0
Wednesday 15 Apr 2020 10:30

جھوٹے مسیحا

جھوٹے مسیحا
تحریر و تحقیق: توقیر کھرل

‏تقریباً تمام ادیان منتطر ہیں، وہ انتظار کر رہے ہیں ایک مسیحا کا، ایک ایسا مسیحا جو دکھی انسانیت کی مسیحائی کرے گا۔ مسلمان اس مسیحا کو مہدی موعودؑ کہتے ہیں۔ مہدی موعود ؑ پر عقیدہ رکھنے کو "عقیدہ ِمہدویت" کہا جاتا ہے۔ احادیثِ نبوی کے مطابق قیامت سے پہلے پیغمبرِ اسلام صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان میں سے ایک فرد قیام کرے گا۔ حدیثِ رسولؐ ہے کہ مہدی علیہ السلام میرے خاندان سے ہیں۔ وہ انقلاب لائیں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دیں گے، جیسے وہ ظلم و جور سے پرُ ہوچکی ہوگی۔ مسلمانانِ عالِم حضرات مہدی (عج) کے  وجود کے سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں رکھتے۔ دیگر ادیان کی طرح سارے مسلمان بھی  امام مہدی کے منتظر ہیں، اہلِ اسلام اپنے نیک اعمال کو امام مہدی کی دنیا میں جلد آمد کا زمینہ قرار دیتے ہیں۔ ہر مسلمان امام مہدی ؑ کا سپاہی اور ناصر بننے کی دِلی خواہش رکھتا ہے۔

تاریخِ بشیریت کے اوراق گواہ ہیں کہ کسی بھی وباء، آفت یا آزمائش کے وقت امام مہدیؑ کا انتظار شدت اختیار کر لیتا ہے۔ حالیہ وباء کے دوران بھی اس شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ آزمائشوں سے قبل یا بعد دو چیزیں دیکھنے میں آتی ہیں، ایک وبا اور دوسرے جھوٹے مسیحا۔ ان جھوٹے مسیحاوں یا جنجالی شخصیات میں سے ایک سید محمد جونپوری ہیں، ہندوستان کے رہنے والے سید محمد جونپوری نے پندرہویں صدی عیسوی میں مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ میاں جونپوری نے حج سے فارغ ہوتے ہی حجرِ اسود اور رکن کے درمیان مہدی ہونے دعویٰ کیا۔ انہوں نے واپسی پر مختلف حکمرانوں کو اپنی بیعت کے خطوط بھی لکھے۔ اسلامی روایات میں درج ہے کہ امام مہدی عج کا لشکر 313 سے زائد ہوگا اور اُن کا نام محمد ہوگا۔ لہذا محمد جونپوری نے اپنے نام محمد، قبیلہ سادات ہونے اور اپنی علمی قابلیت سے سوئے استفادہ کرتے ہوئے ایک لشکر بھی تیار کیا۔ ساتھ ہی اپنے معتقدین میں بھی اضافہ کرلیا۔ دعویٰ مہدویت کے باوجود تمام معاصرین نے جونپوری کی علمیت اور پرہیزگاری سے انکار نہ کیا اور ان کے معتقدین نے الگ سے فرقہ یا مہدویہ جماعت تشکیل دی، جو تحریک کی شکل اختیار کرگئی۔

وہ 901 ھ میں ہند میں واپس آئے، ہند میں گجرات ان کا مسکن تھا، گجرات سے دکن اور بعد ازاں احمد آباد تک کے لوگ ان کی تحریک میں شامل ہوتے رہے۔ مذکورہ جماعت کے لوگ اورنگزیب عالمگیر، سلطان ٹیپو کے ملازموں اور وزراء میں مہدوی جماعت کے افراد بھی شامل ہوئے۔ بعد ازاں علمائے دین کے مطالبے پر محمود شاه‌ کبیر گجراتی‌ نے انہیں گجرات سے باہر کیا، پھر وہ سندھ کی طرف نکل گئے، سندھ کے حاکم نے ان کے قتل کا حکم جاری کیا، البتہ اطرافیوں کی مداخلت کی وجہ سے صرف جلاوطنی پر اکتفا کیا گیا۔ پھر انہوں نے آٹھ سو افراد کے ہمراہ خراسان کی طرف سفر کیا، قندھار کا والی میرزا شاه‌ بیگ‌ اُن کا معتقد ہوگیا۔ قندہار کے بعد انہوں نے افغانستان کے مغربی علاقے فَراه‌ کا رُخ کیا، فَراہ کے حاکم امیر ذوالنون‌ نے اُنہیں اپنے دربار میں طلب کیا اور علماء کو اُن کے بارے میں تحقیق کا حکم دیا، اس میں نو ماہ بیت گئے، علماء کی تحقیق مکمل ہونے سے پہلے ہی مہدی جونپوری کی وفات فَراہ میں ہوگئی۔

مہدی جونپوری کا نام برصغیر میں گونجا۔ بعض اہل الرائے مخالف اور کچھ حامی تھے۔ بیسیوں افراد اس فرقہ میں اس لیے شامل ہو رہے تھے، کیونکہ اس کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ قیامت کا ہر وقت انتظار کرتے اور دنیا کی ناپائیداری پر زور دیتے اور اکثر افراد غرباء میں اپنا مال تقسیم کر دیتے تھے۔ یہ امور لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتے اور وہ اس جماعت کا حصہ بن جاتے۔ فَراہ میں آج بھی ان کی قبر اُن کے پیروکاروں کی زیارت گاہ ہے۔ بعض کے مطابق وہ منصور حلاج کی طرح ایک صوفی تھے اور جیسے منصور اناالحق کہتے تھے، اسی طرح وہ بھی انالمھدی کہتے تھے، ان کے اناالمھدی کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میں ہدایت یافتہ ہوں، نہ کہ میں امام مہدی ہوں، ان کے نزدیکی افراد کا یہ بھی کہنا تھا کہ اناالمہدی کا نعرہ وہ صرف عالمِ مجذوبیت میں لگاتے تھے۔ جب وہ اس مدہوشی سے باہر آتے تھے تو حضرت امام مہدی ؑ پر ایمان رکھتے تھے اور ایسا کوئی دعویٰ نہیں کرتے تھے۔

ان کے بعد ان کا بیٹا سید محمود ان کا جانشین بنا، جسے گجرات کے حاکم نے زندان میں ڈال دیا اور وہ گجرات کے زندان میں ہی فوت ہوگیا۔ اس کے بعد خواند میر نامی شخص اس جماعت کا امیر بنا، جسے پہلے سے زیادہ مخالفت اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ گجرات کے علماء نے ان کے ہم عقیدہ لوگوں کے قتل کو واجب قرار دیا، جس کے بعد خواند میر کے پیروکاروں اور گجرات کے علماء کے پیروکاروں کے درمیان خونریز جنگ ہوئی، جس میں خواند میر اپنے بہت سارے معتقدین کے ہمراہ مارا گیا، یوں یہ جنگ فیصلہ کن ثابت ہوئی اور اس کے بعد یہ تحریک دب گئی۔ ان کے مخالفین میں شیخ‌ ابن‌حجر مکی‌، شیخ‌ عبدالحق‌ محدّث دہلوی‌، شیخ‌ اسعد مکی‌ و محمد زمان‌ شاه‌ جهانپوری کے نام سرِفہرست ہیں۔
خبر کا کوڈ : 856796
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش