QR CodeQR Code

قرآن مجید کی آیات میں مسئلہ شناخت(1)

30 Apr 2020 02:46

اسلام ٹائمز: قرآن مجید میں شناخت، اس کے ارکان اور اس سے مربوط مسائل کے بارے میں تو مفصل گفتگو ہوئی ہے لیکن قرآن میں (اصل وجود معلوم) کے بارے میں تفصیل سے بحث نہیں ہوئی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی نظر میں عالم خارج کا وجود جو سفسطہ کی نفی کا مترادف ہے مسلّم ہےـ جس کے بارے میں نہ فقط کوئی تردید کرسکتا بلکہ شک کرنے کی صورت میں اسے ثابت کرنے کا کوئی راستہ نہیں ۔ ابن سینا نے اپنی کتاب شفا میں اصل واقعیت کا انکار کرنے والوں کے لئے فکر و استدلال کا راستہ مسدود ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سوفسطائیوں کو متعلم و متاثر کرنا ہی ان کا تنہا علاج ہے۔


تحریر: محمد حسن جمالی

سارے مسلمان اس بات پر  یقین رکھتے ہیں کہ رمضان بہار قرآن ہے، چنانچہ ماہ مبارک رمضان شروع ہوتے ہی جگہ جگہ مسلمان تلاوت اور فہم قرآن کا بھرپور اہتمام کرتے ہیں۔ البتہ زیادہ مقامات پر قرآن فہمی کا اہتمام نہیں ہوتا ہے جو سبھی مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہےـ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اس مقدس ماہ میں تلاوت سے زیادہ   مسلمانان جہاں قرآن مجید کی آیات کے ترجمے اور تفسیر کو سمجھنے کا انتظام کرتے کیونکہ قرآن کریم سراپا بشریت کے لئے رحمت اور درس زندگی ہےـ جس میں انسان کی دنیوی اور اخروی زندگی کی کامیابی کے تمام اسرار و رموز  بیان ہوئے ہیں، جنہیں سمجھنے کی ضرورت ہےـ آج مسلمانوں کے لئے درپیش مشکلات اور مسائل کی بنیادی وجہ قرآن سے دوری اختیار کرنا ہے۔ یہ دین مبین کا اصلی منبع ہے جسے درست نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے کہ آج کرہ ارض پر مسلمان تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں۔ وہ مختلف فرقوں میں بٹ چکے ہیں اور ہر گروہ خود کو حق اور دوسروں کو باطل ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جبکہ حق و باطل کے معیار کو قرآن مجید نے واضح الفاظ میں بیان کیا ہے، مگر مسلمانوں نے اس عظیم کتاب کی ہدایت سے منہ موڑ کر خودساختہ معیار کے مطابق حق اور باطل کو سمجھنے کی کوشش کی جس سے تقسیم در تقسیم ہونا ان کا مقدر ٹھرا۔

فہم قرآن کے لئے مسئلہ شناخت کا سمجھنا بےحد ضروری ہے، اسی ضرورت کے پیش نظر ہم نے اس مختصر کالم میں آیت اللہ جوادی عاملی کی ایک کتاب سے مختصر مطالب کا ترجمہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے وہ لکھتے ہیں: قرآن مجید میں مسئلہ شناخت، اس کے ارکان یعنی معلم، عالم اور معلوم  سمیت شناخت کی شرائط، ذرائع اور موانع کے بارے میں مفصل گفتگو ہوئی ہے۔ قرآن مجید کی بہت ساری آیات میں انسان کا معلوم واقع ہونے والے خارجی حقائق کی طرف اشارہ ہوا ہے، جیسے آسمان، زمین، فرشتے، وحی، غیب و شہادت، قیامت و برزخ، دین و دنیا، بہشت و جہنم, ثواب و عقاب وغیرہ۔ اسی طرح بیشتر آیات میں بت پرستوں کے اوہام و خیالات اور ان کے اہداف کے باطل و غیر واقع ہونے کا واضح الفاظ میں تذکرہ ہوا ہے۔ قوہ حس، عقل اور قلبی شہود کے ذریعے عالم خارج سے انسان کے ہونے والے رابطے اسی طرح انسان کی شناخت کا معیار قرآن مجید میں بیان ہونے والے موضوعات میں سرفہرست شامل ہیں۔ قرآن مجید نے ارکان شناخت یعنی عالم، معلوم علم اور معلم  کی تصدیق کرنے کے علاوہ اللہ تعالی کو ان کےخالق ہونے کے عنوان سے یاد کیا ہے۔

قرآن مجید نے اللہ تعالی کو معلم اول ہونے کی تصریح کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ خدا اپنی ربوبیت  کی تدبیر کے بل بوتے پر عالم اور علم کے درمیان رابطہ برقرار کرنے والا ہے۔ مذکورہ مطالب بعض دیگر مسائل کے ہمراہ  شناخت قرآنی کی بحث کے لئے اصول اور بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ شناخت کا پہلا رکن معلوم کا وجود ہے۔ شناخت کے منکرین میں سے بعض سوفسطائی سے معروف ہیں، یہ ٹولہ اصل واقعیت کا انکار کرتے ہوئے وجود معلوم کا منکر ہوا ہے لیکن مادیوں (مادہ پرست) وجود معلوم کا تو انکار نہیں کرتے مگر وہ غیر مادی معلومات کے وجود کے منکر ہیں۔ توجہ رہے کہ قرآن مجید میں شناخت، اس کے ارکان اور اس سے مربوط مسائل کے بارے میں تو مفصل گفتگو ہوئی ہے لیکن قرآن میں (اصل وجود معلوم) کے بارے میں تفصیل سے بحث نہیں ہوئی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی نظر میں عالم خارج  کا وجود جو سفسطہ کی نفی کا مترادف ہے مسلّم ہےـ جس کے بارے میں نہ فقط کوئی تردید کرسکتا بلکہ شک کرنے کی صورت میں اسے ثابت کرنے کا کوئی راستہ نہیں ۔ ابن سینا نے اپنی کتاب شفا میں اصل واقعیت کا انکار کرنے والوں کے لئے فکر و استدلال کا راستہ مسدود ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سوفسطائیوں کو متعلم و متاثر کرنا ہی ان کا  تنہا علاج ہے۔

کائنات کے حوالے سے قرآن مجید میں ہونے والی مباحث اوصاف جہاں کا تجزیہ و تحلیل ہے جیسے جہاں منظم، باہدف اور حق کی نشانی ہے۔ عقلی اور فلسفی کتابوں میں کائنات میں تحقق پانے والی چیزوں کو  وجود و موجود اور تحقق نہ پانے والی اشیاء کو عدم و معدوم  سے یاد کیا گیا ہے، لیکن قرآن مجید کی آیات میں کائنات میں محقق ہونے والی چیزوں کو حق اور محقق نہ ہونے والی چیزوں کو باطل کے نام سے یاد کیا گیا ہےـ  بنابر ایں حق ایک ایسا امر ہے جو ثابت موجود اور واقعیت رکھتا ہے جبکہ باطل  ایک معدوم و غیر واقعی ہے۔ حق کی مختلف اقسام ہیں جن میں سے حق مطلق و مقید ہیے، قرآن مجید کی دو آیات میں حق مطلق  و خالص  کو اللہ تعالی کی جانب منسوب کیا گیا ہے۔ "ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡحَقُّ وَ اَنَّ مَا یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ ہُوَ الۡبَاطِلُ وَ اَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡعَلِیُّ الۡکَبِیۡرُ" یہ اس لیے ہے کہ اللہ ہی برحق ہے اور اس کے سوا جنہیں یہ پکارتے ہیں وہ سب باطل ہیں اور یہ کہ اللہ بڑا برتر ہے۔ "ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡحَقُّ وَ اَنَّ مَا یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہِ الۡبَاطِلُ" یہ اس لیے کہ اللہ (کی ذات) ہی برحق ہے اور اس کے سوا جنہیں وہ پکارتے ہیں سب باطل ہیں۔۔۔۔  ان دو آیات میں ضمیر ھو (کے اعتبار سے فرق پایا جاتا ہے کیونکہ دوسری آیت کے آخری حصے میں  (ما یدعون من دونہ الباطل)۔ ضمیر ھو موجود نہیں۔

لیکن دوسری آیت کے ابتدائی حصے اور پہلی آیت  دونوں میں ضمیر منفصل ھو یکسان طور پر استعمال ہوا ہے اور ان دونوں میں خبر الف لام کے ذریعے معرفہ ہونے کی وجہ سے مفید حصر ہے، یعنی حق خدا سے مخصوص ہے اور حق کے علاوہ ساری چیزیں باطل ہیں۔ حق مطلق کے مقابلے میں حق مقید ہے یعنی  اس کا وجود استقلالی نہیں بلکہ وہ  حق مطلق  کے سہارے سے  موجود ہے، اس کی تکیہ گاہ حق مطلق ہے۔ پس کائنات  میں جتنے بھی  مقید حق ہیں وہ  سب کے سب حق مطلق الٰہی کی نشانی  ہیں۔ حق مقید کی مثال: انّ الجنۃ حق و انّ النار حق۔ جس طرح  قرآن مجید میں   جہان کے بارے میں  تفصیل سے بحث نہیں ہوئی ہے، ویسے ہی ذات اقدس الٰہی کی حقیت جو حق مطلق و خالص ہے کو قرآن مجید نے مسلم جانا ہےـ  یہی وجہ ہے قرآن مجید میں ذات مقدس پروردگار کے بارے میں  ہونے والی مباحث اس کے اسماء حسنٰی اور صفات عالیہ  سے ہی مربوط ہیں، جیسے خدا احد، صمد، سمیع، علیم، ظاہر، باطن، فاطر، خالق، مبدی، معید، ناظم، مدبر  اور مدیر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خبر کا کوڈ: 859834

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/859834/قرآن-مجید-کی-آیات-میں-مسئلہ-شناخت-1

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org