2
Monday 27 Apr 2020 06:58

مولانا طارق جمیل اور علامہ سید جواد نقوی کی حالیہ مخالفت کیوجہ کچھ اور مسئلہ کچھ اور ہے

مولانا طارق جمیل اور علامہ سید جواد نقوی کی حالیہ مخالفت کیوجہ کچھ اور مسئلہ کچھ اور ہے
تحریر: امجد عباس مفتی

مولانا طارق جمیل صاحب نے میڈیا سے متعلق جو کہا؛ اگرچہ انہوں نے اس پر معذرت کر لی، تاہم کیا یہ وہی کچھ نہ تھا، جو دن رات کہا جاتا ہے؟ کیا زرد صحافت، لفافہ صحافی جیسی اصطلاحات ہمارے لیے نئی ہیں؟ کیا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اپنے مفادات کے پیش نظر واضح دھڑوں میں تقسیم نہیں ہے؟ مولانا نے اس بارے میں کیا غلط کہہ دیا تھا؟ کیا دن بھر دی جانے والی خبروں میں کوئی ایک بھی جھوٹی نہیں ہوتی؟ ایسا دعویٰ کون کرسکتا ہے؟ پھر یہ شور کیوں اٹھا؟ اس کی وجہ شاید کچھ اور ہے، جن لوگوں کو مولانا موصوف سے علمی بنیادوں پر اختلاف ہے تو تبلیغی نصاب کی کتاب "فضائل الاعمال" کے واقعات پر بھی انہیں اعتراض ہونا چاہیئے۔ جہاں تک مولانا کی روش کی بات ہے تو وہ ہر دور میں حکمرانوں سے رابطے میں رہے ہیں۔ اس رابطے کی وجہ سے ہر دور میں ان کے مدح خواں اور ناقد ہی بدلے ہیں، مولانا نہیں۔

مرحومہ کلثوم نواز کا جنازہ پڑھانے اور مغفرت کی دعا کرنے پر ایک سیاسی گروہ نے مولانا پر خوب تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ ساری قوم اس عمل پر مولانا سے نالاں ہے؛ جبکہ دوسرا دھڑا خوش تھا۔ اب مولانا کے مراسم موجودہ حکمرانوں سے ہیں تو ماضی کا مدح سرا طبقہ ان سے نالاں جبکہ ماضی کا ناقد طبقہ ان کے گُن گا رہا ہے۔ اب مولانا کا حالیہ ناقد طبقہ کہتا ہے کہ مولانا کے حالیہ اقدامات سے پوری قوم نالاں ہے۔ یہاں وطن عزیز میں ہر فرد خود کو بائیس کروڑ عوام سمجھتا ہے؛ ایک فرد کا نالاں ہونا گویا پوری قوم نالاں قرار پاتا ہے۔ غور کرنے سے پتہ چلے گا کہ اصل مسئلہ کچھ اور ہے اور وہ ہے مولانا کا موجودہ حکمرانوں سے، ماضی کے حکمرانوں کی طرح سے تعلق قائم کرنا؛ یہ ان کی بعض گروہوں میں حالیہ مخالفت اور بعض دھڑوں میں حالیہ حمایت کا اصل سبب ہے۔

اب آتے ہیں لاہور کے معروف عالم، استاد سید جواد نقوی کی جانب، جن کا حالیہ دنوں میں ایک کلپ سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوا ہے، جس میں محترم مولانا فرماتے ہیں کہ جمعہ واجب ہے، اس کے اجتماع اور نماز تروایح و مجالس کے اجتماع میں فرق ہے۔ نماز تراویح فرض نہیں، ایسے ہی مجالس فرض نہیں ہیں۔ حکومت وبا کے دنوں میں تراویح اور مجالس کے اجتماعات پر پابندی لگا سکتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مجالس اور نماز تراویح سے ایک گروہ کا روزگار وابستہ ہے۔۔۔۔ ایک طبقے نے مجالس کے حوالے سے مولانا کے اس بیان کو لے کر ان کی خوب گستاخی کی ہے۔۔۔ ان کا کہنا ہے کہ ذکرِ اہل بیت کسی صورت میں نہیں روکا جا سکتا، نہ اس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ ضروری نہیں ہے۔۔۔۔

یہاں بھی ہماری دانست میں معاملہ کچھ اور ہے۔ شیعی عوامی مجالس کے مزاج سے آگاہ افراد جانتے ہیں کہ موجودہ رائج مجالس میں ذکر اہل بیت کس قدر اور خطباء و ذاکرین کی خود ساختہ باتیں کس قدر بیان کی جاتی ہیں۔ انہیں یہ بھی علم ہوگا کہ عوامی مجالس میں پیش پیش ذاکرین اور خطباء، بھاری بھرکم فیسز لیے بغیر مجالس میں شریک نہیں ہوتے۔ کیا اہلِ بیت علیھم السلام کے ذکر کی باقاعدہ فیس طے کی جانا چاہیئے؟ مجالس میں کس قدر احادیث اہل بیت کو بیان کیا جاتا ہے؟ کسی مجلس کے بانی سے ہی پوچھ لیجیے کہ ایک عوامی خطیب یا ذاکر کس قدر خلوص سے مجلس میں آتا ہے یا یہ فیس ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ شریک ہوتا ہے؟ کیا سبھی عوامی مجالس میں پڑھنے والے ذاکر اور عوامی خطباء، مکتب اہل بیت سے خود باقاعدہ آگاہ ہوتے ہیں۔؟

اگر یہ سب مسائل ہیں تو علامہ سید جواد نقوی کے، موجودہ عوامی مجالس کو سامنے رکھ کر، کہے گئے چند کلمات کی بنا پر اتنے شور کی کیا توجیہ کی جا سکتی ہے؟ اسے علامہ صاحب سے فکری اختلاف کا نتیجہ قرار دینے کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ آپ مولانا طارق جمیل یا علامہ سید جواد نقوی سے لاکھ بار اختلاف کیجیے؛ لیکن یہ اختلاف منطقی بنیادوں پر ہونا چاہیئے۔ آپ تبلیغی جماعت کے نصاب اور مولانا طارق جمیل کی ہر دور میں اپنائی گئی حکمت عملی سے اختلاف کریں۔ صرف موجودہ دور میں مولانا کے حالیہ حکمرانوں سے مراسم پر انگلی اٹھانا درست نہ ہوگا۔ اسی طرح علامہ سید جواد نقوی کے حالیہ بیان پر شور کرنے سے پہلے، مجالس کو علمی بنائیں کہ ان میں صرف اہل بیت اطہار کا ذکر ہو اور ان میں خطاب کرنے والے ذاکر و خطباء، فیس کے چکر سے ماوراء ہو کر، خلوص کے ساتھ شریک ہوں؛ تب مولانا کی بات غلط قرار پائے گی۔

آپ ملک کے پچاس ذاکرین اور خطباء سے رابطہ کرکے ان سے گزارش کریں کہ ذکر اہل بیت علیھم السلام کو عام کرنے کے لیے ماہ محرم میں آپ کو مجلس کی دعوت دی جاتی ہے، جس میں آپ کو صرف آنے جانے کے اخراجات دیئے جائیں گے؛ نیز آپ نے مجلس میں خود کو صرف قرآن و احادیث اہل بیت علیھم السلام تک محدود رکھنا ہے؛ اگر پچاس میں سے دس ذاکر و عوامی خطباء یہ دعوت قبول کر لیں تو علامہ سید جواد نقوی کے حالیہ کلپ کی تردید کی جا سکتی ہے؛ یہی کہا جائے گا کہ علامہ صاحب نے وہی کہا جو سبھی جانتے ہیں۔ ان مخالفت کیے جانے کی وجہ کچھ اور ہے۔
خبر کا کوڈ : 859185
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش