0
Saturday 18 Apr 2020 16:42

نجات دہندہ، علمبردار امن و سلامتی

نجات دہندہ، علمبردار امن و سلامتی
تحریر: سید حیدر نقوی

مقدمہ:
امن کے لفظی معنی چین، اطمینان، سکون و آرام نیز صلح، آشتی و فلاح کے ہیں۔ اسی طرح امن بجائے خود لفظ اسلام میں داخل ہے، جس کے معنی ہیں دائمی امن و سکون اور لازوال سلامتی کا مذہب۔( ابن منظور، لسان العرب، 13: 23) ایمان عربی زبان کا لفظ ہے، اس کا مادہ ’’ا۔ م۔ ن‘‘ (امن) سے لیا گیا ہے۔ لغت کی رو سے کسی خوف سے محفوظ ہو جانے، دل کے مطمئن ہو جانے اور انسان کے خیر و عافیت سے ہمکنار ہونے کو اَمن کہتے ہیں۔ ایمان کا لفظ بطور فعل لازم استعمال ہو تو اس کا معنی ہوتا ہے ’’امن پانا‘‘ اور جب یہ فعل متعدی کے طور پر آئے تو اس کا معنی ہوتا ہے ’’امن دینا‘‘ (زبيدی، تاج العروس من جواہر القاموس، 18: 23، 24) کسی پر ایمان لانے سے مراد اس کی تصدیق کرنا اور اس پر یقین رکھنا ہے۔ گویا لفظ ایمان اپنے اصل معنی اور مفہوم کے اعتبار سے امن، امانت اور بھروسے پر دلالت کرتا ہے۔ ایمان شریعت اسلامی کی ایک اہم اصطلاح ہے۔ اس کے لغوی معنی تصدیق کرنے (سچا ماننا) کو کہتے ہیں، جبکہ اصطلاح شرع میں ایمان سے مراد سچے دل سے ان سب باتوں کی تصدیق کرنے کا نام ہے، جو ضروریاتِ دین سے ہیں۔ سادہ الفاظ میں ایمان کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے: زبان سے اقرار کرنا، دل سے تصدیق کرنا اور اعضاء و جوارے سے اس پہ عمل کرنا ان تینوں کا مجموعہ ایمان کہلاتا ہے۔

امن اور سلامتی انسان کی بنیادی ضروریات اور اس کی پرانی خواہشات میں سے ہے۔ یہ ان اساسی نعمات الہیٰ میں سے ہے، جو انسان کو عطاء کی گئی ہیں، اگر یہ ہمارے درمیان نہ رہے تو ہم مادی اور روحانی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی پر اثر پڑتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ امن اور سلامتی کے بغیر انسان کی زندگی جہنم سے بدتر ہو جاتی ہے۔ اسی لیے اللہ نے ہمیں قوت مدافعت عطا کی ہے کہ ہم زندگی کی مشکلات کا سامنا کریں، امن کو اپنی زندگی کا گہوارہ بنائیں اور اس کو اللہ نے انسان میں ودیعت کیا ہے۔ امن اور سلامتی کے موضوع پر بہت سی آیات قرآنی اور روایات موجود ہیں۔ یہاں پر سب کا ذکر کرنا مناسب نہیں ہے، لیکن جو اصل بات سمجھنے کی ہے، وہ یہ کہ کلی طور پر امن، ایمان اور اعتقادات معنوی اور الہیٰ میں ہی جاگزین ہے اور جہاں پر بھی بدامنی ہوگئی، وہاں یقیناً بے ایمانی، شرک اور ظلم و ستم روا ہوگا۔

امن اور سلامتی قرآنی نقطہ نگاہ میں:
اس موضوع پر بیان کی گئی آیات میں سے دو کا یہاں ذکر کرتے ہیں: "قُلۡنَا اہۡبِطُوۡا مِنۡہَا جَمِیۡعًا ۚ فَاِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ مِّنِّیۡ ہُدًی فَمَنۡ تَبِعَ ہُدَایَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ" "ہم نے کہا: تم سب یہاں سے نیچے اتر جاؤ، پھر اگر میری طرف سے کوئی ہدایت تم تک پہنچے تو جس جس نے میری ہدایت کی پیروی کی، پھر انہیں نہ تو کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔"(سورہ بقرہ، ۳۸) "اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَ الصّٰبِـُٔوۡنَ وَ النَّصٰرٰی مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ" "جو لوگ اللہ اور روز آخرت پر ایمان لاتے ہیں اور نیک عمل انجام دیتے ہیں، وہ خواہ مسلمان ہوں یا یہودی یا صابی ہوں یا عیسائی، انہیں (روز قیامت) نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ محزون ہوں گے۔"(سورہ مائدہ،۶۹)

ان آیات سے کچھ نکات کو ذیل میں بیان کرتے ہیں:
ہدایت: اس میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کا ذکر ہے۔ مِّـنِّىْ ھُدًى۔ 2۔ اتباع: اس میں ہدایت خداوندی کی اتباع کرنے والوں کے اچھے انجام او ران کی حیات ابدی کا ذکر ہے: "فَمَنۡ تَبِعَ ہُدَایَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ"  "جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا، اسے نہ آئندہ کے بارے میں کسی نقصان کا خوف ہوگا اور نہ کسی گذشتہ خسارے پر حزن و ملال۔" 3۔ ایمان لانا: خدا اور روز آخرت پر ایمان لانے سے انسان خوف اور حزن سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔ اسی طرح ایمان بالغیبـیُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ یعنی غیب پر ایمان لانے سے ہی انسان کا خدا اور روز قیامت پر ایمان مکمل ہوتا ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ اللہ کے حکم سے امام مہدی علیہ السلام کا غیب ہونا بھی انسانوں کی بقا اور امن کے لیے ہونا ہی ہے۔ یہ پروردگار کی نعمتوں میں سے ہے، جس کا ذکر قرآن کی مختلف آیات میں موجود ہے۔ جناب جابر بن عبد اللہ انصاریؓ کا بیان ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: "جب ہمارے مہدی علیہ السلام قیام کریں گے تو وہ لوگوں کے درمیان انصاف سے کام لیں گے اور برابری کی بنیاد پر مال تقسیم کریں گے۔ وہ عوام میں اصول عدل کی بنیاد پر حکومت قائم کریں گے۔ جس نے ان کی اطاعت کی، اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے ان کی نافرمانی کی، اس نے خدا کی نافرمانی کی۔"(عقدالدرر: باب ۳ / ۴۰۔۳۹)

نجات و سعادت کے لیے اسم و عنوان کا نہیں بلکہ ایمان و عمل کا ہونا ہے۔ مسلمان اپنے دین کے مطابق یہود، صابی اور نصاریٰ اپنے زمانے کی حجت کے مطابق ایمان لاتے اور عمل صالح انجام دیں تو سب کو نجات مل جائے گی۔ اس زمانے کے حجت خدا تو امام آخر الزمان علیہ السلام ہے، جن کے بارے میں نبی پاک ﷺ سے متواتر احادیث مسلمانوں کے درمیان موجود ہیں، جس پر سب کا اجماع ہے اور وہی ہیں، جن کے ظہور سے تمام انسان جو ظلم و ستم میں گھیرے ہوئے ہیں، ان کو اس سے نجات دلائیں گے اور پوری دنیا پر دین اسلام ہی کی حکومت قائم کریں گے، جس کا وعدہ رب کریم نے کیا ہے اور اسلام تو امن اور سلامتی ہی کا دین ہے۔ عیاشی نے اپنی اسناد سے ابن بکیر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: حضرت ابو الحسن علیہ السلام نے فرمایا: "آپ دنیا بھر کے یہود و نصاریٰ، صائبین، زنا دقہ، مرتد اور کافروں کے سامنے اسلام پیش کریں گے، پس ان میں سے جو رضا و رغبت سے اسلام قبول کرے گا، اس کو آپ نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیں گے اور ان چیزوں کا حکم دیں گے، جن کا حکم مسلمان کو دیا جاتا ہے اور خدا کے لیے محبت کریں گے اور جو اسلام قبول نہیں کریں گے، اس کی گردن مار دیں گے، یہاں تک کہ مشرق و مغرب میں کوئی انسان باقی نہیں رہے گا، مگر یہ کہ وہ خدا کی وحدانیت کا اقرار کرتا ہو۔" (جمال منتظر،پرنٹ ۲۰۱۴،لاہور،ص۷۲۵) ان آیات میں ہدایت کی اتباع کرنے والوں کی حیات کی جامع تعریف فرمائی گئی کہ ان کی زندگی سکون و اطمینان سے گزرے گی اور زندگی کا سکون غارت کرنے والے دو عوامل خوف اور حزن ان کے قریب نہیں پھٹکیں گے۔ "اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ" یاد رکھو! یاد خدا سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔( رعد: ۲۸)

امن و سلامتی سے توحیدی معاشرہ کا قیام:
قرآن مجید میں دو قسم کے معاشرے توحیدی، خدا پرستی اور دوسرا شرک، شیطان کی پیروی کرنا کا ذکر کرتے ہوئے پروردگار سوال کرتا ہے کہ انسان کے لیے امن اور سلامتی کس معاشرے کے انتخاب کرنے میں ہے: "وَ کَیۡفَ اَخَافُ مَاۤ اَشۡرَکۡتُمۡ وَ لَا تَخَافُوۡنَ اَنَّکُمۡ اَشۡرَکۡتُمۡ بِاللّٰہِ مَا لَمۡ یُنَزِّلۡ بِہٖ عَلَیۡکُمۡ سُلۡطٰنًا ؕ فَاَیُّ الۡفَرِیۡقَیۡنِ اَحَقُّ بِالۡاَمۡنِ ۚ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ" "اور میں تمہارے بنائے ہوئے شریکوں سے کیونکر ڈروں، جب کہ تم ان چیزوں کو اللہ کا شریک بناتے ہوئے نہیں ڈرتے، جن کی کوئی دلیل اس نے تم پر نازل نہیں کی؟ اگر تم کچھ علم رکھتے ہو تو بتاؤ کہ کون سا فریق امن و اطمینان کا زیادہ مستحق ہے۔"(انعام، ۸۱) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: "تمہارے ان بے شعور بتوں سے خوف لاحق ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔" اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ رَبِّیۡ خوف کا سوال میرے رب کی نافرمانی سے ہوسکتا ہے، جس کے علم نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ وہ میری آواز سنتا ہے، وہ مجھے فائدہ دے سکتا ہے۔ اس کی نافرمانی سے مجھے ضرر پہنچتا ہے۔ اس سے اس کائنات میں کوئی شے پوشیدہ نہیں ہے۔

اس کی نافرمانی سے خوف کرنا چاہیئے: وَسِعَ رَبِّیۡ کُلَّ شَیۡءٍ عِلۡمً۔۔۔۔ وَ کَیۡفَ اَخَافُ مَاۤ اَشۡرَکۡتُمۡ: توحید پرست اور بت پرستوں میں موازنہ فرمایا کہ ان دونوں میں سے کون امن و سکون کا مستحق ہے۔ توحید پرست اپنے مؤقف پر دلیل و برہان رکھتے ہیں۔ انہیں اپنے مؤقف پر یقین کامل ہے، جبکہ بت پرست اپنے مؤقف پر کوئی دلیل و برہان نہیں رکھتے، نہ یقین رکھتے ہیں بلکہ وہ آبا و اجداد کی اندھی تقلید میں یہ دین اپناتے ہیں۔ لہٰذا حضرت ابراہیمؑ نے ان کو یہاں دعوت فکر دی اور فرمایا: فَاَیُّ الۡفَرِیۡقَیۡنِ اَحَقُّ بِالۡاَمۡنِ۔۔۔۔۔ بتاؤ کون سا فریق امن و اطمینان کا مستحق ہے؟ نبی اکرمﷺ نے بہت واضح بیان فرما دیا کہ ہدایت اور امن، تاریکی میں روشنی کے چراغ صرف میرے اہل بیت علیہم السلام ہی ہیں، جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے رسول اکرم ﷺ سے نقل فرماتے ہیں: "جو شخص یہ بات پسند کرتا ہے کہ خدا اس سے اس طرح ملاقات کرے کہ خدا اس کی طرف رُخ کرے اور اس سے منہ نہ موڑے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ علیؑ کو ولی تسلیم کرے۔ جو یہ چاہتا ہے کہ خدا سے اس حال میں ملاقات کرے کہ خدا اس سے راضی ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ آپؑ کے فرزند حسن کو ولی تسلیم کر۔ جو یہ چاہتا ہے کہ خدا سے اس صورت میں ملاقات کرے کہ اس پر کوئی خوف و حزن نہ ہو تو اس کو چاہیئے کہ وہ آپؑ کے فرزند حسینؑ کو ولی تسلیم کرے۔۔۔ جو خداوند عالم سے اس حال میں ملاقات کرنا چاہتا ہے کہ اس کا ایمان کامل اور اسلام بہترین ہو تو وہ ان (حضرت امام حسن عسکریؑ) کے فرزند صاحب الزمان مہدی علیہ السلام کو ولی تسلیم کرے۔ یہی حضرات تاریکی میں روشن چراغ ہیں اور یقیناً مہدی ہدایت ہیں اور پھر جو ان کو دوست رکھے گا اور ان کو ولی تسلیم کرے گا، میں اس کے لیے جنت کی ضمانت لیتا ہوں۔" (الاربعون (محمد بن ابی الفوارس)، حدیث ۴)

فیصلہ خداوندی:
پروردگار نے لوگوں کے وجدان اور ضمیر کو جھنجھوڑنے اور ضمیر کی عدالت عظمیٰ میں مقدمہ پیش کرنے کے بعد ایک ابدی فیصلہ سنایا: "اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَمۡ یَلۡبِسُوۡۤا اِیۡمَانَہُمۡ بِظُلۡمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الۡاَمۡنُ وَ ہُمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ" "جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے ملوث نہیں کیا، یہی لوگ امن میں ہیں اور یہی ہدایت یافتہ ہیں۔"(انعام، ۸۲) وَ لَمۡ یَلۡبِسُوۡۤا: اپنے ایمان کو ایسے ظلم سے ملوث نہ کریں، جس سے ایمان غیر مؤثر ہو کر رہ جائے۔ اس میں شرک بھی شامل ہے اور غیر شرک اور ہر وہ گناہ جو اپنے ایمان کے تقاضوں کے منافی ہو۔ انسان سے ایسا ظلم سرزد ہوسکتا ہے، جس سے اس کے سارے اعمال حبط اور ضائع ہو جائیں۔ مطلب یہ ہے کہ صرف ایمان کا اظہار کافی نہیں ہے، جب تک اس کے آثار کردار پر ظاہر نہ ہوں۔ یعنی انسان کو وہ ایمان امن دے سکتا ہے، جو اس کے کردار پر مؤثر رہے اور ظلم بہ نفس نہ کرے۔ ایمان والے ہی دنیا و آخرت میں امن و سکون میں ہوتے ہیں۔ دنیا میں بھی وہ لوگ جو ایمان کی دولت سے محروم ہیں، قلبی سکون اور نفسیاتی اطمینان سے محروم ہوتے ہیں: وَ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِکۡرِیۡ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا۔۔۔۔ (طٰہٰ: ۱۲۴) "اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا، اسے یقیناً ایک تنگ زندگی نصیب ہوگی۔۔۔۔ اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ مَقَامٍ اَمِیۡنٍ(دخان: ۵۱) "اہل تقویٰ یقیناً امن کی جگہ میں ہوں گے۔"

 وعدہ خداوندی:
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ "تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں، اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح جانشین ضرور بنائے گا، جس طرح ان سے پہلوں کو جانشین بنایا اور جس دین کو اللہ نے ان کے لیے پسندیدہ بنایا ہے، اسے پائدار ضرور بنائے گا اور انہیں خوف کے بعد امن ضرور فراہم کرے گا، وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اس کے بعد بھی جو لوگ کفر اختیار کریں گے پس وہی فاسق ہیں۔"(نور،۵۵) اللہ تعالیٰ کا ایمان و عمل صالح کی بنیاد پر اقتدار دینا جیسے: یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلۡنٰکَ خَلِیۡفَۃً فِی الۡاَرۡضِ۔۔۔ (ص:۲۶) "اے داؤد! ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔۔۔" قَالَ اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ؕ قَالَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ؕ قَالَ لَا یَنَالُ عَہۡدِی الظّٰلِمِیۡنَ (بقرہ: ۱۲۴) ارشاد ہوا: "میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں، انہوں نے کہا: اور میری اولاد سے بھی؟ ارشاد ہوا: میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔"

وَ لَقَدۡ کَتَبۡنَا فِی الزَّبُوۡرِ مِنۡۢ بَعۡدِ الذِّکۡرِ اَنَّ الۡاَرۡضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ (انبیاء:۱۰۵) "اور ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔" اس خلافت کے بارے میں ہے، جس میں ایمان و عمل صالح کا مالک، ظالم نہ ہونا اور صالح بندوں میں سے ہونا شرط ہے۔ اسی لیے اس استخلاف کے یہ ثمرات ہوں گے: i۔ تمکن در دین۔ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ۔ اس سے واضح ہوا کہ اس استخلاف سے مراد مطلق اقتدار نہیں بلکہ دینی اقتدار ہے، جس میں دینی تعلیمات کو بالا دستی حاصل ہوگی۔ دینی قوانین اور دستور حیات کا نفاذ ہوگا۔ ii۔ خوف کے بعد امن ہوگا۔ یہ ذکر نہیں کہ یہ خوف کن سے ہوگا۔ داخلی، خارجی، ہر صورت میں خوف امن میں بدل جائے گا۔ نہ بیرونی دشمن سے خوف ہوگا، نہ داخلی حکمرانوں کے ظلم و زیادتی کا خوف ہوگا۔ iii۔ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا: کہ وہ اس امن کی فضا میں اللہ کی بندگی کریں گے۔ اس سے اس خوف کی نوعیت کا علم ہوتا ہے کہ یہ خوف مذہبی تعلیمات پر عمل اور اللہ کی بندگی کرنے سے متعلق ہے۔ شرک و بدعت سے پاک ایک خالص دینی تعلیمات کا رواج ہوگا۔

ان آیات کی تفسیر میں مفسرین میں اگرچہ اختلاف ہے، مگر اس کا مصداق امام مہدی علیہ السلام کی الہیٰ حکومت کو ہی لیتے ہیں، جیسے کہ ابن کثیر اپنی تفسیر ۶: ۷۲ میں صحیح بخاری و صحیح مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث کو یوں بیان کیا ہے: "المہدی" جن کا نام رسول اللہ کے نام سے اور کنیت رسول اللہ کی کنیت سے ملتی ہوگی۔ جو زمین کو عدل و انصاف سے پرُ کرے گا، جیسے ظلم و جور سے پرُ تھی۔(تذکرۃ خواص الامۃ (سبط ابن جوزی): ۲۰۴۔ منہاج السنہ (ابن تیمیہ) ۴۱ / ۲۱۱) ان آیات سے جو نتائج اخذ کیے گئے ہیں، ان کو بطور خلاصہ یوں ذکر کیا جاسکتا ہے: 1۔ ہدایت و رہنمائی اس ذات کی طرف سے آسکتی ہے، جس کا علم ہر چیز پر محیط ہو: وَسِعَ رَبِّیۡ کُلَّ شَیۡءٍ عِلۡمًا۔۔۔ 2۔ غیر اللہ سے لو لگانے والے دنیا و آخرت دونوں میں خوف و اضطراب سے دوچار ہوں گے۔ 3۔ ایمان کا ہونا اور ظلم کا نہ ہونا، دو ایسے ستون ہیں، جن پر امن و سکون قائم ہے: وَ لَمۡ یَلۡبِسُوۡۤا اِیۡمَانَہُمۡ بِظُلۡمٍ۔۔۔

انسان اس قسم کا معاشرہ چاہتا ہے، جہاں صرف عدل و انصاف، امن اور سلامتی ہو تو لازمی ہے کہ اپنے ایمان کو کامل کر لے اور اللہ کے وعدہ کا انتظار کرے۔ جس نے پورا ہو کر رہنا ہے اور انسان یقیناً اس دنیا میں الہیٰ حکومت کو دیکھ کر رہے گا۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اس حکومت کے بارے میں یوں فرماتے ہیں: "حضرت مہدی علیہ السلام اپنے اصحاب کے ساتھ چلیں گے۔ کسی شہر میں کوئی حادثہ نہیں ہوگا۔ دُنیا میں ہر طرف امن و امان ہوگا۔ جبرائیل علیہ السلام ان کی داہنی طرف اور میکائیل علیہ السلام ان کی بائیں طرف ہوں گے۔ دُنیا کے گوشہ گوشہ سے لوگ ان سے ملاقات کا شرف حاصل کر رہے ہوں گے۔" (عقد الدرر: باب۴،فصل ۲ / ۹۸) آیات و احادیث مبارکہ سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ہادی برحق، حجت خدا کا وجود ہی انسانوں کا محور، مرکز اللہ نے ان ہی کی ذات کو قرار دیا ہوا اور انہی کے وجود سے تاریکی اور ظلمت کی گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی دنیا روشن اور منور ہو جائے گی اور وہی مظلوم اور ستم رسیدہ انسانوں کے مسیحا ہیں۔
خبر کا کوڈ : 857506
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش