0
Friday 1 May 2020 00:51

حکومتی ایس او پیز اور مراسم عزاداری

حکومتی ایس او پیز اور مراسم عزاداری
رپورٹ: ایس اے زیدی
 
پاکستان پر کورونا کی یلغار کے بعد حکومت نے ملک بھر میں لاک ڈاون کے احکامات جاری کرتے ہوئے ہر قسم کے سیاسی و مذہبی اجتماعات حتیٰ کہ باجماعت نماز پنجگانہ و جمعہ پر بھی پابندی عائد کر دی، حالات کے پیش نظر علمائے کرام اور عوام نے بھی مجموعی طور پر اس فیصلہ کو قبول کیا۔ تاہم وقت گزرنے کیساتھ ساتھ جہاں لاک ڈاون میں نرمی ہوئی، وہیں رمضان المبارک کی آمد کیساتھ مذہبی عبادات کی اجتماعی طور پر احتیاطی تدابیر کیساتھ انجام دہی کا مطالبہ زور پکڑتا گیا۔ اس سلسلے میں گذشتہ ہفتے مختلف مکاتب فکر کی نمائندگی کرنے والے جید علمائے کرام  کے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان کیساتھ الگ الگ اجلاس منعقد ہوئے، جن میں نماز اور تراویح کی ادائیگی کے حوالے سے ایس او پیز طے کی گئیں، جس پر تمام علمائے نے رضامندی ظاہر کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر کیساتھ عبادات کی انجام دہی یقینی بنانے کی کوششوں پر زور دیا اور عوام سے بھی اپیل کی کہ حکومتی ایس او پیز پر من و عن عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔

صدر مملکت اور وزیراعظم کے ساتھ ہونے والے اجلاس میں شیعہ مکتب فکر کی ملکر گیر نمائندہ تنظیموں مجلس وحدت مسلمین اور شیعہ علماء کونسل کے رہنماء شریک ہوئے، جبکہ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن علامہ افتخار نقوی اور علامہ امین شہیدی بھی موجود رہے۔ ذرائع کے مطابق ان ملاقاتوں میں جہاں نماز پنجگانہ اور تروایح کی مشروط اجازت دی گئی، وہیں یوم علی علیہ السلام کے حوالے سے مراسم عزاداری کی احتیاطی تدابیر کیساتھ انجام دہی کی باقاعدہ اجازت بھی دی گئی۔ صدر مملکت کے زیر صدارت اجلاس کے دوران شیعہ علمائے کرام نے حکومتی ایس او پیز پر شیعہ مکتب فکر کیجانب سے بھرپور تعاون کی یقین دہائی کرائی اور مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اس صورتحال میں شیعہ مراجع عظام کے فتاویٰ کا ذکر بھی کیا۔ اس اجلاس کے بعد علامہ امین شہیدی کی جانب سے جاری ایک ویڈیو پیغام بھی منظر عام پر آیا، جس میں انہوں نے اجلاس کی کارروائی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب صدر مملکت سے یہ پوچھا گیا کہ کیا یہ احکامات عزاداری کے حوالے سے بھی ہیں تو انکا کہنا تھا کہ ‘‘بالکل، عزاداری بھی ان احتیاطی تدابیر کے تحت کی جائے گی۔‘‘

22 اپریل کو شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی کے دفتر سے ایک علامیہ جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ عوام تین فٹ کے فاصلے سے نمازہ پنجگانہ، نماز جمعہ، مجالس و جلوس منعقد کریں، البتہ احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کریں۔ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کی جانب سے 19 اپریل 2020ء کا جاری کردہ مکتوب درست تھا، لیکن یہ حقیقت سامنے آئی کہ ماہرین طب بشمول عالمی ادارہ صحت کی طرف سے طے ہوچکا اور ہر سطح پر تسلیم کیا جاچکا ہے کہ کورونا وائرس سے بچنے کیلئے سماجی فاصلہ 3 فٹ ضروری ہے۔ بنابریں مساجد و امام بارگاہیں کھلی رہیں گی۔ اس صورتحال میں جہاں اہلسنت مکتب فکر نماز تراویح اور اہل تشیع عزاداری امام علیہ السلام جبکہ تمام مسلمان مجموعی طور پر نماز باجماعت کے حوالے سے حکومتی ایس او پیز مطمئن نظر آرہے تھے، وہیں سندھ حکومت کی جانب سے اچانک عجلت میں ایک ایسا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا ہر قسمی مذہبی اجتماعات اور جلوسوں پر پابندی کا ذکر تھا، جس پر ملت تشیع میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔

واضح رہے کہ علمائے کرام کی صدر مملکت اور وزیراعظم عمران خان کیساتھ ہونے والی ملاقاتوں کے میں طے پانے والے فیصلہ جات پر تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو اعتماد میں لیا گیا تھا اور متفقہ طور پر 20 نکاتی لائحہ عمل تیار کیا گیا تھا اور پھر اس متنازعہ نوٹیفکیشن کے دو روز بعد ہی سندھ حکومت نے لاک ڈاون میں نرمی کا اعلان کر دیا، تاہم یوم علی علیہ السلام کی مجالس اور جلوسوں کے حوالے سے وضاحت نہیں کی گئی۔ اب جبکہ رمضان المبارک کا پہلا ہفتہ اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے، اور ملک کے مختلف علاقوں میں شہادت امام علی علیہ السلام کی مجالس کا آغاز 15 رمضان کے بعد ہو جاتا ہے، اس صورتحال میں عزادار اب بھی قدرے پریشانی کا شکار ہیں، کیونکہ ماضی میں مختلف بہانوں سے عزاداری کے جلوسوں اور مجالس پر پابندیوں کا سلسلہ جاری رہا، کبھی علمائے کرام و ذاکرین پر ضلع اور زبان بندیاں، اجازت ناموں کے باوجود ایف آئی آرز کا اندراج، کہیں ایمپلیفائر ایکٹ، کبھی سولہ ایم پی او یا پھر معین وقت سے زیادہ مجالس جاری رکھنے پر کارروائیاں کی گئیں۔

کورونا ایمرجنسی میں جہاں حکومت بھی محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے، وہیں عزادار اور بانیان مجالس و جلوس یوم علی علیہ السلام کے حوالے سے حکومت اور علمائے کرام کی گائیڈ لائن کے منتظر ہیں، طے کردہ ایس او پیز کے نکات تو سامنے آچکے ہیں، تاہم اس پر شیعہ مکتب فکر کے پیروکاروں کو تفصیلی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ تاکہ ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں اس دوران کسی بھی قسم کی محاذ آرائی یا مشکل سے بچا جاسکے، اس کیلئے ضروری ہے کہ جتنی جلد ممکن ہو شیعہ نمائندہ تنظیموں کی قیادت باقاعدہ طور پر حکومتی ایس او پیز، احتیاطی تدابیر اور اس مخصوص صورتحال میں مجالس و جلوسوں کے انعقاد کے حوالے سے گائیڈ لائن فراہم کرے اور اس کو نچلی سطح تک پہنچانے کیلئے اپنے تنظیمی ڈھانچہ کو فعال کرے، دوسری جانب عزاداروں، بانیان مجالس، علمائے کرام، خطباء، ذاکرین اور بانیان مجالس کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ شیعہ قیادت اور حکومت کے مابین طے پانے والے امور پر من و عن عمل کرتے ہوئے اپنے مذہبی فریضہ کی ادائیگی کرے، تاکہ کس بھی طرح اس مہلک وائرس کو پھیلنے کا موقع نہ مل سکے اور انسانی جانوں کو محفوظ رکھا جاسکے۔
خبر کا کوڈ : 860016
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش