1
Friday 17 Apr 2020 17:16

کرونا سے نجات! توکل اور احتیاط

کرونا سے نجات! توکل اور احتیاط
تحریر: عبدالحسین آزاد

عالمگیر وبا کرونا دنیا میں ابھی عروج پر ہے، یہ وبا اب تک ایک لاکھ چھیالیس ہزار سے زیادہ قیمتی انسانی جانیں نگل چکی ہے۔ دنیا عجیب اضطراب کا شکار ہے، ہر کوئی پریشانی میں مبتلا ہے، حالات کی سنگینی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ لوگ اب اپنے آپ کو اپنے خاندان میں بھی محفوظ تصور نہیں کرتے۔ بقول جون ایلیا
اب تو سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
یقیناً موجودہ حالات میں ہمیں ایک دوسرے سے بچ کر نکلنا اور ضروری فاصلہ برقرار رکھنا چاہیئے، جسے طبی زبان میں سوشل ڈسٹنس Social Distance کہتے ہیں۔ کرونا کو خطرناک اس لیے تصور کیا جاتا ہے کہ یہ انسانی جانوں کو نگلنے کے ساتھ ساتھ انسانی نفسیات کو بھی بری طرح متاثر کرتا ہے۔ لوگ جیتے جی کرونا کے خوف سے مرنے لگے ہیں، کرونا فرد واحد کی موت نہیں بلکہ سماج کی موت بن کر سامنے آرہا ہے اور کرونا کا خوف خاص طور پر یورپ میں سرائیت کرچکا ہے۔ سپر پاور جیسی سفاک ظالم طاقتیں بھی کرونا کے سامنے بے بس نظر آرہی ہیں، کیونکہ آج سے پہلے انہیں اپنی سائنسی ایجادات، طبی آلات، جدید ٹیکنالوجی اور بائیو کمیکل ہتھیاروں کا گھمنڈ تھا، لیکن آج مایوسی کے بادلوں نے اس غرور کو خاک میں ملا دیا ہے۔

پریشانی کا عالم یہ ہے کہ سپر پاور کا صدر خود حواس باختہ ہوچکا ہے اور شرح اموات بھی زیادہ ہیں، کاروبار زندگی میں مندی کا رجحان ہے، چالیس سال سپرپاور نے جس ملک کو پابندیوں کے شکنجے میں جکڑے رکھا تھا، آج وہی مملکت اسلامی جمہوریہ ایران امریکہ کے لیے محض انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی پیشکش کر رہا ہے۔ اگرچہ کرونا سے دنیا بھر کے ممالک متاثر ہوئے ہیں اور اسلامی ممالک خاص طور پر ایران بھی سخت متاثر ہوا اور پاکستان متاثر ہونے جا رہا ہے، مگر اسلامی ممالک میں خوف و ہراس یورپی ممالک کی نسبت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایک لمحے کے لیے رکیئے اور سوچ لیجیئے کہ کیوں آخر دنیا کی تباہ حال معیشت اور بنیادی ضروریات سے محروم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری تمام تر محرومیوں کے باوجود پرُامید ہیں اور یورپی ممالک میں جدید سہولیات کے باوجود خوف کیوں ہے۔؟؟ کیا آپ نے غور کیا ہے، اگر نہیں کیا تو یقیناً غور کرنا چاہیئے، یہ پہلو غور طلب پہلو ہے۔

ہم پرامید ہیں اور یہی امید ہمارا اثاثہ ہے، یہی امید ہے کہ جس سے مغرب پر ہمیں فوقیت حاصل ہے۔ یہی امید ہے، جس کے ساتھ ہم دنیا کی ہر مشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کو تیار ہیں۔ دراصل یہ امید جسے ہم امید کہتے ہیں، وہ ایمان ہے اور توکل ہے۔ توکل ایک مسلمان کی طاقت اور ہتھیار ہے، ایسا ہتھیار جو انسان کو کبھی شکست سے دو چار ہونے نہیں دیتا اور توکل کی اس قوت سے یورپ آشنا نہیں۔ بدقسمتی سے توکل کی یہ سپریٹ ہمارے اندر سے ختم ہوتی جا رہی ہے، بے صبری، بے چینی، مایوسی، ناامیدی کے بادل ہمیں اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری ہے۔ قرب الٰہی سے فراق ہے، سیرت محمد و آل محمد ﷺ سے کنارہ کشی اور قرآن پاک سے ناآشنائی ہے۔ انسان مایوس تب ہوتا ہے، جب وہ خود کو بے سہارا تصور کر لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مایوسی کو کفر کا نام دیا گیا ہے، کیونکہ ایک مسلمان تو بے سہارا نہیں۔

وہ مسلمان ہی نہیں، وہ جو بے سہارا ہو۔ ہمارا سہارا تو وہی ذات ہے، جس نے ہمیں وجود بخشا، جس کو فنا نہیں، امام حسین علیہ السلام کا میدان کربلا میں خطبہ ان پرُخطر حالات میں انسان کو سہارا دیتا ہے، جس پر عمل کی ضرورت ہے۔ میرے اور آپ کے امام فرماتے ہیں: "بارالہا! اگر میں تجھے کھو کر ساری دنیا کو پا لوں تو گویا میں نے کچھ نہیں پایا اور تجھے پا کر ساری دنیا کھو دوں تو گویا میں نے کچھ نہیں کھویا۔'' مایوسی کفر اسی لیے ہے، جب انسان مایوس ہوتا ہے تو رب پر سے توکل ختم ہو جاتا ہے اور یہیں سے شرک کی ابتدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تمام خطاؤں کو معاف کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، سوائے شرک کے "اور جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بیٹا اللہ کے سوا کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، بے شک شرک ظلم عظیم ہے۔"(القرآن سورہ لقمان آیت نمبر 13) احادیث میں بھی شرک کی شدید مذمت کی گئی ہے۔

ہم توکل سے شرک کی جانب بڑھے تھے، توکل کا خاتمہ ہوگا تو نتیجہ شرک کی صورت میں نکل آئے گا، توکل اور رب کی ذات پر کامل یقین ایمان کا حصہ ہے۔ انسان کے ہاتھ میں کاوش اور کوشش ہے، ہم دوا بھی لیتے ہیں تو وسیلہ سمجھ کر، کوشش بھی کرتے ہیں تو وسیلہ سمجھ کر، محنت بھی کرتے ہیں تو اس توکل کے ساتھ کہ رب اس کا اجر عنایت کرے گا۔ کیونکہ وہ ذات تو عظیم ذات ہے، عادل ہے، ہر انسان کے حق میں وہی ہوتا ہے، جو اس کے لیے اچھا ہو۔ محنت اور کوشش کے بعد نتیجہ اللہ کی ذات پر چھوڑنا ہی توکل ہے ''اور اسے رزق دیتا ہے، جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے، سو وہی اس کو کافی ہے، بے شک اللہ اپنا حکم پورا کرنے والا ہے، اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک پیمائش مقرر کر دی ہے۔''(ترجمہ القرآن سورۃ الطلاق آیت نمبر 3)

انسان کے ہاتھ میں کوشش اور اللہ پر توکل پر ہونی چاہیئے، توکل کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہیں، بلکہ آخری حد تک کوشش کرنا ہے، کوشش جاری رکھنا ہے۔ آج کل توکل اور رب پر یقین اور ایمان کی پختگی نہایت ہی ضروری ہے، تاکہ سود خوری، ناجائز منافع، ذخیرہ اندوزی اور چور بازاری سے باز آجائیں، جو کہ پاکستان کا بڑا مسئلہ ہے۔ ہمیں اس وقت اس وبا کا مقابلہ کرنا ہے اور اس کے لیے حکومتی، انتظامی و طبی ماہرین کی ہدایات پر من و عن عمل کرنا ہوگا اور تمام احتیاطی تدابیر کے ساتھ بارگاہ الہیٰ میں دعا و مناجات بھی اس وباء سے نجات کے لیے ضروری ہے۔ عزم و حوصلے اور ایک دوسرے کی مدد کے لیے توکل الہیٰ ہمارا سرمایہ ہے۔ پس احتیاطی تدابیر اختیار کرکے رب کی ذات پر توکل ہی کرونا کو شکست سے دوچار کر دے گا۔ ''اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔''(القرآن سورۃ الحمد آیت نمبر 5)۔ احتیاطی تدابیر کے ساتھ توکل ہو تو کسی کے آگے جھکنے اور سر خم کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔ خدا اس وباء سے عالم انسانیت کو محفوظ رکھے۔آمین
خبر کا کوڈ : 857287
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش