1
Thursday 23 Apr 2020 18:50

اب بیچو تیل

اب بیچو تیل
تحریر: ثاقب اکبر

سیف الدین سیف نے کہا تھا:
خریدتا تھا بھلا کون ٹھیکرا دل کا
وہ لے گئے ہیں کہ پیالہ بہت ہی سستا ہے

لیکن تیل کی صورتحا ل عالمی سطح پر بالعموم اور امریکہ میں بالخصوص اس سے بھی مختلف ہے۔ اس کے لیے ایک مبصر نے یہ مثال دی ہے: "آپ کے گھر کے باہر کوڑے کا ڈھیر پڑا ہے۔ آپ اسے اُٹھانے کے لیے کسی کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور پیسے دے کر کوڑا اٹھواتے ہیں۔" امریکہ کا تیل اب اس صورت حال سے دوچار ہے۔ جو احباب پوچھتے ہیں کہ تیل کی قیمت منفی کیسے ہوسکتی ہے، وہ کوڑے والی مثال کو پیش نظر رکھیں۔ البتہ اس کی کچھ وضاحت مزید کیے دیتے ہیں۔ تیل پیدا کرنے والی کمپنیاں تیل پیدا کر رہی ہیں، دنیا میں کورونا کی وحشت نے ٹریفک تقریباً جام کر دی ہے۔ ایئر ٹریفک نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ ریل گاڑیاں گاہے گاہے حرکت کرتی ہیں اور وہ بھی سامان لے جانے اور لے آنے والی گاڑیاں۔ سڑکوں پر کوئی ویرانی سے ویرانی ہے۔ ایسے میں تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو۔ بے شک فارسی پڑھو یا عربی، لیکن تیل خریدنے والے دکھائی نہیں دیتے، اُن کے ہاتھ سوگئے ہیں سرہانے دھرے دھرے۔ پھر ابھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ صورت حال کب تک رہے گی۔ عالمی ادارہ صحت ڈرائے جاتا ہے کہ ابھی بہت لمبا عرصہ انسانوں کو اس کورونا کے ساتھ جینا اور مرنا ہوگا۔

پاکستان کا تو کیا کہنا کہ اس کے پاس تیل ذخیرہ کرنے کی صلاحیت چند روز سے زیادہ کی نہیں ہے۔ امریکی صدر نے کہا ہے کہ انہوں نے تیل ذخیرہ کرنے کی استعداد میں 75 فیصد اضافہ کر لیا ہے۔ چین دھڑا دھڑ نئے ذخائر تیار کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ ذخائر بھی بھر گئے تو کیا ہوگا۔ پھر یہ ذخائر بھرنے میں اب زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ روزانہ کئی ملین بیرل کی پیداوار تو ایک ملک کی ہے۔ باقیوں کو بھی شمار کر لیں۔ ان حالات میں بڑی کمپنیاں آئل ٹینکر کرائے پر حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، کیونکہ ایک بڑا آئل ٹینکر لاکھوں بیرل تیل اٹھا سکتا ہے۔ کمپنیوں کا خیال یہ ہے کہ ٹینکروں کو بھریں گے اور سمندوں میں کھڑا کر دیں گے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتنے ٹینکر، کتنا تیل اور کتنا عرصہ؟ ایسے میں ہر کمپنی کے اہل کاروں اور کارکنوں کی تعداد ہزاروں کو پہنچتی ہے۔ جب تیل ہی نہیں بکے گا، بلکہ ٹینکروں اور ذخائر کے کرائے پر خرچ اُٹھے گا تو کمپنیوں کا مستقبل کیا ہوگا۔ ان حقائق کو سامنے رکھ کر یہ بات آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ امریکی تیل ایک مرحلے میں منفی 37 ڈالر فی بیرل پر کیسے آگیا تھا۔

یہاں یہ بات پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ امریکی معیشت میں تیل کی فروخت کا کوئی بڑا حصہ نہیں۔ اس لیے اس کی وجہ سے امریکی معیشت پر کوئی قابل ذکر دباؤ نہیں آئے گا۔ امریکی معیشت کے لیے خطرات کچھ اور نوعیت کے ہیں۔ روس کی معیشت کا بھی تیل پر انحصار کچھ بہت زیادہ نہیں، اگرچہ امریکہ سے کچھ زیادہ ہے، لیکن بظاہر روس اس صدمے کو سہ جائے گا۔ اس عفریت کا اصل شکار وہ معیشتیں ہیں، جن کا بیشتر انحصار تیل کی فروخت پر ہے۔ ان میں سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور عراق نمایاں ہیں۔ دنیا میں تیل کے ذخائر کے اعتبار سے ایران اگرچہ تیسرا بڑا ملک سمجھا جاتا ہے اور پہلے نمبر پر وینزویلا کا نام آتا ہے، دوسرے نمبر پر سعودی عرب ہے اور چوتھے نمبر پر عراق ہے، تاہم ایران پر گذشتہ اکتالیس برس کی پابندیوں کی برکات اب زیادہ واضح ہوکر سامنے آرہی ہیں۔

امریکی صدر ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد ایران پر عائد کی جانے والی پابندیاں دن بدن خوفناک صورت حال اختیار کرتی رہیں اور صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ہم ایران کی تیل کی فروخت کو صفر تک پہنچا دیں گے۔ ماضی میں بھی پابندیاں اور جکڑ بندیاں رہی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایران نے اپنی معیشت کے لیے متبادل راستے تلاش کر لیے۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانی صدر ڈاکٹر روحانی نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ تیل کی موجودہ صورت حال سے وہ ملک زیادہ متاثر ہوں گے، جن کی معیشت کا زیادہ تر انحصار تیل کی فروخت پر ہے، ایران نے تو اپنی معیشت کے لیے متبادل راستے پہلے ہی اختیار کر رکھے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات اہم ہے کہ ایران پر پابندیاں عائد کروانے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ عراق کے بارے میں اس مضمون میں ہم زیادہ بات نہیں کرتے، صرف اتنا کہنے پر اکتفا کریں گے کہ عراقی سیاستدانوں اور حکمرانوں نے اقتدار میں آتے ہی کرپشن کی جن ہوشربا داستانوں کو جنم دیا تھا، اب اُن کی آخری قسط بھی ختم ہونے کو ہے۔ ایک زرخیز ملک اور دجلہ و فرات کی وادیاں جب قناعت پسند حکمرانوں کے ہاتھ میں آئیں گی تو عراق بھی غلامی کی دلدل سے حقیقی طور پر نکل جائے گا۔

البتہ سعودی عرب اور امارات کا کیا بنے گا، جن کے حکمرانوں نے اپنی تجوریاں بھریں۔ تیل بیچا اور امریکہ و یورپ سے تباہ کن اسلحہ خریدا۔ ہمسایوں کو ڈرایا، یمن کو بارود برسا کر تباہ کیا۔ اُن کے پاس اب امریکہ کو دینے کے لیے کتنے پیسے رہ گئے ہیں؟ جن شاہی طور طریقوں کے وہ عادی ہوچکے ہیں، انہیں کیسے تبدیل کریں گے؟ امریکی اور یورپی بینکوں میں جمع شدہ رقم کے ضبط ہونے کے دن قریب آگئے ہیں۔ کیا امریکہ کے پاس رکھی ہوئی امانت کو بھی محفوظ سمجھا جاسکتا ہے؟ شاہ ایران مخلوع و معدوم سے بھی انہوں نے سبق نہ سیکھا، جسے مرنے اور دفن ہونے کی بھی مہلت اپنی سرزمین پر امریکہ اور اس کے حواریوں نے نہ دی اور اس کی جمع کروائی گئی رقم جو امریکی بینکوں میں تھی، اس پر قبضہ کر لیا گیا، حالانکہ وہ دولت تو ایرانی عوام کی تھی۔ اس داستانِ عبرت آموز و غم انگیز کے اور بھی بہت پہلو ہیں، لیکن آج کی نشست میں اتنا ہی کافی سمجھیے اور تیل فروشوں اور اسلحہ کے خریداروں سے ایک مرتبہ پھر کہنے دیجئے کہ: "اب بیچو تیل"
خبر کا کوڈ : 858537
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش