0
Saturday 18 Apr 2020 01:31

گلگت بلتستان میں بجتی خطرے کی گھنٹی اور ہماری ذمہ داریاں

گلگت بلتستان میں بجتی خطرے کی گھنٹی اور ہماری ذمہ داریاں
تحریر: محمد حسن جمالی

مختلف جہتوں سے گلگت بلتستان کا معاشرہ دیگر معاشروں کے لئے مثالی رہا ہے۔ دیانت داری اور امنیت اس کی پہچان رہی ہے۔ یہ خطہ اب بھی پاکستان کے دوسرے خطوں کی نسبت ترقی کے وسائل سے محروم ہے۔ آج تک پاکستانی حکمرانوں کی بے توجہی اور گلگت بلتستان کے کچھ مفاد پرستوں کی منافقت کے سبب اس خطے کے عوام قومی دھارے میں شامل نہ ہوسکے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ قومی حقوق سے محروم رہے، غربت کی فضا گلگت بلتستان کے معاشرے پر حاکم رہی۔ چنانچہ دین کے دشمنوں نے اس فقر کی حالت سے بھرپور سوء استفادہ کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے مختلف تنظیموں کو فنڈنگ کرکے گلگت بلتستان کے معاشرے میں فعال کیا۔ جن کا شعار ہی یہ رہا کہ ہم پسماندگی دور کریں گے، تعلیم عام کریں گے، غریبوں کی مالی مدد کریں گے اور بے روزگارجوانوں کو اپنے گھر کی دہلیز پر نوکری دیں گے وغیرہ۔

اس طرح دشمنوں نے مختلف طریقوں سے پورے گلگت بلتستان میں دین کے لئے نقصان دہ تنظیموں کا جال بچھا دیا، جن میں سرفہرست این جی اوز تنظیموں کا نام لیا جاسکتا ہے۔ اس وقت جوانوں کی ایک کثیر تعداد کے مالی مفادات انہی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔ وہ اپنی توانائیاں ان کی خدمات میں صرف کر رہے ہیں۔ بلاشبہ ایسی تنظیموں کا اصلی ہدف دین بیزاری ہے، نسل جدید کے اذہان میں دینی اقدار کی اہمیت گھٹانا ہے اور لوگوں کو مادی زرق و برق میں گرفتار کرکے دینی دستورات سے دور رکھنا ہے۔ اس ہدف کو حاصل کے لئے وہ لاکھوں کروڑوں کا سرمایہ خطہ بے آئین میں خرچ کر رہی ہیں۔ مختلف بہانوں سے جوانوں کے افکار کو مشوش کرنے کے لئے بے تحاشا پیسے مغرض افراد کے درمیان تقسیم کر رہی ہیں اور معاشرہ امن کے دامن میں پلنے بڑھنے والی جدید نسلوں کے پاکیزہ ذہنوں میں بے بنیاد نت نئے شبھات ایجاد کرکے ان کو روحانیت اور معنویت سے دور کرنے کے لئے مادی طاقت کے بل بوتے پر وہ مختلف حربے آزما رہی ہیں۔

چنانچہ زمینی حقائق کے پیش نظر استعماری طاقتیں اپنے اہداف میں کامیابی کی طرف رواں دواں دکھائی دیتی ہیں، کیونکہ ہم اپنی آنکھوں سے اس حقیقت کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ گلگت بلتستان کے متدین معاشرے میں انہی تنظیموں سے منسلک افراد کے ذریعے بے دینی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ چند سالوں سے بے حیائی کے مناظر ہمیں دیکھنے کو مل رہے ہیں، سکردو جیسے دین کا مرکز شمار ہونے والے مقام پر مردوں اور عورتوں کے مخلوط گانے، رقص کی محفلیں پوری شان و شوکت سے سج رہی ہیں۔ چند دن پہلے سوشل میڈیا پر اسی طبقے سے وابستہ ایک جوان نے تو کھل کر دین کا ہی مذاق اڑایا، اگرچہ عرصے سے فیس بک پر اس شخص کے بکواسات پڑھنے کو مل رہے تھے، مگر چند دن پہلے تو اس نے مغلظات کی انتہاء کر دی۔ اس نے دین کے ایک مسلمہ حکم (متعہ) کو نشانہ بنانے کی جرات کی، اس کے بعد سے تعلیم یافتہ جوان طبقہ سوشل میڈیا کے مختلف گروپس میں اسی پر بحث کرنے میں مصروف نظر آتا ہے۔

جب ہم نے ان کے کچھ پوسٹوں اور کمنٹس کا مطالعہ کیا تو اندازہ ہوا کہ ان کے خیالات مختلف ہیں۔ بنیادی طور پر دو طرح کی فکر کے حامل افراد دکھائی دیئے۔ کچھ تعلیم یافتہ جوانوں کا خیال تھا کہ اس شخص کے حوالے سے خاموشی اختیار کرنا مناسب ہے، دلیل یہ تھی کہ مغلظات بکنے والا شخص شہرت کا بھوکا ہے، وہ کسی نہ کسی طرح میڈیا اور عوام میں مشہور ہونا چاہتا ہے، اگر ہم اس سے بحث کرتے رہیں گے، اس کے بکواسات کے خلاف دفاع کرتے رہیں گے تو وہ اپنے ہدف میں کامیاب ہوگا۔ اس کے مقابلے میں دیگر بعض دانشوروں کا کہنا تھا یہ خاموشی کا وقت نہیں۔ ہمیں ہر حال میں اس کے مغلظات کے خلاف دفاع کرنا چاہیئے، خصوصاً جب اس نے ایک دینی مسلم حکم کے خلاف منہ کھولنے کی جرات کی ہے تو اس کا ہمیشہ کے لئے منہ بند کرنا ضروری ہے۔ یقیناً ان دونوں کا ہدف مقدس ہے، دونوں کی نیت خالص ہے، ہمیں ایسے جوانوں پر فخر ہے، جو جنگ نرم کا مورچہ سنبھال کر اقدار دینی کے دفاع میں مصروف رہتے ہیں۔

البتہ حالیہ موضوع کے حوالے سے دوسرے گروہ کی منطق کا پلڑا وزنی دکھائی دیتا ہے، کیونکہ جب کوئی دین کے مسلمہ احکامات کو داغدار کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی مخالفت کرنا فقط  ایک مستحسن عمل ہے بلکہ واجب ہے، کیونکہ یہ منکرات کا مصداق ہے اور نہی از منکر کرنا ہر مکلف کا دینی فریضہ ہے۔ البتہ اس کے لئے شیوہ پیغمری کی پاسداری کرنا ضروری ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بندے کو اتنی جرات کیسے ہوئی، کیا یہ کوئی اتفاق ہے؟ جواب یہ ہے کہ یہ کوئی اتفاقی نہیں بلکہ عرصہ دراز سے اس پر کام ہوا ہے، یہ اکیلا بھی نہیں، اس طرح کے بہت سارے جوانوں کو دین سے دور کرنے کے لئے دشمنوں نے سرمایہ خرچ کیا ہے، جس کے نتیجے کا یہ ایک نمونہ منظر عام پر نمودار ہوا ہے۔ شیطانی طاقتیں آہستہ آہستہ انسان کو گمراہی کی طرف لے جاتی ہیں۔ شیطان کے رفتہ رفتہ اور قدم بہ قدم اثر کو نہج البلاغہ میں یوں بیان کیا گیا ہے۔

فَبَاضَ: پہلے شیطان ان لوگوں کی روح میں انڈے دیتا ہے، وفَرَّحَ فِیْ صُدُورِھِمْ: پھر چوزے نکالتا ہے، اس کے بعد ودَبّ: شیطان کے چوزے انسان کی روح میں چاروں ہاتھ پاؤں سے حرکت کرتے ہیں۔ ودَرَج فی حجورھم: پھر یہ چوزے انسان کی گود میں اِدھر ادھر پھرنے لگتے ہیں۔ فنظر بأعینھم: اس کے بعد شیطان ان لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا ہے اور وہ عین اللہ کے بجائے عین شیطان ہو جاتی ہیں۔ وَ نطق بألسنتھم: اس کے بعد شیطان ان کی زبان میں بولنے لگتا ہے۔ فَرَکَبَ بھم الزَّلَلَ: پھر شیطان انہی افراد کے ذریعے دوسروں کی لغزش کا سامان بھی فراہم کرتا ہے۔ بدون تردید گلگت بلتستان میں خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے، پھر بھی عوام اور خواص بیدار نہ رہیں تو۔۔۔۔

آخر میں امر بالمعروف و نہی از منکر کی اہمیت کے بارے میں نہج البلاغہ سے مولای متقیان کے بعض فرمودات نقل کرتا ہوں توجہ فرمائیں۔ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: ''خدا وند متعال نے امر بمعروف کو اصلاح خلائق کے لیے اور نہی از منکر کو سر پھروں کی روک تھام کے لیے فرض کیا ہے۔''(۱) عبدالرحمٰن بن اُبی لیلیٰ فقیہ سے روایت ہے کہ میں نے علی علیہ السلام کو فرماتے سُنا ہے۔ ''اے صاحبان ایمان! جو شخص دیکھے کہ ظلم و عدوان پر عمل ہو رہا ہے، برائی کی طرف دعوت دی جا رہی ہے اور وہ دل سے اُسے بُرا سمجھے تو وہ (عذاب سے) محفوظ اور گناہ سے بری ہوگیا اور جو زبان سے اُسے بُرا کہے، وہ ماجور ہے اور صرف دل سے بُرا سمجھنے والے سے افضل ہے اور جو شخص شمشیر باکف ہو کر اُس برائی کے خلاف کھڑا ہو، تاکہ اللہ کا بول بالا ہو اور ظالموں کی بات گر جائے تو یہی وہ شخص ہے، جس نے ہدایت کی راہ کو پالیا اور سیدھے راستے پر ہولیا اور اس کے دل میں یقین نے روشنی پھیلا دی۔'' (۲)

''جو شخص کلمة اللہ کی عزت اور ظالموں کی ذلت کے لیے شمشیر کے ساتھ اٹھے وہ ہدایت یافتہ ہے۔''(۳) حضرت علی علیہ نے اپنے بیٹے سے فرمایا: "امر بمعروف کرو تاکہ تمھارا شمار اہل معروف میں ہو۔"(۴) حضرت علی علیہ السلام نے خطبہ قاصعہ میں فرمایا ''خدا نے گذشتہ امتوں پر اسی وجہ سے لعنت بھیجی کہ انہوں نے نے امر بمعروف اور نھی از منکر کو ترک کر دیا تھا۔''(۵) حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ''اگر تم لوگ امر بمعروف اور نہی از منکر کو ترک کر دوگے تو برے لوگ تم پر مسلط ہوجائیں گے اور پھر تمھاری آہ، فریاد کا کوئی اثر نہ ہوگا۔"(۶) امام علیہ السلام فرماتے ہیں: ''جو نہ زبان سے، نہ ہاتھ سے اور نہ دل سے برائی کی روک تھام کرتا ہے، یہ زندوں میں چلتی پھرتی ہوئی لاش ہے۔''(۷)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) نہج البلاغہ، حِکَم ٢٥٢
(۲) نہج البلاغہ، حِکَم ٣٧٣
(۳) نہج البلاغہ، حِکَم ٣٧٣
(۴) نہج البلاغہ، حِکَم ٣٧٣
(۵) نہج البلاغہ، مکتوب ٣١
(۶) نہج البلاغہ، خطبہ قاصعہ
(۷) نہج البلاغہ، مکتوب ٤٧
خبر کا کوڈ : 857356
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش