0
Monday 27 Apr 2020 11:47

کورونا وائرس کے عالمی اثرات

کورونا وائرس کے عالمی اثرات
تحریر: ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی

کورونا وائرس پوری انسانیت کا مشترکہ دشمن ہے. دنیا بھر کے ماہرین یہ بیان کرنے سے قاصر ہیں کہ یہ وائرس بحران آخر کب تک، کتنے مہینے یا کتنے سال تک جاری رہے گا۔ بعض کا خیال ہے کہ ابھی خاتمہ بہت دور ہے، ابھی تو ہم نے شاید آدھا وقت بھی نہیں گزارا اور یہ وائرس ابھی دنیا میں مزید پھیلے گا اور یہ بھی ڈر ہے کہ جو ممالک اس سے ایک مرتبہ نجات حاصل کرنے میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے، وہاں یہ دوبارہ پھیل سکتا ہے۔ انسانی صحت کے اس دشمن پر انسانیت کو اس وقت فتح نصیب ہوگی، جب اس کی ویکسین ایجاد اور وائرس سے پیدا ہونے والی بیماری کا سدباب کرے گی، وگرنہ انسانی صحت کے اس دشمن کی انسانیت کے خلاف طولانی مدت تک جنگ جاری رہے گی، جس کے نتیجے میں اس مرض کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ اور بھی متعدد بحران جنم لیں گے، جو شاید اس مرض سے بھی زیادہ مہلک اور خطرناک ہوں، جن میں سے ایک خطرناک بحران معاشی بحران ہے، جس سے بیروزگاری میں ناقابل برداشت حد تک اضافہ ہونے کا خطرہ ہے، جو خود دیگر کئی ایک بحرانوں کا موجب بن سکتا ہے۔

حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس وباء کے پھیلاو کو روکنے اور علاج و معالجہ کے لئے دوا و دیگر تمام تر لازمی خدمات و سہولیات اپنے ملک کے شہریوں کے لئے فراہم کرے. اس کے بعد ہمارے ماہرین صحت اور ڈاکٹر صاحباں کو بھی اپنی تمام تر علمی و تحقیقی و عملی صلاحیتوں کو بروکار لانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ملک کے تمام بااثر طبقات کا بھی فریضہ بنتا ہے کہ وہ اس وباء کا مقابلہ کرنے کے لئے عوام و حکومت کا ساتھ دیں۔ پاکستان کے نامور مذہبی و سیاسی رہنماء اور مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب نے 21 اپریل 2020ء کے انٹرویو میں دو انتہائی اہم نقطوں کو بیان کیا۔ بالخصوص دوسرا نقطہ بہت اہم ہے کہ کورونا کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ اور اگر یہ صورتحال طویل عرصے تک برقرار رہتی ہے تو ہم زندگی کا سرکل کرونا کے ساتھ جاری و ساری رکھ سکیں، حکومت اور ماہرین کو کرونا کے ساتھ زندگی گزارنے اور انہوں نے کرونا کا مقابلہ کرنے کا حل ایجاد کرنے کی طرف متوجہ کیا ہے۔

1۔ ہمارے علماء و مراجع کرام نے واضح طور پر کہا ہے کہ وباء کے پھیلاو کو روکنے کے لئے "ماہرین صحت اور ڈاکٹر حضرات جو ہدایات دیتے ہیں، ان پر عمل کرنا شرعاً لازم ہے۔"
2۔ ایک بات میں نے پرائم منسٹر صاحب سے یہ بھی کہی کہ اس وقت دنیا میں یہ بات عام ہے؛ پتہ نہیں کتنا عرصہ یہ کرونا کی وبا رہے گی، لہذا طویل عرصے کے لیے ملک کو بند نہیں کیا جا سکتا اور زندگی کو نہیں روکا جا سکتا۔ لہذا کرونا وائرس کے ساتھ زندگی گزارنے پر بھی سوچا جائے۔ لائف ود کرونا کیسے ہونی چاہیئے، تاکہ ہمارے اسکول بھی کھل جائیں، ہمارے کالج یونیورسٹیاں بھی کھل جائیں، ہمارے کاروبار اور کارخانے بھی کھل جائیں اور ہم کرونا کے ساتھ زندگی بھی گزار اور اس سے محفوظ بھی رہ سکیں۔ یہ بہت اہم چیز ہے، فقط اسی پر ہی نہ لگے رہیں کہ ہم نے لاک ڈاؤن کی طرف ہی جانا ہے، بلکہ جب یہ ایک طویل مرحلہ ہے اور جلدی ختم ہونے والا نہیں ہے تو ہمیں کرونا کے ساتھ زندگی گزارنے کے حوالے سے بھی عوام کی راہنمائی کرنی چاہیئے۔ ماہرین کو بیٹھنا چاہیئے، ایک لائحہ عمل تیار کرنا چاہیئے اور میں نے یہ بھی کہا کہ یہ جو 20 نکاتی لائحہ عمل یا ہدایت نامہ ہے، اس پر عمل کرتے ہوئے ہم کرونا کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں۔ اگر اس میں مزید نکات لانے کی ضرورت ہے تو لائے جائیں اور قوم کو ایجوکیٹ کیا جائے، کیونکہ کوئی ملک چار مہینے، پانچ مہینے سال یا دو سال زندگی کو نہیں روک سکتا، کوئی دنیا کا ملک نہیں چل سکتا۔ لہذا ابھی سے تیاری ہونی چاہیئے، آمادگی ہونی چاہیئے، تاکہ کرونا کے ساتھ زندگی کے اصولوں کا طریقہ بھی سیکھ سکیں اور معاشی و تعلیمی حوالے سے ہر لحاظ سے زندگی بھی رواں دواں رہے۔"

اس بحران نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ
1۔ گلوبلائزیشن کا نظریہ بالکل فیل ہوچکا ہے، یہ تو اندر سے بالکل کھوکھلا نکلا۔ اس وائرس کے پھیلاو کو روکنے والا اور پوری دنیا کی انسانیت کو اس خطرناک دشمن سے بچانے والے اور دشمن کے حملے کا دفاع کرنے والے کسی عالمی نظام کا وجود نظر نہیں آیا۔ افراتفری کا منظر ہے، ہر ملک اپنی اپنی سرحدوں اور پھر مختلف صوبے، شہر اور علاقے بھی اپنی حدود کو بند کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ مشکل وقت میں ہر ایک تنہائی سے دشمن کا مقابلہ  کر رہا ہے۔
2۔ لوگوں کو اس بات کا یقین ہوتا جا رہا ہے کہ انتظامی طور پر ایک مضبوط حکومت اور نظام ہی انہیں بحرانوں سے نکال سکتا ہے۔
3۔ دنیا میں انسانوں کا بنایا ہوا ڈیموکریٹک نظام بھی اب زیر سوال ہے اور اب دنیا سوچ رہی ہے کہ انتخابات کے رائج نظام میں بھی اصلاحات لانے کی ضرورت ہے، انتخابی صندوقچیوں کے معیار پر انحصار کے علاوہ دیگر مختلف معیار ایجاد کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

1991ء کو جب روسی اتحاد کے ٹوٹنے کے بعد مشرقی بلاک کا خاتمہ ہوا اور دنیا پر امریکی و مغربی بلاک کا غلبہ ہوا تو امریکہ نے پوری دنیا کو اپنے قبضہ میں لینے کے لئے نئے عالمی نظام (new world order) کا اعلان کیا اور مختلف بین الاقوامی اداروں جن میں آئی ایم ایف، عالمی بنک، عالمی تجارت کی تنظیم وغیرہ کے ذریعے دنیا بھر کے وسائل اور مقدرات پر تسلط بڑھانے لگا اور اسی سیاست کی تکمیل کے لئے گلوبلائزیشن جیسا ظاہری طور پر خوبصورت نظریہ پیش کیا۔ سادہ الفاظ میں گلوبلائزیشن ایسا عالمی نظام ہے، جو علم و ٹیکنالوجی کی ترقی اور کمیونیکشن کی دنیا میں انقلاب اور سکیورٹی و مواصلات و روابط کے مختلف جدید ترین آلات و وسائل کی بنیاد پر قائم ہے۔ ان کی نگاہ میں پوری دنیا اب ان کے زیر تسلط ایک چھوٹے سے گاوں کی مانند ہے اور بین الاقوامی قوانین و سرحدوں کی پرواہ کئے بغیر وہ جو کچھ بھی اپنے مفادات کے لئے کرنا چاہتے ہیں، کر گزرتے ہیں۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کو بھی بری طرح استعمال کرتے ہیں، لیکن جہاں یہ ادارے رکاوٹ بنتے نظر آئیں، تب بھی جو چاہتے، کر گزرتے ہیں۔ اس کی واضح مثال مسلم ممالک پر امریکہ کی مسلط کردہ جنگیں اور یکطرفہ معاشی پابندیاں ہیں۔

لیکن کورونا وائرس کے دنیا میں پھیلاو کے بعد ان کے گلوبلائزیشن کے نعرے کی کلی بھی چاک ہوگئی اور علم و ٹیکنالوجی کے میدان میں ان کی ترقی کی حقیقت بھی دنیا کے سامنے کھل گئی۔ وہ مغربی ممالک اور امریکہ بالخصوص جنہوں نے پوری دنیا کے وجود کو انسانیت کش مہلک ہتھیاروں سے خطرے میں ڈال دیا ہے، ان کے کارخانے، لیبارٹریز اور ایٹمی توانائی کے ذخائر، کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں سے بھرے پڑے ہیں۔ لیکن آج اپنے ہی ممالک کے عوام کے لئے وینٹیلیٹرز اور طبی سہولیات فراہم کرنے کیلئے بے بسی اور عاجزی کے اعلانات کرتے نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے دنیا کی تباہی اور انسانیت کے قتل کے لئے تو بہت کچھ بنا رکھا ہے، لیکن دنیا کو بچانے اور انسانیت کی حفاظت و حمایت کے لئے ان کے پاس کچھ بھی نہیں۔ وہ امریکہ جو پوری دنیا پر تسلط کا دعویدار تھا، آج اس کی اپنی ریاستیں اس سے علیحدگی اختیار کرتی نظر آرہی ہیں۔ ان کا گلوبلائزیشن کا نظام مکمل طور پر فیل ہوچکا ہے۔ اب تو نفسا نفسی کا عالم ہے، ہر ایک کو بس اپنی فکر ہے۔ دنیا کو درپیش عالمی خطرات کا مقابلہ کرنے کا کوئی نظام نظر نہیں آتا۔

اس اور مستقبل میں اس جیسے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے بجائے اس کے کہ بین الاقوامی طاقتوں کے گلوبلائزیشن جیسے تصورات یا ان ممالک کی ظاہری ترقی یا پیشرفت سے امیدیں وابستہ کی جائیں کہ وہ اقوام عالم کو بحرانوں سے نجات دیں گے؛ اقوام کو اپنے پاوں پر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ مختلف ممالک کو معیشت، صنعت و تجارت، غذاء و دفاع، فارن پالیسی و تعلیم، دواء و علاج معالجہ یعنی ہر لحاظ سے خود کفالت کی طرف قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔ بے روزگار و بیکار و محتاج عوام کی مدد کرنا اچھا اور قابل قدر اقدام  ہے، لیکن وہ لوگ جو ملکی پیداوار میں اضافہ کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں، ان کی بغیر کام کے مدد کی بجائے، انہیں روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں اور حکومت وہ رقم صنعت و تجارت کی تقویت پر لگا کر چھوٹی کمپنیوں اور انفرادی کاروبار کے لئے مالی مدد اور ان کو قرضے دیکر ان کی آمدنی اور تنخواہ کی شکل میں مدد کرے۔

عملی طور دنیا تیسری عالمی جنگ میں میں داخل ہوچکی ہے۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ چین اب اکنامک کوریڈور کے ذریعے اقتصادی طور پر دنیا پر قابض ہونے والا ہے۔ دوسری طرف اس وقت امریکہ داخلی طور پر شدید بحران میں گھرا ہوا ہے۔ اس بات کا احتمال ہے کہ وہ اس بحران سے اپنی عوام اور دنیا بھر کی توجہ ہٹانے کے لئے چین کے خلاف محدود یا وسیع پیمانے پر جنگ شروع کرے۔ اس جنگ میں نہ تو امریکہ چائنا پر قبضہ کرسکے گا اور نہ چائنا امریکہ پر مسلط ہوسکے گا اور شاید اس جنگ کا ایک دوسرے پر تسلط یا قبضہ کرنا ہدف ہی نہ ہو، لیکن اگر یہ جنگ چھڑ جاتی ہے تو پاکستان چونکہ اکنامک کوریڈور کے دھانے پر واقع ہے، اس کے لئے بہت خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ نتیجے کے طور پر دونوں بڑی طاقتیں مذاکرات کی طرف جائیں گی، جو کہ ہر جنگ کا منطقی نتیجہ ہوتا ہے اور دنیا میں تک قطبی نظام کی بجائے متعدد قطبی نظام وجود میں آئے گا اور جو ممالک جتنے خود مختار اور خود انحصار ہونگے، اتنا ہی نئے عالمی نظام کے فیصلوں میں ان کا عمل دخل ہوگا۔ خدا کرے کہ ہمارے حکمران اس نازک دور میں باہمی رسہ کشی کی بجائے عوام کی خوشحالی و حفاظت اور ملک کے پائیدار امن و سلامتی اور استقلال و استحکام کی طرف متوجہ ہوں۔
خبر کا کوڈ : 859228
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش