0
Wednesday 29 Apr 2020 20:39

کرونا وائرس، امریکہ اور چین میں نئی سرد جنگ کا آغاز

کرونا وائرس، امریکہ اور چین میں نئی سرد جنگ کا آغاز
تحریر: علی احمدی

تجارتی جنگ کے نتیجے امریکہ اور چین کے درمیان کشیدہ تعلقات اب کرونا وائرس سے بھی متاثر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ امریکہ اور چین دونوں ایک دوسرے پر کرونا وائرس کے نقطہ آغاز ہونے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ ایک طرف عالمی ادارہ صحت (WHO) نے دنیا کے تمام ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی تمام تر توانائیاں کرونا وائرس اور اس سے پیدا شدہ کوویڈ 19 نامی وبائی مرض کا مقابلہ کرنے میں صرف کر دیں تو دوسری طرف امریکی حکام نے کرونا وائرس کے پھیلاو سے پیدا شدہ صورتحال کو سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے چین کے خلاف نئی نفسیاتی جنگ کا آغاز کر رکھا ہے۔ فرانسیسی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر 27 اپریل کی شام وائٹ ہاوس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: "ہم چین سے خوش نہیں ہیں، چین بہت جلدی اس وائرس والی بیماری کو کنٹرول کرسکتا تھا اور اسے دنیا بھر میں پھیلنے سے روک سکتا تھا۔ انہیں مقصر سمجھنے کیلئے آپ کے پاس کافی دلائل موجود ہیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہم اس بارے میں سنجیدگی سے تحقیق کر رہے ہیں۔"

ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں ایک جرمن اخبار کی جانب اشارہ کیا، جس نے لکھا تھا کہ چین کو چاہیئے کہ وہ جرمنی کو 165 ارب ڈالر ہرجانہ ادا کرے، کیونکہ اس نے دنیا بھر میں کرونا وائرس پھیلایا ہے۔ انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہ آیا امریکہ بھی ایسا اقدام انجام دے گا یا نہیں؟ کہا: "ہم اس سے زیادہ آسان کام انجام دے سکتے ہیں۔ جرمنی اس مسئلے کا جائزہ لے رہا ہے اور ہم بھی اس پر توجہ دیں گے۔ ہم اس سے کہیں زیادہ رقم کا سوچ رہے ہیں، جس کا ذکر جرمنی نے کیا ہے۔ ابھی ہم اس بارے میں حتمی نتیجے تک نہیں پہنچے۔ یہ رقم بہت زیادہ ہے۔ یہ ایک بین الاقوامی نقصان ہے۔ یہ نقصان صرف امریکہ کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا ہے۔" امریکہ کے علاوہ بعض دیگر ممالک نے بھی یہ موقف اپنایا ہے کہ کرونا وائرس کا نقطہ آغاز چین ہے، لہذا اسے دیگر ممالک کو ہرجانہ ادا کرنا چاہیئے۔ نائیجیریا میں وکلا کے ایک گروپ نے چین کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے، جس میں چین پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ نائیجیریا اور اس کے عوام کو نقصان پہنچنے کا باعث بنا ہے۔

دوسری طرف چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان اس خدشے کا اظہار کرچکے ہیں کہ ممکن ہے کرونا وائرس امریکی فوجیوں کی جانب سے چین منتقل ہوا ہو۔ گذشتہ دو سال سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے خلاف سخت پالیسیاں اختیار کر رکھی ہیں۔ امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات میں کشیدگی اس وقت پیدا ہوئی، جب امریکہ نے چین سے درآمد ہونے والی مصنوعات پر بھاری ٹیکس عائد کر دیا۔ اب امریکی حکام نے کرونا وائرس کو بہانہ بنا کر چین کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کر رکھی ہے۔ یاد رہے امریکہ کی نئی ڈاکٹرائن میں چین کو عالمی سطح پر اپنا حریف ملک قرار دیا گیا ہے اور اس کی طاقت میں روز بروز اضافے کو روکنے پر تاکید کی گئی ہے۔ رویٹرز خبر رساں ادارے کے مطابق چین کے وزیر خارجہ نے کہا ہے: "ہمارا ملک کوویڈ 19 نامی وبا کے پھیلاو سے متعلق غلط معلومات کی بھینٹ چڑھا ہے۔" اس سے پہلے بھی چین کی وزارت خارجہ نے امریکی حکام سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ امریکہ میں کوویڈ 19 نامی وبا کے آغاز سے متعلق تحقیق انجام دے کر اس کے نتائج کا اعلان کرے۔ چینی حکام کا خیال ہے کہ کرونا وائرس چین سے پہلے امریکہ میں پایا گیا تھا۔

امریکی حکام اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ چین نے اپنے ملک میں کرونا وائرس کے پھیلاو سے متعلق دنیا والوں کو بروقت اطلاع نہیں دی، جس کے باعث یہ وائرس پوری دنیا میں پھیل گیا۔ دوسری طرف وائٹ ہاوس کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ عالمی سطح پر کرونا وائرس کے پھیلاو سے کئی ہفتے پہلے اس خطرے سے آگاہ تھے اور انہیں اس بارے میں حساس اداروں کی جانب سے رپورٹس موصول ہوچکی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مربوطہ اداروں کی جانب سے خبردار کئے جانے کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ نے مناسب حفاظتی اقدامات انجام نہ دیئے اور یوں کرونا وائرس کے پھیلاو میں مدد فراہم کی۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا: "امریکی صدر کو دی جانے والی وارننگز کی تعداد 12 سے زیادہ ہے۔ یہ وارننگز صدر کو روزانہ فراہم کی جانے والی رپورٹس میں شامل تھیں۔ یہ وارننگز موصول ہونے کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ میڈیا پر کرونا وائرس کا خطرہ کم کرکے پیش کرتے تھے۔" جب امریکہ میں کرونا وائرس سے متاثرہ پہلے مریض کی تصدیق ہوگئی، تب ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ یہ وائرس زیادہ خطرناک نہیں اور ہم اس کا آسانی سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 859760
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش