0
Thursday 16 Apr 2020 11:08

تاریخی شہادت کے سو دن

تاریخی شہادت کے سو دن
اداریہ
مقاومتی و استقامتی بلاک کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور الحشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر ابو مہدی مہندس کی لہو رنگ شہادت کو ایک سو دن مکمل ہوچکے ہیں۔ یہ عظیم سانحہ تین جنوری 2020ء بروز جمعۃ المبارک صبح کے وقت رونماء ہوا۔ امریکہ کے اس دہشت گردانہ حملے میں جنرل قاسم سلیمانی اور ابو مہدی مہندس سمیت آٹھ افراد شہید ہوئے۔ امریکہ نے یہ دہشت گردانہ کارروائی کیوں انجام دی اور اس کے کیا مقاصد تھے، اس پر بہت کچھ لکھا اور بولا جا چکا ہے۔ ایک سو دن کے بعد اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کرنا چاہیئے کہ امریکہ کو مطلوبہ اہداف و مقاصد حاصل ہوئے ہیں یا نہیں؟ عالمی، علاقائی اور ایران کی داخلی حالات کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

اب واضح طور پر کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ کو ان تینوں سطحوں پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ عالمی سطح پر امریکہ کی اس دہشت گردانہ کارروائی کو چند امریکی اتحادیوں کے علاوہ کسی نے بھی پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھا۔ عالمی برادری نے امریکی صدر کے اس اقدام کو عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا اور یوں بھی ایران کی طرف سے جوابی کارروائی کی وجہ سے معروف اور زمانہ شناس تجزیہ نگاروں نے ڈونالڈ ٹرامپ کو آئندہ کی کسی بھی ممکنہ بدامنی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ علاقائی سطح پر دیکھیں تو امریکہ کو کئی محاذوں پر پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ امریکہ جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کرکے مقاومت و مزاحمت کے بلاک کو کمزور کرنا چاہتا تھا۔

لیکن جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت مقاومتی بلاک کی محبوبیت اور ہردلعزیز ہونے کا باعث بنی۔ عراق، شام، یمن اور لبنان وغیرہ میں مجاہدین کو نیا حوصلہ ملا اور ایران کی طرف سے عین الاسد کی کامیاب کارروائی کے بعد تو امریکہ کے اتحادی منہ چھپاتے پھر رہے تھے، جبکہ مقاومت و استقامت کے حامی سینہ تان کر عالمی طاقتوں کو کھلے عام للکار رہے تھے۔ ایران میں حاج قاسم سلیمانی نے انقلاب اسلامی اور ایران کی موجودہ حکومت کو ایک نیا جوش و جذبہ عطا کر دیا۔ اسی لیے تو آج اکثر تجزیہ کاروں کی زبان پر یہ جملہ جاری ہے کہ امریکی سامراج کے لیے شہید قاسم سلیمانی زندہ حاج قاسم سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 857077
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش