1
Thursday 16 Apr 2020 18:20

اندھیروں میں ڈوبے پاکستان کی پاور سیکٹر مافیا، ہوش رباء انکشافات

اندھیروں میں ڈوبے پاکستان کی پاور سیکٹر مافیا، ہوش رباء انکشافات
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

کرپشن کے خاتمے اور شفاف نظام لانے کے دعوے اور وعدے پہ اقتدار میں آنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں اربوں روپے کے اسکینڈل سامنے آ رہے ہیں۔ سابقہ حکومتوں کی طرح متعدد بیساکھیوں کے سہارے بنائی گئی حکومت کے اہم ستون جہانگیر ترین چینی اسکینڈل کے اہم کردار کے طور پر سامنے آ چکے ہیں۔ وہ حکومت کو دھمکیاں بھی دے رہے، حکومتی صفوں میں براجمان وزراء انکی حمایت میں بول بھی رہے ہیں اور خاموش حمایت بھی کر رہے ہیں۔ ابھی چینی اسکینڈل کی حتمی رپورٹ سامنے نہیں آئی اور پاور سیکٹر کا اسکینڈل سامنے آ چکا ہے۔ موجودہ حکمرانوں کی گھبراہٹ بتا رہی ہے کہ یہاں بھی لوٹ مار کرنے والوں کی سرپرستی ایوان اقتدار میں بیٹھے لوگ ہی کر رہے ہیں۔ دوغلے پن کی سیاست کی انتہاء یہ ہے کہ عمران خان نے کسی بھی ملوث شخص سے استعفیٰ نہیں لیا، نہ ہی اپنا نعرہ دہرایا کہ کاروباری لوگوں کو سیاست کے ذریعے اقتدار میں نہیں آنا چاہیے۔

میڈیا بھی آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔ کرپشن پورے معاشرے اور نظام میں سرایت کر چکی ہے۔ اس کے باوجود پاور سیکٹر سکینڈل پر وزیراعظم عمران خان کو پیش کی گئی انکوائری رپورٹ نے وزیراعظم آفس سمیت حکام بالا کی نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 13 برسوں کے دوران سبسڈی اور گردشی قرضے کے باعث قومی خزانے کو 4802 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ کیونکہ یہ بڑی سطح کی کرپشن ہے، اربوں کا ہیر پھیر ہے، جو حکومت کی سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں ہوتا، اس لیے عمران خان کے معاون خصوصی توانائی ندیم بابر پاورسکینڈل رپورٹ کی مخالفت میں کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اس رپورٹ میں سفارشات بھی دی گئی ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کمیشن نے زیادہ توجہ کے ساتھ کام کیا ہے۔ انکوائری رپورٹ میں گردشی قرضے اور بجلی کے نرخوں میں کمی کیلئے ہنگامی بنیادوں پر تجویز کردہ اقدامات اٹھانے کی سفارش کی ہے۔

1994ء سے 2019ء تک، سرمایہ کاری کے نام پر لوٹ مار کی تفصیل:
1994ء کی پاور پالیسی کے مطابق 17 میں سے 16 آئی پی پیز نے 50 ارب 80 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی اور 415 ارب روپے سے زائد کا منافع حاصل کیا۔ زیادہ تر آئی پی پیز کے پے بیک کا دورانیہ 2 سے 4 سال کے درمیان تھا۔ وزیراعظم کی ہدایت پر 32 آئی پی پیز کیساتھ پانچ نکاتی مذاکرات ہوئے۔ موصول انکوائری رپورٹ کے مطابق 1994ء کی پاور پالیسی کے تحت 16 آئی پی پیز نے سرمایہ کاری کی مناسبت سے 18 گنا زیادہ منافع حاصل کیا گیا۔ 6 کمپنیوں نے ایکوٹی پر اوسطاً 60 سے 79 فیصد ریٹرن حاصل کیا، جبکہ 4 کمپنیوں نے 40 فیصد کے قریب ایکوٹی پر ریٹرن حاصل کیا۔

دوسرے شعبوں کے مقابلے میں یہ منافع کئی گنا زیادہ رہا۔ حکومت کو تجویز دی گئی کہ آئی پی پیز کیلئے بیس ٹیرف ڈالر سے روپے میں منتقل کر دیا جائے۔ کمیٹی نے تمام آئی پی پیز کی فرانزک تصدیق اور قانونی آڈٹ کی بھی تجویز دی ہے۔ 1994ء اور 2002ء کی پاور پالیسی کے تحت قائم کیے جانے والے جینکوز اور آئی پی پیز کو ریٹائر کر دیا جائے۔ 2002ء کی پاور پالیسی کے مطابق 13 ریزی ڈوول فیول آئل اور گیس سے چلنے والے پلانٹ قائم کیے گئے، جن کی پیداواری صلاحیت 2934 میگاواٹ ہے۔ گزشتہ 8 سے 9 سال کے دوران ان کمپنیوں نے 57 ارب 81 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کے بدلے 203 ارب روپے کا منافع کمایا۔ قرضوں کی ادائیگی کے باوجود کمپنیوں نے 152 ارب روپے کمائے، جبکہ ڈیویڈنڈ کی مد میں 111 ارب کی ادائیگی کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق کمپنیوں کی انفرادی منافع کی شرح مختلف رہی، جس کے مطابق کچھ کمپنیوں کو زائد منافع حاصل ہوا۔ سب سے زیادہ ایکوٹی پر87 فیصد ریٹرن کمایا گیا۔

کوئلے سے چلنے والے دو در آمدی پلانٹس سے متعلق رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2015ء کی پاور پالیسی کے تحت قائم کیے جانے والے ایک پلانٹ نے صرف دو سال کے دوران سرمایہ کاری کی 71 فیصد رقم حاصل کی، جبکہ دوسرے پلانٹ کی جانب سے پہلے سال کے دوران ہی سرمایہ کاری کی 32 فیصد رقم حاصل کی جا چکی ہے۔ دونوں پلانٹس کو امریکی ڈالر کے تحت 17 فیصد انٹرنل ریٹ آف ریٹرن کی پیشکش کی گئی، جو کہ ایکوٹی پر 27 فیصد بنتا ہے۔ گزشتہ دو سال کے دوران روپے کی قدر میں کمی کے باعث دونوں پلانٹس کی ایکوٹی پر ریٹرن 43 فیصد ہے۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق مالی سال 2005ء سے مالی سال 2010ء کے دوران ملک میں بجلی کی لاگت 148 فیصد، جبکہ بین الاقوامی تیل کی قیمتوں میں اضافے وجہ سے اوسط ٹیرف میں بجلی کی پیداوار میں فرنس آئل کا استعمال، روپے کی قدر میں کمی کی صورت میں 33 فیصد اضافہ ہوا۔ گردشی قرضے میں 2000ء کے اواخر میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔

تمام حکومتوں کی جانب سے بجٹ میں تعاون کے ذریعے اس پر قابو پانے کی کوشش کی گئی۔ پاور سیکٹر کو مالی سال 2007ء سے مالی سال 2019ء کے دوران میں بجٹ میں 3202 ارب روپے کی سپورٹ کی گئی۔ جس میں بجٹ میں سبسڈی کے ذریعے 2860 ارب، جبکہ دوسرے ذرائع سے 342 ارب روپے فراہم کیے گئے۔ اس کے باوجود گردشی قرضہ مالی سال 2019ء میں 465 ارب روپے سے بڑھ کر 1600 ارب روپے تک جا پہنچا۔ جس سے قومی خزانے کو گزشتہ 13 سال کے دوران 4802 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ مالی سال 2019ء کے دوران سسٹم میں ہر 100 یوانٹس کے تین یونٹ ترسیل کے دوران کم ہو جاتے ہیں اور ڈسکوز لیول کے دوران 17 یونٹ نا اہلیت کے باعث ختم ہو جاتے ہیں۔ 1344 ارب روپے کے مکمل پی پی پی کے دوران ختم ہونے والے یونٹس کی لاگت 30 ارب روپے ہے، جبکہ ریکوری کے دوران 120 ارب روپے ضائع ہوئے۔ نجی سیکٹر کے ڈسکوز سے دسمبر 2019ء میں قابل وصول رقم 628 ارب روپے تھی۔ جس میں رننگ ڈیفالٹر کے 525 ارب جبکہ غیر منقطع ڈیفالٹر کے 103 ارب روپے شامل ہیں۔ رننگ ڈیفالٹر کی جانب سے بجلی کی فراہمی کے باوجود ادائیگی نہیں کی جارہی۔ 2007ء میں قومی قرض 52 فیصد تھا، جو کہ مالی سال 2019ء میں 85 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ قومی قرض میں 33 فیصد اضافے سے حکومت کی جانب سے پاور سیکٹر کی معاونت کرنا ممکن نہیں رہا۔

انکوائری رپورٹ میں پاور سیکٹر کیلئے دی گئی سفارشات:
رپورٹ میں آئی پی پیز کا فرانزک آڈٹ، سبسڈی اور گردشی قرضے میں صوبوں کی شمولیت، آئندہ 5 سال تک نیا پاور پلانٹ لگانے پر پابندی، زیرتعمیر پاور پلانٹس پر نظرثانی، 25 سال پورے کرنے والے پاور پلانٹس سے بجلی خریداری ترک اور کے الیکٹرک کے 1600 میگا واٹ کے نئے پاور پلانٹ کی تنصیب روکنے سمیت اہم سفارشات شامل ہے۔ گردشی قرضے میں کمی کیلئے مندرجہ ذیل تجاویز دی گئیں۔ وفاقی، صوبائی حکومتوں، آزاد کشمیر اور کے الیکٹرک سے ڈسکوز کو وصول ہونے والے بقایا جات ڈسکوز کے مکمل بقایا جات کا 26 فیصد ہیں، جن کو وصول کرنا ضروری ہے تاکہ گردشی قرضے کے بقایا جات میں کمی لائی جا سکے۔ آئی پی پیز اور ان کے فرانزک آڈٹ سے مشاورت کے بعد وصول ہونے والی رقم کو گردشی قرضے کے اسٹاک میں ایڈجسٹ کیا جانا چاہیے۔ بین الاقوامی تیل کی کم قیمتوں سے فائدہ حاصل کیا جائے اور سالانہ 20 ارب لیٹر پیٹرول اور ڈیزل کی کھپت پر 5 روپے فی لیٹر چارج سے 100 ارب روپے اضافی ریونیو حاصل کیا جا سکتا ہے۔

عمران خان کے معاون خصوصی کی جانب سے رپورٹ کی مخالفت:
زائد فیول کی لاگت پاکستان میں مہنگی بجلی کی بڑی وجہ رہی ہے، لیکن اب سنو بالنگ کیپسیٹی پیمنٹ بڑا مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ علاوہ ازیں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی ندیم بابرنے پاور سیکٹر سکینڈل کی انکوائری رپورٹ کی مخالفت میں کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ ندیم بابر نے وفاقی وزیر پاور ڈویژن اور آئی پی پیز کیساتھ 6 رکنی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ عمر ایوب کو پانچ صفحات پر خط لکھ دیا ہے۔ خط کے ذریعے ندیم بابر نے انکوائری رپورٹ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ وفاقی وزیر عمرایوب کی سوچ بدلنے کی کوشش کی ہے۔ حیران کن طور ندیم بابر کی وزیراعظم کی پالیسی کی بجائے آئی پی پیز کے دفاع میں مصروف ہوگئے ہیں۔ ندیم بابر خود آئی پی پی اورینٹ پاور میں حصہ دار ہیں۔

معاون خصوصی ندیم بابر کے خط کی کاپی کے مطابق انکا کہنا ہے کہ میں انکوائری رپورٹ سے مایوس ہوا ہوں۔ انکوائری رپورٹ میں پاور پلانٹس سے متعلق غلط حقائق پیش کئے گئے ہیں۔ میں ستمبر 2018ء سے آئی پی پیز کو معاہدوں پر نظرثانی کے ذریعے ٹیرف کم کروانے کیلئے کوشاں ہوں۔ انکوائری رپورٹ نے میری کاوشوں کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ انکوائری رپورٹ نے مجھے مایوس کردیا ہے۔ صرف چند آئی پی پیز اضافی منافع کمایا، انکے ساتھ ٹیرف میں کمی پر بات ہونی چاہیے۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق ندیم بابر کے پاور پلانٹ اورینٹ نے 2015-16 ء میں فیول کھپت کی مد میں 2 ارب روپے اضافی منافع کمایا۔ ندیم بابر اپنے پاور پلانٹ اورینٹ پاور کی بھی وضاحت پیش کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ میں اورینٹ پاور میں حصہ دار ہوں، 2 ارب نہیں صرف 16 کروڑ روپے فیول کھپت میں بچائے۔ ندیم بابر نے عمر ایوب کو سفارش کی ہے کہ آئی پی پیز پر الزامات کی بجائے اعتماد کا ماحول بنائیں۔ ماضی میں ناقص پلاننگ کی گئی۔ اضافی پاور پلانٹس لگ چکے ہیں۔ ملکی طلب کے پیش نظر اضافی پاور پلانٹس 6 ماہ بند رہیں گے۔ جنریشن پلاننگ کا فقدان تھا۔

ندیم بابر کے طرزعمل اور جھوٹ اور تضادات پر مبنی موقف کے بعد حکومتی سطح پر پیش کیا گیا موقف کس قدر منافقانہ اور غیرمنصفانہ ہے۔ اہم حکومتی شخصیت نے ندیم بابر کے خط پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ندیم بابر کو آئی پی پیز کے دفاع کی بجائے مستعفی ہوجانا چاہئے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی کے طور پر انہیں وزیراعظم اور حکومتی پالیسی کا ساتھ دینا چاہئے۔ وزیراعظم اور حکومت کی پالیسی کیا ہے، جس پر ندیم بابر کو ساتھ دینا چاہیے، وہ یہی تو ہے، جس کے نتیجے میں سرمایہ کار اور کاروباری حضرات ایوان اقتدار میں براجمان ہیں۔ اس سے نہ صرف ملک کی جڑوں کو کرپشن کا دیمک کمزور کرتا رہیگا بلکہ پاکستانی عوام کیلئے ایک طرف مشکلات میں اضافہ ہوگا اور دوسرا لوگ ملکی نظام اور حکمرانوں سے بیزار اور مایوس ہونگے، جسکے نتائج بھیانک ہو سکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 857105
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش