتے ہوئے ابتداء میں ہی کرونا کے پھیلاو کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے، چونکہ انہیں علم تھا کہ اگر یہ وباء ہمارے ممالک میں پھیلی تو ہمارا نظام صحت اس کو سنبھالنے سے قاصر ہوگا، لہذا اس سے نمٹنے کے لیے لاک ڈاون جیسا انتہائی مشکل فیصلہ کیا گیا۔ اکثر ایشائی اور افریقی ممالک میں عوام کی ایک بڑی اکثریت خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد کا انحصار روزانہ کی آمدن پر ہوتا ہے۔ اس کے باوجود شہروں کے شہر بند کر دیئے گئے۔ بعض ممالک مین عوام کو مطمئن رکھنے کے لیے جزوی لاک ڈاون کی اصطلاح استعمال کی گئی، تاہم جب ٹرانسپورٹ بند ہو، عوام اپنے گھروں میں مقید ہوں تو کیسے ممکن ہے کہ دھیاڑی دار مزدور کو روزگار میسر آسکے۔ کوئی خوش قسمت ہی ہوگا، جو ایسے میں کام حاصل اور اپنے روزمرہ کے امور کو چلا سکے۔

ایسے میں حکومتوں کے لیے لازم تھا کہ وہ اپنے شہریوں کو ریلیف مہیا کریں، دنیا کی ہر حکومت نے اس کا اہتمام بھی کیا، مختلف خیراتی ادارے بھی اس صورتحال میں سامنے آئے۔ بلا تفریق مذہب و ملت ان خیراتی اداروں نے انسانیت کی تکالیف کو کم کرنے کے لیے اپنے آپ کو مشکلات میں ڈالا۔ تاہم اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غریب ممالک کے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے، کیونکہ خواہ ریاست مدد کرے یا خیراتی ادارے، کوئی بھی اس قابل نہیں ہے کہ کسی ملک کے ہر طبقے کی ضروریات کو پورا کر سکیں۔ تقریباً ایک ماہ سے زائد کے جزوی اور مکمل لاک ڈاون کے بعد غریب ممالک کے عوام اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے باہر نکلنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔

پاکستان کی حکومت نے آج عوام کو مزید آسانیاں فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے، تاہم سندھ میں تاجروں نے کل سے دکانین کھولنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اسی طرح ہندوستان میں عوام سڑکوں پر آچکے ہیں۔ کجا روزمرہ کی ضروریات کے لیے روزانہ کی بنیاد پر کام کاج کے لیے نکلنا اور کجا ایک مہینہ سے زائد بغیر کسی روزگار کے حکومتی یا خیراتی اداروں کی جانب دیکھنا۔ غریب عوام تو ایک جانب ملک کے امراء بھی اب اس صورتحال سے بے چین نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم ایک ماہ کی تنخواہیں پہلے ہی ادا کرچکے ہیں، اب مزید تنخواہ دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ حکومت نے اگرچہ بزنس کمیونٹی کو بھی سہولیات دینے کے اعلانات کیے ہیں، بہرحال یہ سب کچھ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔

دنیا بھر میں کروڑوں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں، آئی ایم ایف کے مطابق اس برس عالمی معیشت تقریباً تین فیصد تک کمی کا شکار ہوگی اور موجودہ کمی 1930ء سے اب تک ہونے والی سب سے بڑی کمی ہے۔ یقیناً سرمایہ کار اس آفت کے بعد اپنے اپنے کاروبار کو اس رفتار پر شروع نہیں کریں گے، جس پر یہ چل رہے تھے۔ سرمایہ کے نقصان کو کم کرنے کے لیے کارکنوں کے تعداد کو بھی کم کیا جائے گا، جس کا نتیجہ بے روزگاری اور مہنگائی کی صورت میں ہمارے سامنے آئے گا۔ تاہم اس وقت بڑی مشکل کرونا کا دنیا سے مکمل خاتمہ ہے، کیونکہ اگر یہ آٖفت دنیا میں بدستور جاری رہتی ہے اور اس سے پیدا ہونے والی بھوک اور بے روزگاری کے سبب تقریباً دنیا کے سبھی ممالک میں امن و امان کے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔

اس وقت دنیا میں حکمران طبقہ دوراہے پر کھڑا ہے، اگر ملک سے لاک ڈاون کا خاتمہ کرتے ہیں تو اس وبا کو پھیلنے کا موقع مہیا کرتے ہیں، جس کے سبب ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا ہے۔ اگر لاک ڈاون جاری رہتے ہیں تو اس صورت میں بھی امن و امان کے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ جائے رفتن نہ پائے ماندن والی صورتحال ہے۔ یہ انسانیت کی ایک آزمائش ہے، جس سے ہمیں بہرحال صبر و تحمل سے گزرنا ہوگا۔ جیسا کہ قرآن کریم کا حکم ہے: "قسم ہے زمانے کی! انسان خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیکیاں انجام دیں نیز وہ حق اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔" اللہ کریم ہم سب کو حق اور صبر کی تلقین کرنے اور نیک عمل انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
خبر کا کوڈ : 856702
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش