0
Wednesday 15 Apr 2020 14:14

امریکہ کی طرف سے عالمی ادارہ صحت کی امداد بند کرنیکا پس منظر

امریکہ کی طرف سے عالمی ادارہ صحت کی امداد بند کرنیکا پس منظر
تحریر: ثاقب اکبر

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کورونا وائرس کی طرف سے دی جانے والی بریفنگ کے دوران میں عالمی ادارہ صحت کے لئے فنڈنگ روکنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ اعلان کئی دنوں سے متوقع تھا۔ گذشتہ ہفتے امریکی صدر نے ڈبلیو ایچ او کی امداد بند کرنے کی دھمکی دی تھی، جس پر اب عملدرآمد کا اعلان کیا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ڈبلیو ایچ او پر طرح طرح کے الزامات عائد کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث زیادہ ہلاکتوں کا ذمہ دار ڈبلیو ایچ او ہے۔ کئی ممالک ڈبلیو ایچ او کی بات مان کر اب زیادہ مشکلات کا شکار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ دنیا میں ہر طرح کی غلط معلومات پہنچائی گئیں، جن میں ہلاکتوں کے بارے میں غلط معلومات بھی شامل ہیں۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ اگر ڈبلیو ایچ او چین میں جا کر اس وبا کا جائزہ لیتا تو زیادہ زندگیاں بچائی جاسکتی تھیں۔ ان کا اس وبا کو ظاہر کرنے کے لیے چین پر انحصار کرنا ہی دنیا بھر میں کیسز کو بیس گنا زیادہ بڑھانے کا باعث بنا اور شاید یہ اس سے بھی زیادہ ہو۔ امریکی صدر نے ڈبلیو ایچ او پر الزام عائد کیا کہ انھوں نے زندگیاں بچانے کے بجائے سیاسی بنیادوں پر فیصلے کیے ہیں اور وبا کے بارے میں چین کے دعووں کو فوری تسلیم کیا ہے۔

امریکی صدر کے اس فیصلے کے بعد اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ وقت آئے گا جب ہم دیکھ سکیں گے کہ وبا کیسے پھیلی اور عالمی سطح پر اس سے اتنی تباہی کیسے ہوئی، لیکن ابھی یہ ایسا وقت نہیں کہ عالمی ادارہ صحت کی امدادی کارروائیوں کے لیے اس کے وسائل کم کر دیئے جائیں۔ یاد رہے کہ 26 مارچ 2020ء کو جی20 کے قائدین نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے عالمی ادارہ صحت کو وسیع اختیارات دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ انھوں نے طے کیا تھا کہ وبا سے نمٹنے کے لیے عالمی ادارہ صحت کے منصوبوں پر عملدرآمد سے متعلق بجٹ خسارہ پورا کیا جائے گا۔ عام طور پر دنیا کے ممالک میں کورونا وائرس کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت کی راہنمائی کو اپنے فیصلوں میں پیش نظر رکھا ہے۔

امریکہ کے اندر اور باہر بہت سے تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ صدر ٹرمپ ایک مذمتی صدر بن چکے ہیں۔ وہ دنیا میں اور خود اپنے ملک کے اندر جس کی چاہتے ہیں اور جس انداز سے چاہتے ہیں، مذمت کرتے ہیں، وہ دھمکیاں دینے میں دوست اور دشمن میں بھی تمیز کے روادار نہیں۔ وہ دوسروں کا تمسخر اور استہزاء بھی کرنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ ان خصوصیات کے اعتبار سے وہ امریکہ اور دنیا کے دیگر قائدین پر پہلے ہی بازی لے جا چکے ہیں۔ چنانچہ امریکی ایوان نمائندگان کی وزارت خارجہ کی کمیٹی کے چیئرمین ایلیٹ اینجل نے کہا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کے بارے میں امریکی صدر کے فیصلے سے بحران کی صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔ صدر دراصل ایسے فیصلے کرکے اپنا سیاسی رویہ ظاہر کر رہے ہیں۔ وہ کبھی عالمی ادارہ صحت پر الزام لگاتے ہیں، کبھی چین پر الزام پر لگاتے ہیں، کبھی اپنے سیاسی حریفوں پر الزام لگاتے ہیں اور کبھی اپنے سے پہلے کے سربراہوں پر الزام عائد کرتے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جسنڈا آرڈن نے کہا ہے کہ ایسے وقت میں ہمیں معلومات کا تبادلہ کرنا چاہیئے اور ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں ایسی ہدایات ملیں جن پر ہم عملدرآمد کر سکیں۔ ایسا عالمی ادارہ صحت نے کیا ہے، ہم اس کی حمایت جاری رکھیں گے۔

ایک طرف امریکی صدر ڈبلیو ایچ او کی دی جانے والی امریکی امداد روکنے کے لیے دھمکیاں دے رہے تھے تو دوسری طرف عالمی ادارہ صحت کے سربراہ سے استعفیٰ سے متعلق مطالبات بھی سامنے آرہے تھے۔ اس ضمن میں ایک آن لائن پٹیشن کا بھی آغاز کر دیا گیا تھا، جس پر اب تک نو لاکھ کے قریب افراد نے دستخط کر دیئے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ اس پٹیشن کے پیچھے بھی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کا ہاتھ ہے۔ اس پٹیشن میں ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیدروس ایڈہانوم سے جلد از جلد عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ٹیدروس ایڈہانوم 2017ء میں پانچ سال کے لیے عالمی ادارہ صحت کے سربراہ منتخب ہوئے تھے۔ ان کا تعلق ایتھوپیا سے ہے، وہ ڈبلیو ایچ او کے پہلے ڈائریکٹر جنرل ہیں، جو پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہی نہیں بلکہ وہ سیاستدان اور سماجی راہنما بھی ہیں۔ وہ ماضی میں ایتھوپیا کے وزیر صحت اور وزیر خارجہ رہے ہیں، جبکہ انھیں افریقہ میں ایڈز اور ملیریا کو کنٹرول کرنے کی منصوبہ بندی کے حوالے سے انتہائی اہمیت حاصل ہے۔

یاد رہے کہ گذشتہ برس ڈبلیو ایچ او کو امریکا نے چار سو ملین ڈالرز کی رقم عطیہ کی تھی۔ امریکی وزیر خارجہ پمپیو نے اس موقع پر اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے ماضی میں بہت اچھا کام کیا ہے، لیکن بدقسمتی سے اس موقع پر یہ اپنا کردار ادا نہیں کرسکا۔ پمپیو نے کہا کہ ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ عالمی ادارہ صحت میں تبدیلیاں کی جائیں اور اس کے بعد یہ اہم ادارہ امریکیوں کو محفوظ بنا سکے۔ امریکی صدر اور وزیر خارجہ کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ امریکا اس طرح کے کٹھ پتلی افراد کو اقوام متحدہ کے اداروں کے اوپر دیکھنا چاہتا ہے، جو سو فیصد ان کے مقاصد کے آلہ کار ہوں۔ دوسری طرف امریکی صدر کوئی موقع ایسا ضائع نہیں کرنا چاہتے کہ جس سے عالمی سطح پر اپنے سب سے بڑے حریف چین کو ہدف تنقید نہ بنائیں۔ علاوہ ازیں داخلی طور پر کورونا وائرس کے حوالے سے امریکہ میں جو تباہی آئی ہے، اس کے لیے امریکی صدر اپنے کندھے پر کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ وہ ان تمام اموات اور وائرس کے پھیلاﺅ کی ذمہ داری دوسروں کے کندھوں پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ وہ ڈبلیو ایچ او کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں، علاوہ ازیں چین کو بھی ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔

دیگر کئی ممالک کا طبی سامان چرانے سے بھی گریز نہیں کر رہے۔ خود امریکی ریاستوں کے گورنروں کو بھی وائرس کے پھیلنے کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان سب ذمہ داروں میں سے اصل ذمہ دار کون ہے۔ وہ دوسروں کو ذمہ دار قرار دے کر آئندہ انتخابات میں ان ساری مصیبتوں سے اپنے آپ کوبری الذمہ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف مختلف ریاستوں کے گورنر امریکی صدر کے اس طرز عمل سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ پانچ امریکی ریاستوں نے وفاق سے ہٹ کر کورونا کے بارے میں پالیسی بنانے کا اعلان کیا ہے، جن میں نیویارک کے گورنر بھی شامل ہیں، جن کا کہنا ہے کہ امریکی صدر بادشاہوں کی طرح برتاﺅ کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے نیویارک کے گورنر کومو کو اپنی ٹویٹ میں تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ وہ ہر گھنٹے فون کرتے ہیں اور ہر چیز مانگ رہے ہیں، جن میں سے بیشتر ریاست کی ذمہ داری ہونا چاہیئے تھی۔ جیسا کہ نئے ہسپتال، بستر، وینٹی لیٹر وغیرہ، میں نے ان کے لیے اور باقی سب کے لیے اس سب کا انتظام کروایا، لیکن اب وہ آزادی چاہتے ہیں، ایسا نہیں ہوگا۔

صدر ٹرمپ کے اس ٹویٹ سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ امریکہ میں صورت حال رفتہ رفتہ کس طرف بڑھ رہی ہے۔ معاملات امریکی صدر کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں اور مختلف ریاستوں میں آزادی کی خواہش نمایاں ہو رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی آزادی بھی چھیننے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اقوام متحدہ کے اداروں کے لیے جو امریکی امداد فراہم کی جا رہی ہے، آہستہ آہستہ ان پر مزید کٹوتیاں لگائی جائیں، چنانچہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کو بھی امریکی صدر دھمکی دے چکے ہیں۔ ان تمام حالات میں دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلی ہوئی امریکی فوجی مشینری اپنے اپنے مقام پر کب تک متعین رہے گی اور مختلف امریکی ریاستوں میں وفاق کی فوجی مداخلت کا امکان کب پیدا ہوگا۔ کورونا وائرس اپنے وار کیے جا رہا ہے اور پردے کی اوٹ سے نئے حوادث نمودار ہو رہے ہیں۔ آئندہ چند ماہ میں مزید کیا ہوتا ہے، اس کے لیے حالات پر نظر رکھنا ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 856869
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش