2
1
Wednesday 22 Apr 2020 23:09

کرونا اور آخرالزمان

کرونا اور آخرالزمان
تحریر: ڈاکٹر سید محمد جواد شیرازی

ہماری خوش نصیبی یہ ہے کہ ہمیں کسی بھی کام کے لیے کسی ماہر کی ضرورت نہیں پڑتی اور اگر کوئی آدمی غلطی سے اپنی فیلڈ میں کام کر رہا ہے تو اس کی رائے سے اختلاف کرنا ہمارا قومی فریضہ ہے۔ اب کرونا کو ہی لے لیجیے، اس پر پروگرام اینکر کر رہے ہیں اور بچاو کی تدابیر سیاستدان دے رہے ہیں۔ خیر ایک مشکل جو نئی ہے، وہ آخرالزمان کے حالات ہیں۔ ایک معروف تجزیہ نگار اور کالم نویس اوریا مقبول جان کی ایک ویڈیو میری نظر سے گزری۔ اس میں موصوف "ٓآخرالزمان کے اہم تریں کردار "حضرت عیسیؑ کی دوبارہ آمد کب تک" پر مفصل تقریر کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق 2022ء تک امام مھدی کا ظھور ہو جائے گا اور ہوائی جہاز زمین بوس ہو کر رہ جائیں گے، کیونکہ دجال شہروں میں داخل نہیں ہوگا، اس لیے صرف وہ لوگ فتنہ دجال سے امان میں رہیں گے، جو پہاڑوں پر یا جنگلوں میں جانور پال کر زندگی گزار رہے ہوں گے۔۔۔۔

مجھے موصوف کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نظریہ سے بھی اختلاف ہے، کیونکہ حضرت عیسیؑ اور امام مھدی اگر انہی چند سالوں میں ظھور کرتے ہیں تو اس وقت مسلمان دو ارب کے قریب ہیں اور عیسائی بھی دو ارب سے کچھ زیادہ۔ پوری دنیا کی آبادی کا 60 فی صد حصہ ان دو مذاہب کے ماننے والوں پر مشتمل ہے تو کیا حضرت عیسیٰ کے ظھور کے بعد عیسائی مسلمان ہو جائیں گے، قتل کر دیئے جائیں گے؟ یا پھر حضرت عیسیؑ کی اقتداء کریں گے اور حضرت عیسیٰ اپنے تمام اہل کتاب کے ساتھ امام مھدیؑ کی اقتدا کریں گے۔؟ شیخ عمران حسین جو کہ اس موضوع پر بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں، ان کا ماننا ہے کہ حضرت عیسیؑ کا ظہور اسلام اور عیسائیت کے الحاق کا موجب بنے گا اور حضرت عیسیٰ امام مھدیؑ کی اقتداء اور مدد کریں گے اور انہی کے مطابق مغرب(امریکہ، یورپ) میں موجود عیسائی جو کہ یہودیوں کے دوست ہیں، وہ مسلمانوں سے جنگ کریں گے، جبکہ مشرق میں موجود عیسائی حضرت عیسیٰؑ کی پیروی میں حضرت امام مھدی کی فوج میں شامل ہو جائیں گے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث جو کہ دجال کے فتنوں کے بارے میں ہے، اس کو اس وبا کے دور میں جس میں فتنے رک چکے ہیں، منطبق کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ گذشتہ ایک دہائی سے شام، عراق، لیبیا، یمن، مصر، افغانستان اور پاکستان جیسے مسلم ممالک میں فتنے برپا ہیں، جو کہ قرب آخرالزمان کی نشانی ہیں اور موجودہ حالات میں تو وبا کی وجہ سے کشیدگی میں کمی واقع ہوئی ہے، لیکن فتنوں سے بچنے کے لیے مسلمانوں کو گوشہ نشینی اختیار کروانا بھی سمجھ سے بالاتر ہے، کیونکہ دو ارب مسلمان کیسے شہروں سے گریزاں دیہاتوں میں بکریاں پال کر دجال کے فتنے سے بچ سکیں گے۔ حضرت علیؑ کا قول ہے کہ فتنوں میں اس اونٹنی کے بچے کی طرح ہو جاو، جس پر نہ تو وزن لادا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کا دودھ دوھا جا سکتا ہے۔ لیکن جب آپ کے دور حکومت کو دیکھا جائے تو آپ نے سارا دور حکومت سازشوں کے خلاف جنگ کی اور فرمایا حق کو پہچانو، اہل حق کی شناخت آپ کو خودبخود ہو جائے گی۔ حق و باطل کی شناخت ضروری ہے۔ ہر دور میں حق اور باطل کی جنگ رہی ہے، جو حق پر تھا، وہ فلاح پا گیا اور جو باطل کا ساتھی تھا وہ نقصان میں رہا۔

مسلمانوں کو بصیرت میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے، علم کی ضرورت ہے، ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے، ہتھیاروں کی ضرورت ہے، جس طرح امریکہ دس سال تک پاکستان میں ڈرون حملے کرتا رہا اور کسی میں ہمت نہیں ہوئی کہ اسے روک سکے، لیکن ایک ایرانی کمانڈر کو ایران سے باہر نشانہ بنایا اور پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ ایرانی مسلمانوں کی ایمانی طاقت میں کتنا اثر ہے اور ساتھ ساتھ اسلحہ اور ساز و سامان بھی ضروری ہے۔ مسلمانوں کو حضرت مھدیؑ کے ظہور سے قبل تیاری کرنی ہے، نہ کہ گوشہ نشینی۔ اگر مسلمان دجال سے ڈر کر چھپ جائیں گے تو دجال سے پہلے یہودی مسلمانوں کا کیا حال کرتے ہیں، یہ فلسطین، شام اور عراق کے قتل عام سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 858377
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

فرحت حسین
Pakistan
ڈاکٹر صاحب آپ نے اچھے انداز میں اپنے موقف کو ثابت کیا۔ آج کل مناظرہ کا دور نہیں، اپنی بات اسی انداز میں پہنچانی چاہیئے۔۔ اللہ تعالیٰ آپ کے قلم میں زیادہ زور عطا فرمائے۔۔۔۔
United States
بہت عمدہ۔۔
ہماری پیشکش