0
Tuesday 28 Apr 2020 02:18

امریکہ، طالبان معاہدہ اور افغانستان کی غیر یقینی صورتحال

امریکہ، طالبان معاہدہ اور افغانستان کی غیر یقینی صورتحال
رپورٹ: ایس اے زیدی

افغانستان میں امن و امان کی بحالی اور 18 سال سے جاری جنگ کو کسی منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے امریکہ اور افغان طالبان کے مابین طویل مذاکرات کے بعد معاہدہ طے پایا، رواں سال 29 فروری کو ہونے والے اس معاہدے سے قوی امید ہو چلی تھی کہ افغانستان کے حالات اب بتدریج بہتری کی جانب بڑھیں گے۔ تاہم افغان فورسز، عوام، امریکی و افغان حکومت کے مفادات پر گذشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران ہونے والے حملوں نے کئی سوالات کو جنم دے دیا ہے۔ رواں ماہ کی اٹھارہ تاریخ کو طالبان کی جانب سے امریکی فوجی اڈے سے نکلنے والی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا، جس میں 6 افراد ہلاک ہوئے، اس واقعہ کے تین روز بعد طالبان کے دو مختلف علاقوں میں ہونے والے حملوں میں افغان سکیورٹی فورسز کے 28 اہلکار جاں بحق ہوئے۔ جبکہ اس سے قبل عوامی سطح پر بھی دہشتگردی کے واقعات ہوئے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان امور زلمے خلیل زاد نے طالبان سے تشدد میں کمی اور سیز فائر کرنے کا باقاعدہ مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان رمضان میں انسانی بنیادوں پر سیز فائر کریں، ملٹری آپریشنز معطل اور تشدد میں کمی کریں۔ افغان عوام اور ملک کی بہتری تمام فریقین پر منحصر ہے، تمام فریقین مشترکہ دشمن کورونا وائرس کے خلاف تمام توانائیاں کام میں لائیں۔ 

علاوہ ازیں گذشتہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی کے مابین افغانستان کے مسئلہ پر ٹیلی فونک رابطہ ہوا، دونوں رہنماوں نے طالبان کے پرتشدد حملے روکنے کے پر زور دیا ہے۔ جنگ بندی کا مطالبہ اشرف غنی حکومت کی جانب سے بھی سامنے آیا، واضح رہے کہ افغان جنگ کے دوران رمضان المبارک یا عید کے مواقع پر طالبان کی جانب سے اکثر اوقات سیز فائر کیا جاتا رہا ہے، تاہم اس موقع پر جبکہ امریکہ اور طالبان کے مابین طے پانے والے معاہدے کو تین ماہ بھی مکمل نہیں ہوئے ہیں، طالبان کی جانب سے سخت موقف سامنے آیا اور انہوں نے ماہ صیام کے احترام میں جنگ بندی کے مطالبے کو مسترد کر دیا۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے امریکی، قطری اور افغان حکومتوں کی جانب سے رمضان کے مہینے میں سیز فائر کی پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے کہا کہ یہ تجویز معقول نہیں ہے۔ معاہدے پر عمل نہ کرکے افغان حکومت امن کے قیام میں رخنہ ڈال رہی ہے۔ طالبان اسیروں کی رہائی میں مجرمانہ تاخیر اور مسلسل وعدہ خلافی کی جا رہی ہے۔ اگر افغان صدر قیام امن کے لیے مخلص ہیں تو فی الفور قیدیوں کو رہا کریں اور امن معاہدے کی پاسداری کریں، اس طرح سیز فائر کا اعلان کیے بغیر ہی امن قائم ہو جائے گا۔

طالبان کی جانب سے جاری بیان میں قابل غور بات یہ ہے کہ اس میں امریکی حکومت پر کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا، بلکہ افغان حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ معاہدہ طے پانے سے پہلے امید کی جا رہی تھی کہ شائد امریکہ خطہ کے اہم ممالک، افغانستان کے مقامی گروہوں اور افغان حکومت کو آن بورڈ لے اور کوئی نہ کوئی ‘‘بڑا‘‘ اس کا ضامن ہو، لیکن معاملات امریکہ اور طالبان کے مابین براہ راست طے پائے، گو کہ معاہدے طے پانے کی تقریب میں 50 ممالک کے نمائندے موجود تھے۔ اگر افغانستان کے اندرونی حالات کے بات کی جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان مقامی سطح پر اپنا ایک وزن اور اہمیت رکھتے ہیں، تاہم طالبان کے علاوہ بھی افغانستان میں کئی گروہ موجود ہیں، جو افغانستان کے مسئلہ کے حل میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ اس معاہدے کو تشکیل پانے سے قبل اگر افغان حکومت کو خاص طور پر، گلبدین حکمتیار کی حزب اسلامی اور حقانی نیٹ ورک کو بھی مذاکراتی عمل میں شامل کیا جاتا تو کم از کم مقامی سطح پر مسائل دیکھنے میں نہ آتے۔ دوسری جانب اگر خطہ کے ممالک کی بات کی جائے تو افغان مسئلہ میں سب سے اہم کردار پاکستان کا ہے اور امریکہ بھی اب اس کا اعتراف کرچکا ہے کہ اسلام آباد کے بغیر افغان مسئلہ کو حل نہیں کیا جاسکتا۔

امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات کرانے اور معاہدے میں پاکستان کا کردار رہا ہے، تاہم اس موقع پر اسلام آباد کو بھی بظاہر ضامن نہیں بنایا گیا، علاوہ ازیں چین، ایران اور روس ایسے ممالک ہیں، جو کسی نہ کسی طرح افغانستان سے مربوط رہے ہیں۔ ان تینوں ممالک کی بھی خواہش ہے کہ امریکہ اس خطے سے نکل جائے، لیکن واشنگٹن نے اس معاہدہ میں ان تین ممالک کو بھی شامل نہیں کیا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکہ اور طالبان کے مابین طے پائے جانے والے اس معاہدہ کا پاکستان سمیت کئی ممالک نے خیر مقدم کیا تھا اور اسے افغانستان میں امن کی جانب اہم قدم قرار دیا تھا۔ تاہم موجودہ صورتحال غیر یقینی دکھائی دے رہی ہے۔ افغان حکومت کی جانب سے تعاون نظر نہیں آرہا اور طالبان سیز فائر پر رضامند نہیں۔ اشرف غنی کی حکومت قیدیوں کے تبادے پر لیت و لعل سے کام لے رہی ہے، جبکہ طالبان کا یہ خیال ہے کہ وہ جارہانہ حملوں کے ذرہعے امریکی اور افغان حکومت کو پریشر میں رکھ سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ امریکہ، طالبان معاہدہ میں طے پایا تھا کہ بین الافغان مکالمے کے آغاز 10 مارچ سے کیا جائے گا، تاہم اب تک اس حوالے سے کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوسکی۔

علاوہ ازیں معاہدے میں شامل تھا کہ امریکی افواج 14 ماہ میں افغانستان سے انخلاء مکمل کریں گی، فریقین جنگ بندی پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں گے اور 5 ہزار گرفتار طالبان کو رہا کیا جائے گا۔ دریں اثناء افغان سرزمین پر القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں پر پابندی بھی معاہدے کا حصہ ہے۔ افغانستان سمیت خطہ میں پائیدار امن کیلئے اس معاہدے کی تمام شقوں پر عملدرآمد بہت ضروری ہے۔ تاہم ماضی میں اپنے معاہدوں اور زبان سے پھرنے والی امریکی حکومت پر اعتبار کرنا مشکل ہے۔ واشنگٹن حالات بدلتے دیکھ کر اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے میں خاصا ماہر ہے اور تحریری معاہدوں کو پیروں تلے روند کر محض اپنے مفادات کا تحفظ کرنا اس کیلئے کوئی نئی بات نہیں۔ اس معاہدے میں بعض سقم موجود ہیِں، جن کا ذکر اوپر کیا جاچکا ہے، تاہم اگر پھر بھی بین الافغان مذاکرات بہتر انداز اور اعتماد کے ماحول میں بغیر کسی بیرونی دباو کے آگے بڑھتے ہیں تو یہ اس جنگ کو کسی منطقی انجام تک پہنچانے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں خطہ کے ممالک پاکستان، چین، ایران اور ساتھ روس کا کردار انتہائی اہم ہوسکتا ہے۔ لیکن معاہدے کی یقینی کامیابی کے حوالے سے موجودہ صورتحال میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 859387
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش