QR CodeQR Code

آل سعود اپنے انجام کی جانب گامزن

22 Apr 2020 12:58

اسلام ٹائمز: امریکہ نے تو اپنے یورپین اتحادیوں کیلئے اپنے دروازے بند کر دیئے، اٹلی اور فرانس کی آنکھیں کھل گئی ہیں کہ جس امریکہ پر تقیہ کیا، اسی نے مشکل وقت میں چھرا گھونپ دیا۔ ایسی صورتحال میں امریکہ اور اسرائیل اس پوزیشن میں نہیں کہ سعودی عرب اور یو اے ای کی مدد کرسکیں، اب امریکہ کی مزید کوشش ہوگی کہ وہ خطے میں اپنے قیام کو یقینی بنانے کیلئے سعودی عرب سے کرائے کی مدد میں مزید پیسے بٹورے۔


تحریر: نادر بلوچ

ہر ملک اور قوم کی ایک طاقت ہوتی ہے، ایک بائنڈنگ فورس ہوتی ہے، جو اُسے متحد رکھتی ہے، جو ان کے درمیان اتحاد اور وحدت کی علامت سمجھی جاتی ہے اور کسی بھی ملک میں اتحاد و انسجام و داخلی وحدت کا دار و مدار ان چیزوں سے منسلک ہوتا ہے۔ کسی ملک یا قوم کو اس وقت تک فتح نہیں کرسکتے یا اسے نقصان نہیں پہنچا سکتے، جب تک مذکورہ چیزیں کمزور نہ ہو جائیں یا ان پر کاری ضرب نہ پڑ جائے یا پھر خود قیادت کی ناکامی کے باعث یہ چیزیں زیر سوال نہ آجائیں۔ سعودی عرب کے حوالے سے آج کل چرچے ہیں اور بینا آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ آج یا کل آل سعود کی جبری حکومت کا خاتمہ ہونے جا رہا ہے۔ بابصیرت اور حالات پر نظر رکھنے والے افراد دیکھ رہے ہیں کہ یہ ملک مسلط کی گئی قیادت کے ہاتھوں اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ طاقت، جبر اور استبداد کے ذریعے ایک حد تک عوام کو دبایا جاسکتا ہے، مگر مستقل طور پر ایسا نہیں کیا جاسکتا۔

سعودی عرب کی طاقت پانچ چیزوں میں ہے، جن کا ہم ایک ایک کرکے جائزہ لیتے ہیں اور پھر یہ بات قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ وہ کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ سعودی عرب کی پہلی طاقت آئل اکانومی ہے، یعنی سعودی عرب کی معیشت کا سارا دار و مدار تیل اور حج و عمرہ پر ہے، لیکن کورونا کی وباء کے باعث عالمی سطح پر تیل کی مارکیٹیں کریش کر گئی ہیں، تیل کی کھپت نہ ہونے کے برابر ہوگئی ہے جبکہ سعودی عرب روس کی مخالفت میں اپنی تیل کی پیداوار کو کم کرنے کیلئے آمادہ نظر نہیں آتا، یہی وجہ ہے کہ تیل کی قیمتیں 1996ء کے بعد کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ امریکہ جیسے تیل کے سب سے بڑے خریدار نے تیل کی درآمد پر پابندی لگا دی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ صورتحال مزید دو تین ماہ چلی تو سعودی عرب کے پاس متبادل اکانومی کیا ہے۔؟ کورونا کے باعث حج و عمرہ پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے، دوسری جانب دوسرے ملکوں کے مزدوروں کو بھی صاف صاف جواب مل چکا ہے۔ ایسی صورتحال میں سعودی معیشت کا سروائیول نظر نہیں آتا۔

دوسری چیز جس کے بل بوتے پر سعودی حکومت اب تک چل رہی تھی، وہ ہے نظریہ، یعنی وہابیت کا نظریہ، اس جبری نظریہ کو امریکی ایماء پر مسلط کیا گیا تھا، جس کا اظہار سابق امریکی سیکرٹری خارجہ ہیلری کلنٹن کرچکی ہیں، جس کی ویڈیو بھی سوشل میڈیر پر وائرل ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ نئے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنے ہاتھوں سے ہی اس نظریہ کو دفن کر دیا ہے، ملک میں کیسینو سنٹرز، سینماز اور بیچ وغیرہ کا احیاء صاف بتاتا ہے کہ سعودی عرب اب اس نظریہ کو خیرباد کہہ کر لبرل ازم کی طرف گامزن ہے، جس کا اظہار مختلف حوالوں سے محمد بن سلمان کرچکے ہیں۔ سعودی ولی عہد کے ان اقدامات پر تنقید پر ایک امام کعبہ سمیت متعدد سعودی علماء جیل کی ہوا کھا رہے ہیں۔

تیسری چیز جو کسی قوم کو متحد رکھتی ہے، وہ داخلی اتحاد ہے، اس کا مظہر یہ ہے کہ خود آل سعود اقتدار کی رسہ کشی میں صاف بٹے ہوئے نظر آرہے ہیں، محمد بن سلمان اپنی راہ میں آنے والے ہر کانٹے کو ہٹا رہے ہیں، خاندان کے کئی افراد کو جیلوں میں ڈال چکے ہیں، کورونا کی وباء کی آڑ میں مکہ اور مدینہ سمیت کئی شہروں میں ایک ماہ سے سخت کرفیو نافذ ہے، جبکہ دنیا کے باقی ممالک میں لاک ڈاون کی صورتحال ہے۔ سعودی عرب کا ہیلتھ کا سسٹم بھی مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے۔ چوتھی چیز جو سعودی نظام کو مضبوط کرنے اور اس کی ساکھ کو قائم رکھنے میں مدد دے رہی تھی، وہ عالم اسلام میں سعودی عرب کا دو مقدس مقامات کی وجہ سے تقدس ہے۔ لیکن عراق، شام اور لیبیا میں پراکسیز کرا کر حصہ دار بننے اور اپنے اثر و رسوخ کی خاطر پیسہ کی بھرمار کرنے کی وجہ سے اقوام عالم میں ان بادشاہوں کی حیثیت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے، جلتی پر تیل کا کام گذشتہ چھ سال سے یمن پر مسلط کی گئی جنگ نے کر دیا ہے۔

اب بڑے ممالک میں کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے، جہاں کے اقوام آل سعود کو پسند کرتے ہوں۔ اب یہ بھی صاف نظر آرہا ہے کہ کورونا کی وجہ سے معاشی مشکلات کے سبب اب سعودی عرب مختلف ممالک میں مساجد اور اپنے ہم مکتبہ فکر کو زیادہ دیر تک امداد بھی جاری نہیں رہ سکے گا، جس سے خود ان مذکورہ ممالک کے مدارس اور آئمہ مساجد کی مشکلات میں اضافہ ہو جائیگا، جو سالہا سال سے سعودی  فنڈنگ پر چل رہے تھے۔ پانچویں اور آخری چیز جس نے آل سعود کی خاندانی بادشاہت کو قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کیا وہ ہے، وہ اتحادیوں کا ساتھ، امریکہ، اسرائیل اور دیگر مغربی ممالک جو اسرائیل کے دفاع کی خاطر آل سعود کو مسلسل سپورٹ کرتے تھے، ان کا ساتھ اہم رہا ہے، مگر مذکورہ ممالک خود اس وقت کورونا کی وجہ سے پریشان ہیں اور ان کی معیشت زمین بوس ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ امریکہ کا ورلڈ لبرل آرڈر اپنی آخری سانسیں لیتا دکھائی دے رہا ہے اور دنیا نئی قیادت کی متلاشی نظر آرہی ہے۔ کرونا بحران کے دوران چین کے قائدانہ کردار نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے کہ ہر بحران میں امریکہ آگے بڑھ کر لیڈ کرتا تھا، مگر اس بار وہ خود چین اور روس کی مدد کا طلبگار ہے۔

امریکہ نے تو اپنے یورپین اتحادیوں کے لئے اپنے دروازے بند کر دیئے، اٹلی اور فرانس کی آنکھیں کھل گئی ہیں کہ جس امریکہ پر تکیہ کیا، اسی نے مشکل وقت میں چھرا گھونپ دیا۔ ایسی صورتحال میں امریکہ اور اسرائیل اس پوزیشن میں نہیں کہ سعودی عرب اور یو اے ای کی مدد کرسکیں، اب امریکہ کی مزید کوشش ہوگی کہ وہ خطے میں اپنے قیام کو یقینی بنانے کیلئے سعودی عرب سے کرائے کی مد میں مزید پیسے بٹورے۔ جنرل قاسم سلمانی کی شہادت کے بعد امریکی درخواست پر فرانس نے اپنا بحری بیڑا بھیجا، جو اس نے موجودہ صورتحال میں واپس بلالیا ہے۔ ایسی صورتحال میں سعودیہ کیلئے آگے چلنا اور امریکہ کو مزید پیسے دینا مشکل نظر آتا ہے اور امریکہ اس خطے میں اپنے قیام کو مزید یقینی نہیں بنا سکتا، کیونکہ معیشت کی بربادی کے بعد امریکہ کیلئے اس کو یقینی بنانا ناممکن ہوتا نظر آرہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ سعودی عرب جیسا اتحادی کیا کر پائے گا اور آل سعود کی حکومت مزید کتنے دن رہ پائیگی؟، یہ بنیادی اور اہم سوال ہے۔ بینا آنکھوں کو سب نظر آرہا ہے۔ اقبال نے ہی کہا تھا:
دنیا کو ہے اس مہدی برحق کی ضرورت
 ہو جس کی نگہ زلزلہء عالم ِافکار


خبر کا کوڈ: 858219

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/858219/آل-سعود-اپنے-انجام-کی-جانب-گامزن

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org