0
Friday 24 Apr 2020 12:00

ماہ رمضان اور جاری ہنگامہ خیزیاں

ماہ رمضان اور جاری ہنگامہ خیزیاں
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

مولائے کائنات حضرت علیؑ کا فرمان زندگی کی حقیقتوں اور انسان کی ناتوانیوں سے بار بار پردہ اٹھاتا رہتا ہے، حضرت فرماتے ہیں کہ میں نے ارادوں کے ٹوٹ جانے سے خدا کو پہچانا۔ وہ فقط خدا ہی ہے جس کا ارادہ کبھی ٹوٹتا نہیں ہے، جب وہ کسی چیز کا ارادہ فرما لیتا ہے اور کہتا ہے ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۔ مفسرین کرام کہتے ہیں کہ یہ ہو جا کہنا صرف سمجھانے کے لیے ہے، ورنہ وہ کہنے کا محتاج نہیں ہے، اس کا ارادہ ہی وقوع ہوتا ہے، ارادے اور واقع کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہے۔ اس سال کے آغاز تک ہم بہت سے منصوبے بنا رہے تھے کہ یہ کریں گے اور یہ نہیں کریں گے، اس ملک کی سیر کو جائیں گے اور اتنے دن رہیں گے، یہ مقامات دیکھیں گے۔ تعلیمی ادارے اور طلباء اپنی اپنی حکمت عملی سے  تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے اور  گرمیوں کی چھٹیوں تک کا کلینڈر آچکا تھا۔ سب کچھ روٹین کے مطابق جاری تھا کہ اللہ نے ایک ارادہ فرما لیا اور جب ارادہ فرما لیا تو پوری دنیا کے ارادے ٹوٹ گئے۔ ایک منٹ لیٹ نہ ہونے والی فلیٹس پہلے ہفتوں لیٹ ہوئیں اور پھر ٹکٹ غیر معینہ مدت کے لیے منسوخ کر دیئے گئے کہ اب جس کا ارادہ حاکم ہوچکا ہے، وہ کرم فرمائے گا تو ہی کاروبار زندگی چلے گا۔

ویسے تو پاکستان میں ماہ مبارک رمضان کی آمد کے ساتھ ہی کئی طرح کی ہنگامہ خیزیاں شروع ہو جاتی ہیں، ان میں سب سے اہم جس نے پہلے ذہنی کوفت میں ڈالے رکھا اور اب ہمیں اس کی عادت ہوگئی ہے، وہ ماہ مبارک رمضان کے چاند کے حوالے سے مفتی پوپلزئی اور مفتی منیب الرحمن کے درمیان ہونے والا شدید اختلاف ہے۔ کئی حکومتیں تبدیل ہوگئیں مگر یہ مسئلہ حل نہ ہوسکا۔ کہا جاتا ہے کہ مفتی پوپلزئی صاحب کا موقف ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ روزہ رکھا جائے، اس کے لیے وہ پشاور سے بھی اپنا چاند نکال ہی لیتے ہیں۔ شریعہ اکیڈمی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق نے بہت خوب لکھا کہ لوگ پوچھتے ہیں کہ مسجد قاسم علی خان سے اعلان ہوا یا نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ آج تک ایسا ہوا کب ہے کہ وہ رمضان یا شوال کا چاند دیکھے جانے کا اعلان کیے بغیر اٹھے ہوں؟ رات کو بھی یہ ہنگامہ خیزی بہت دیر تک جاری رہی، مرکزی روئیت ہلال کمیٹی نے اعلان کر دیا تھا کہ چاند نظر نہیں آیا، پھر بھی پورا میڈیا پوپلزئی کو مسلسل کوریج دیتا رہا اور ان کے اعلان کو لائیو نشر کیا گیا کہ آج روزہ ہوگا اور آج کے پی کے میں روزہ ہے۔

عجیب تضاد ہے کہ کے پی کے گورنمنٹ اپنی نامزد کردہ صوبائی روئیت ہلال کمیٹی کے فیصلے پر عمل نہیں کرتی بلکہ ریاستی کمیٹی کے مقابل ایک پرائیویٹ کمیٹی  کے فیصلہ پر عمل کرتی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مسئلہ مسلک کا ہے، آج مفتی منیب الرحمن کی جگہ کسی ایسے شخص کو کمیٹی کا چئرمین لگا دیں، جو پوپلزئی صاحب کے ہم مسلک ہوں تو یہ مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا۔ یہ اصل میں مخالف مسلک کو رگڑا لگانے کی ضد ہے، جس نے پورے پاکستان کو بالعمول اور کے پی کے کو بالخصوص بری طرح اپنی لپٹ میں لے رکھا ہے۔ کرونا کی وجہ سے ایک اور ہنگامہ برپا ہے کہ اجتماعی عبادات کا سلسلہ روک دیا جائے۔ لاک ڈاون کے ابتدائی دنوں میں ایسا ہی کیا گیا تھا کہ مساجد میں فقط انتظامیہ کے چند لوگ ہی جماعت کے ساتھ نماز ادا کر رہے تھے۔ مفتی منیب الرحمن اور مفتی تقی عثمانی صاحب نے لاک ڈاون سے مساجد کو مستثنیٰ کرنے کا اعلان کر دیا۔ جس سے حکومتی حلقوں میں بے چینی پھیلی اور عوامی سطح پر بھی بہت اضطراب پایا گیا کہ وہ کس کے فیصلے پر عمل کریں۔؟

صدر پاکستان عارف علوی صاحب نے جید علمائے کرام کی میٹنگ بلائی، جس میں بیس نکات پر اتفاق کیا گیا اور مساجد میں نماز تراویح وغیرہ کی اجازت دے دی گئی۔ ان شرائط کو ملاحظہ کیا جائے اور عام مساجد میں ان کے نفاذ کو دیکھا جائے تو خوف آتا ہے کہ یہ فیصلہ پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا المیہ بن سکتا ہے۔ یہاں آج بھی کندھے سے کندھا اور گھٹنے سے گھٹنا ملا کر نماز ادا کی جا رہی ہے۔ ایک شخص پورے محلے کو متاثر کرنے کا باعث بن سکتا ہے بلکہ بن رہا ہے، جیسا کہ ایف 6 اسلام آباد کی مسجد کا کیس سامنے آرہا ہے، جہاں کے امام کرونا سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ جب ہمیں معلوم  ہے کہ ہمارے عوام احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کرتے تو انہیں ہلاکت کی اجازت دینا سمجھ سے بالا تر ہے۔ اب مفتی منیب الرحمن اور مفتی تقی عثمانی سمیت بڑے مفتیان کرام کے بارے میں میڈیا پر آرہا ہے کہ وہ گھر میں ہی نماز تراویح پڑھیں گے۔ اس پر عوامی حلقوں میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ یہی حکم پورے پاکستان کے لیے بیان کر دیتے تو سب کا بھلا ہو جاتا اور انتظامیہ ہر مسجد کو چیک کرنے کی مصیبت سے بھی بچ جاتی۔

ماہ مبارک رمضان کی آمد کے ساتھ ہی اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ بہت سی اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کر دی جاتی ہے، جس سے عوام کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ اس بار یوٹیلٹی سٹورز کی ہڑتال اس میں مزید  شدت پیدا کر رہی ہے۔ یہ ہنگامہ خیزی الگ سے وبال جان بنی ہوئی ہے۔ ماہ رمضان  کی آمد اور کرونا متاثرین کی امداد کے لیے منعقد پروگرام جس میں وزیراعظم اور مولانا طارق جمیل موجود تھے، کو بہت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سوشل و الیکٹرونک میڈیا پر ایک ہنگامہ برپا ہے۔ مولانا طارق جمیل نے صحافیوں کو جھوٹا کہا، اس پر صحافی برادری ان سے شدید برہم ہے اور دوسری طرف انہوں نے کہا کہ عمران خان کو ایک اجڑا ملک ملا تھا، اس بیان پر مسلم لیگ نون شدید تنقید کر رہی اور اعداد و شمار پیش کر رہے ہیں کہ چھ فیصد شرح نمو سے ترقی کرتا ملک ان کے حوالے کیا تھا، آج صورتحال کہاں پہنچ چکی ہے۔؟

ماہ مبارک رمضان عبادتوں کا مہینہ ہے۔ اس میں خدا سے اپنے تعلق کو مضبوط کیا جاتا ہے اور مخلوق خدا کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرکے اس کے ذریعے اللہ کو راضی کیا جاتا ہے، مگر اس سال یہ عجیب صورتحال درپیش ہے، ہر طرف افراتفری کا سماں ہے۔ وہ اطمنان جو ماہ رمضان کا خاصہ ہے، اسے ہماری بے صبری اور غیر ضروری امیدوں نے دھندلا سا دیا ہے۔ امید ہے جب دسترخوان خدا بچھے گا تو یہ بے یقینی ختم ہو جائے گی اور انسانیت اس ماہ کے صدقے میں سکون و اطمنان پائے گی، ان شاء اللہ۔
خبر کا کوڈ : 858700
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش