0
Sunday 19 Apr 2020 20:24

پاراچنار لڑائی، 2007ء جیسی صورتحال

انتظامیہ کیجانب سے انصاف پر مبنی اقدامات نہ ہونے کیوجہ سے مسائل درپیش ہیں
پاراچنار لڑائی، 2007ء جیسی صورتحال
تحریر: روح اللہ طوری

کل ہفتہ 18 اپریل کو پاراچنار کی پرامن فضا اس وقت مکدر ہوگئی، جب اہلیان بوشہرہ نے بھاری ہتھیاروں سے لیس ہوکر ڈنڈر گاؤں کی نئی آبادی پر حملہ کر دیا۔ معلوم ہو رہا ہے کہ کرم پاراچنار ایک بار پھر 2010ء کے عشرے والی صورتحال کی جانب بڑھ رہا ہے، بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بھی بیجا نہ ہوگا کہ پورا پاکستان طالبانائزیشن کے اس دور کی جانب بڑھتا جا رہا ہے، جب پورے ملک پر دہشتگردی کے سیاہ اور ہولناک بادل سایہ فگن تھے۔ جب کوئی شہر محفوظ نہ تھا، کوئی ہجوم والی جگہ، حتیٰ امام بارگاہ اور کوئی مسجد تک محفوظ نہ تھی۔ پھر پشاور میں آرمی پبلک سکول کا حادثہ ہی سبب بنا کہ افواج پاکستان نے میدان میں اتر کر دہشتگردوں سے پوری قوت سے نمٹ کر امن و امان بحال کر دیا۔ آج کل سابقہ قبائلی علاقہ جات میں ایک بار پھر دہشتگرد کارروائیاں زور پکڑ رہی ہیں۔ وزیرستان میں آئے روز کوئی نہ کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے اور دھرتی کا کوئی محافظ اسکا شکار بن جاتا ہے۔

میڈیا سے منسلک لوگوں پر یہ سب کچھ واضح ہے، تاہم ہم یہاں بات کرتے ہیں ضلع کرم کی، جو گذشتہ دو دہائیوں سے دہشتگردوں کے خاص نشانے پر ہے۔ اگرچہ کچھ عرصہ یہاں امن و امان رہا۔ تاہم اس امن کے پس منظر میں طوری بنگش اقوام کے حقوق کو سرکاری پشت پناہی میں خوب پائمال کیا گیا۔ اس دوران طوری اقوام اگر کہیں اپنے شاملاتی رقبے میں آباد کاری کرتیں تو انہیں سختی بلکہ بندوق کی نوک پر روکا جاتا، جبکہ مخالف غیر بندوبستی افغان نژاد قبائل، طوری بنگش قبائل کے ملکیتی علاقے میں دھڑا دھڑ آباد کاری کرتی رہے اور متاثرہ قبیلہ اس کی باقاعدہ شکایت انتظامیہ کو کرتا رہا، انتظامیہ ٹس سے مس نہ ہوا کرتی۔ اس حوالے سے ہزاروں درخواستیں اور شکایتی مراسلے اب بھی آن دی ریکارڈ موجود ہیں، تاہم اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا ہے۔

احتجاجی مراسلوں سے جب کچھ نہ بن سکا تو 7 فروری 2020ء کو لوئر کرم کے متاثرہ علاقے بالش خیل میں ایک احتجاجی اجتماع کا انعقاد ہوا، یہیں پر نماز جمعہ بھی ادا کی گئی۔ یہاں اعلان کیا گیا کہ اگر حکومت نے ان کے مطالبات پر غور نہ کیا تو وہ مجبور ہوکر اپنی اراضی پر آبادکاری شروع کر دیں گے۔ جس کے بعد انتظامیہ فوری طور پر حرکت میں آگئی، تاہم انہوں نے اسی پرانی حکمت عملی کے تحت ایک بار پھر عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی اور اس کے ساتھ متعدد نمائشی جرگے کئے، نتیجہ صفر رہا۔ جس کے بعد کنج علی زئی اور غوز گڑھی کا مسئلہ سامنے آگیا۔ جہاں اہلیان کنج علی زئی نے اپنے ملکیتی جنگل کے تحفظ کیلئے چوکیداروں کیلئے ایک کمرے کی بنیاد رکھی۔ جس پر اہلیان غوز گڑھی (کے مقبل قبائل) نے اعتراض کیا۔ ان کے کہنے پر حکومت نے فوراً کارروائی کرتے ہوئے کام رکوا دیا، جبکہ یہی حکومت بالش خیل کے کہنے پر پاڑہ چمکنی کو غیر قانونی آباد کاری سے نہیں روکتی۔

اب آتے ہیں تازہ واقعے کی طرف۔ کل بروز ہفتہ اہلیان ڈنڈر اپنے ہی علاقے میں بنائے گئے کمروں میں موجود تھے کہ صبح دس بجے اہلیان بوشہرہ کے بنگش قبائل نے ایک سرکاری محرر کے کہنے پر مسلح ہوکر وہاں دیگر افغان نژاد قبائل کی کمک سے طوری قبائل پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کیا، جس کے نتیجے میں اہلیان ڈنڈر کے تین افراد زخمی ہوگئے۔ جن میں سے ایک کو انتہائی نازک حالت میں پشاور منتقل کیا گیا۔ اہلیان ڈنڈر نے بھی جوابی فائرنگ شروع کر دی۔ فورسز نے انجمن حسینیہ اور تحریک حسینی کے تعاون سے بالآخر شام 4 بجے لڑائی بند کروائی۔ اگلے روز یعنی آج اتوار کو بوشہرہ کی طرف جانے والے تمام راستوں کو حکومت نے مکمل طور پر بند کر دیا۔ انجمن حسینیہ اور تحریک حسینی سے ایک جرگہ تشکیل دیکر وہاں وقوعہ پر بھیج دیا۔ جنہوں نے فریقین کے ساتھ مذاکرات کئے۔ مسئلے کا پرامن حل نکالنے کیلئے جرگہ نے بھرپور کوشش کی۔

حکومت نے کل ہونے والے واقعے کی ویڈیو ریکارڈنگ کی تھی۔ جس میں مسلح افراد اپنے اسلحے سمیت نمایاں تھے۔ چنانچہ انہی لوگوں کا اسلحہ سمیت مطالبہ کیا۔ طوری قبائل نے آن دی ریکارڈ چار افراد کو حوالے کیا، جبکہ حملہ آور قبیلہ کو فراہم کئے گئے 20 افراد پر قبیلے کے مشران سے مذاکرات تا دم تحریر جاری ہیں۔ تاہم ایسے ہزار جرگے ہوں، جب تک مقامی سول اور فوجی انتظامیہ مخلص نہ ہو، کرم کے کسی مسئلے کا پرامن حل نکالنا محال ہے۔ اس سمیت کرم کے دیگر تمام مسائل کا مکمل حل حکومت کے پاس موجود ہے۔ ریونیو عملہ اور پورا ریکارڈ ان کے پاس پڑا ہے۔ مگر شومئی قسمت کہ ہماری اتنظامیہ منصف اور جج کے بجائے فریق کا کردار ادا کر رہی ہے۔ انہیں سب کچھ معلوم ہے۔ وہ مستحق فریق کو ان کا حق دینے کے بجائے انہیں مذاکرات میں الجھا کر ٹرخا رہے ہیں اور دوسرے فریق کو اپنا اصل چہرہ دکھانے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔

ایسی حالت میں کرم میں مسائل کے حل کی توقع رکھنا ہے تو محال ہے ہی، مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسے حالات کی وجہ سے معاملات تیزی کے ساتھ 2007ء والی صورتحال کی جانب بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے ایک بات نہایت قابل غور ہے کہ حکومت خود موقع پر موجود تھی، کس فریق نے جنگ کی ابتداء کی اور بھاری ہتھیار کس نے استعمال کئے اور تین افراد کو  زخمی کر دیا، یہ سب کچھ حکومت کو معلوم ہے۔ اب حکومت کی عدالت کا امتحان ہے کہ کیا وہ انصاف کرکے مجرموں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹتی ہے یا بالعکس مظلوم فریق کو نشانہ بناتی ہے یا یہ کہ دونوں کو ایک ہی باٹ سے تولتی ہے۔ اس کا پتہ اگلے چند روز میں چل ہی جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 857648
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش