1
Friday 1 May 2020 15:44

کرونا سے بھی زیادہ خطرناک بیماریاں

کرونا سے بھی زیادہ خطرناک بیماریاں
تحریر: ذاکر حسین 
Zakirmir5@yahoo.com

کوویڈ 19 سے کم و بیش ہر انسان متاثر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 28 لاکھ افراد اس وائرس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، جن میں سے دو لاکھ کے قریب لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ دنیا کے محفوظ ترین لوگ بھی اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں اور خوف و ہراس کی ایک عجیب کیفیت میں مبتلا ہیں۔ اس وائرس کے حوالے سے سب سے زیادہ خوفناک بات یہ ہے کہ یہ تیزی کے ساتھ پھیلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں اور اس وبائی مرض کو شکست دینے کے لئے اپنی اقتصادی، علمی اور ترقیاتی سرگرمیوں کو ترک کر بیٹھے ہیں۔ ہمارے اردگر گرد ایسی ہی بہت ساری موذی اور مہلک بیماریاں ہیں، جن کا یا تو ہمیں علم نہیں یا ہم انہیں سنجیدہ نہیں لیتے۔ منشیات کو ہی لیجئے، کیا یہ تیزی کے ساتھ پھیلنے والی بیماری نہیں۔؟ کیا اس سے نسلیں تباہ نہیں ہوئیں۔؟ کتنے گھر اس موذی بیماری کی وجہ سے ویران ہوئے ہیں۔؟ کتنے معصوم بچے اس بیماری کی وجہ سے آوارہ ہوئے ہیں۔؟ ہمارے اردگرد کتنے ایسے لوگ ہیں، جو اسی موذی مرض میں مبتلا ہوئے اور دیکھا دیکھی میں اپنی جائیداد، نوکری اور مقام و منصب کو گنوا کر گلی کوچوں میں بھیک مانگ رہے ہیں؟ یہ ایک واضح اور عام سی  مثال ہے، جو گھر سے نکلتے ہی ہمارے لئے قابل مشاہدہ ہے۔ وگرنہ بہت ساری دوسری ایسی بیماریاں ہیں، جو تیزی سے پھیلتی بھی ہیں اور صرف چند لوگوں کو ہی نہیں بلکہ نسلوں کو تباہ و برباد کرتیں ہیں۔

انسان جسم اور روح کا مرکب ہے؛ جہاں جسم کے لئے مضر اور نقصان پہنچانے والے وائرس موجود ہیں، وہاں روح بھی بہت ساری بیماریوں سے متاثر ہوتی ہے۔ روحانی اور جسمانی بیماریوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے؛ ان میں سے جو بھی کسی بیماری میں مبتلا ہو تو دوسرا اس سے ضرور متاثر ہوتا ہے۔ بہت ساری جسمانی بیماریاں ایسی ہیں، جو روح پر بھی اپنا اثر چھوڑتی ہیں، اسی طرح بہت ساری روحانی بیماریاں جسم کی سلامتی کے لئے خطرے کا باعث بنتی ہیں۔ دینی تعلیمات میں روحانی بیماریوں (گناہ) اور جسمانی بیماریوں کے درمیان موجود شباہتوں کا ذکر ملتا ہے، جنہیں ہم یہاں پر خلاصہ کے طور پر بیان کریں گے۔ جسمانی بیماریوں میں بعض کا علاج آسان ہوتا ہے اور بعض کا مشکل۔ اسی طرح گناہ بھی بعض اوقات کبیرہ ہوتے ہیں اور بعض اوقات صغیرہ۔ بیماری جس قدر ہلکی ہو، اسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیئے، اسی طرح گناہ کو بھی چھوٹا سمجھ کر اگنور نہیں کرنا چاہیئے۔ بعض بیماریاں والدین کی طرف سے بچوں میں منتقل ہوتیں ہیں، اسی طرح بعض گناہ بھی والدین سے ہی بچوں میں منتقل ہوتے ہیں۔

بیماریوں کے علاج میں پرہیز کا کلیدی کردار ہے، اسی طرح گناہ سے بچنے میں بھی پرہیز کا بنیادی کردار ہے۔ جس طرح مریض مزیدار کھانوں کے ذائقہ سے محروم رہ جاتا ہے، اسی طرح گناہ سے آلودہ ہونے کے بعد بھی عبادت کا مزہ نہیں رہتا۔ جس طرح بعض بیماریوں کے لئے ویکسین ہے، اسی طرح بعض اچھے اعمال گناہوں کے لئے ویکسین ہوتے ہیں۔ جس طرح مریض کی سرزنش اور ملامت نہیں ہوتی، اسی طرح گناہگار کی بھی سرزنش سے اجتناب کیا جانا چاہیئے۔ بعض بیماریاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مہلک ثابت ہوتیں ہیں، اسی طرح بعض گناہ بھی ایک مدت کے بعد روح کی ہلاکت کا سبب بنتے ہیں۔ جس طرح بیماریوں سے بچنے کے لئے چیک اپ ضروری ہے، اسی طرح گناہوں سے محفوظ رہنے کے لئے محاسبہ ضروری ہے۔ جس طرح بعض بیماریاں کسی علامت کو ظاہر کئے بغیر جڑیں پکڑتیں ہیں، اسی طرح بعض گناہ بھی اندر ہی اندر میں اپنی جڑیں مضبوط کر لیتے ہیں۔ جس طرح جسمانی بیماریوں کے علاج کے لئے طبیب حاذق کی طرف رجوع ضروری ہے، اسی طرح روحانی بیماریوں کے علاج کے لئے بھی ماہرین کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔

مذکورہ موازنہ سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ بیماری چاہے جسمانی ہو یا روحانی، دونوں کے اثرات تباہ کن ہیں، دونوں کے لئے علاج کی ضرورت ہیں، دونوں پھیلتی ہیں، ایک عرصہ گزرنے کے بعد دونوں لاعلاج قرار پاتیں ہیں، دونوں کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے، دونوں میں پرہیز کی اشد ضرورت ہے اور دونوں بعض اوقات لوگوں کی پرسنل لائف تو کبھی اجتماعی زندگی کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔ کرونا کا یہ احسان ہے کہ ہم اس بات کو سمجھ گئے کہ بیماریوں کی روک تھام کے لئے کس قدر سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس موذی وائرس کی حد تک تو ہم نے یہ ثابت کر دیا کہ اس سے نمٹنے کے لئے ہم سب ایک ہیں۔ وائرس سے متاثرہ ملکوں میں حکومت، فوج، میڈیکل سے وابستہ لوگ، قانون نافذ کرنے والے ادارے، کاروباری حضرات، مزدور طبقہ، ملازمین، میڈیا اور اس سے وابستہ لوگ غرض زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہاتھوں میں ہاتھ دے کر کرونا کے خلاف الرٹ ہیں۔

ہر کسی کی زبان کا ورد یہی ہے کہ ہم کرونا کو شکست دیں گے۔ اس جذبہ کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے اور اس حد تک کسی کو اختلاف بھی نہیں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم دیگر ہزاروں مہلک اور پھیلنے والی روحانی یا جسمانی بیماریوں کے حوالے سے بھی سنجیدہ ہیں؟ کیا چوری، ڈکیتی، ظلم، زیادتی، قتل، خودکشی اور آوارگی وغیرہ کسی بیماری ہی کے نتائج نہیں ہیں۔؟ منشیات کی بیماری میں مبتلا لوگ بیک وقت چند ایک بیماریوں سے لڑ رہے ہوتے ہیں؛ جگر، کینسر، ایڈز اور پھیپھڑوں کے امراض نشہ کی وجہ سے ہی پھیلتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ سے زیادہ لوگ تمباکو نوشی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ہم کیوں یہ اور اس جیسی ہزاروں دیگر بیماریوں سے غافل ہیں۔؟ آپ کیا سمجھتے ہیں یہ روز ہمیں قتل و غارت، عصمت دری، معصوم بچیوں کے ساتھ زیاتی، معمولی رقم کے لئے قتل وغیرہ کی خبریں سننے کو ملتی ہیں، اتفاقی ہیں۔؟

کیا جھوٹ، غیبت، رشوت خوری، سود خوری، شہوت پرستی، دنیا طلبی، سفارش، میرٹ کی پامالی، ظلم، کرپشن، جہالت، حسد، کینہ، ڈپریشن، نادانی اور خود پسندی وغیرہ جیسی بیماریوں کا معاشرے میں ہر روز رونما ہونے والے دردناک جرائم میں کلیدی کردار نہیں ہے؟ ہم ان خطرناک موذی بیماریوں کے خلاف لاک ڈاون کیوں نہیں کرتے؟ ہم پل بھر میں گھروں کو اجاڑ دینے والی اور نسل در نسل پھیلنے والی ان بیماریوں کے خلاف اکٹھے کیوں نہیں ہوتے؟ اس لئے کہ ہم عادی ہوچکے ہیں کہ صرف اسی چیز کا ساتھ دیں گے، جسے میڈیا اچھالتا ہے۔ ہمیں اپنے نفع و نقصان کی بنیاد پر قدم اٹھانا سکھایا ہی نہیں گیا۔ ہم اسی بات کو دہرائیں گے، جو ہمیں سکھائی جاتی ہے، چاہے اس کا ہمارے نفع و نقصان سے کوئی تعلق ہو یا نہ ہو! یہی وجہ ہے کہ ہم ان تمام بیماریوں سے غافل ہیں، جو ہمارے ارد گرد ہیں؛ یہ بیماریاں پھیلتی بھی ہیں، مہلک بھی ہیں، ان سے لوگ مرتے بھی ہیں، ان سے گھر بھی اجڑتے ہیں، ہزاروں بچے یتیم بھی ہو جاتے ہیں، عورتیں بیوہ بھی ہو جاتیں ہیں اور بعض اوقات پورا پورا خاندان آوارہ ہو جاتا ہے، لیکن ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے۔

نہ حکومت کوئی سنجیدہ قدم اٹھاتی ہے، نہ تاجر ہڑتال کرتے ہیں، نہ مزدور سڑکوں پر آتے ہیں اور نہ ہی سیاسی و مذہبی پارٹیوں میں کوئی حرکت نظر آتی ہیں۔ البتہ جب ان بیماریوں کے بھیانک آثار قتل، ڈکیتی، زیادتی، عصمت دری اور معصوم کلیوں کے اغوا اور پھر قتل کی شکل میں سامنے آتے ہیں تو ایک لمحہ کے لئے ہمارے اندر جذبات کا طوفان کھڑا اور پھر دوبارہ خاموش ہو جاتا ہے۔ وہ نسلیں جنہیں ظلم و زیادتی، عصمت دری، قتل و غارت اور خودکشی کی خبریں تو روز سننے کو ملتی ہوں، لیکن ان کے خلاف کوئی احتجاج، کوئی سزا یا بڑے پیمانے پر کوئی ردعمل دیکھنے کو نہ ملتا ہو تو کیا یہ آگے چل کر کمال جرات کے ساتھ انہی جرائم کا مرتکب نہیں ہوں گے؟ کیا وہ بچہ جس کے حلق میں ہمیشہ حرام لقمہ ہی اترتا رہا ہو، سود، رشوت اور حرام کھانے میں کوئی ججھک محسوس کرے گا؟ کیا روحانی اور اخلاقی بیماریاں ان نسلوں کو اپنی لپیٹ میں نہیں لیں گی، جنہوں نے اپنے بڑوں کو جھوٹ بولتے، کرپشن کرتے، دوسروں کی عزت پر ہاتھ ڈالتے، یتیموں کا مال کھاتے اور طاقت کے بل بوتے ہر جرم کا مرتکب ہوتے دیکھا۔؟ جی ہاں یقیناً ایسا ہی ہوگا بلکہ یہ ان کے لئے باعث فخر ہوگا۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام میں بعض سنگین جرائم کی سزا سرعام پھانسی ہے، تاکہ مجرم کو سزا ملتے ہوئے سب دیکھ لیں اور پھر کبھی کسی میں یہ جرات پیدا نہ ہو کہ وہ ان جرائم کا مرتکب ہو۔ لیکن ہمارے ہاں مجرموں کو سرعام پھانسی دینا تو بہت دور کی بات ہے، یہاں تو مجرم باعزت رہا ہوتا ہے۔ اقرار جرم کی ویڈیو وائرل ہوتی ہے، جس میں معصوم بچے کو زیادتی کے بعد قتل کر ڈالنے والا سفاک مجرم تمام پولیس افسران کے سامنے بڑے اطمینان سے کہتا ہے کہ مجھے پولیس نے تھپڑ تک نہیں مارا، مجھے وی آئی پی پروٹوکول ملا اور میں جیل میں نہیں بلکہ کسی مہمان خانے میں ہوں۔ پھر اس طرح کے معاشروں میں خوف کس چیز کا نام ہے؟ یہاں زیادتی اور قتل کو جرم نہیں بلکہ کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں وائرس کو روکا نہیں بلکہ  پھیلایا جاتا ہے۔

یوں مختلف جسمانی اور روحانی بیماریاں تیزی سے پھیل جاتیں ہیں اور نہ صرف پھیل جاتیں ہیں، بلکہ اگلی نسلوں میں منتقل بھی ہوتیں ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح ہم کرونا کے خلاف ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے ہیں، اسی طرح دیگر ہزاروں اخلاقی اور روحانی بیماریوں کے خلاف بھی متحد ہو جائیں، انہیں سنجیدہ لے لیں، ماہرین کی طرف رجوع کریں اور ان کے بتائے ہوئے نسخوں پر عمل کریں۔ کرونا کے خلاف دنیا بھر میں چلنے والی مہم کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ اگر لوگ کسی مسئلہ کو سنجیدہ لے لیں اور ماہرین کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کریں تو کتنی بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔ اگر اسی سنجیدگی کے ساتھ دیگر بیماریوں کا بھی مقابلہ کیا جائے تو بعید نہیں کہ ہم اپنے معاشرے کو ان تمام بیماریوں سے نجات دلا سکیں، جو کرونا سے بھی زیادہ مہلک، خطرناک اور موذی ہیں۔ مگر افسوس اس بات پر ہے کہ ہمارے ہاں ان بیماریوں سے بچنے کے لئے اور نئی نسل کو ان سے بچانے کے لئے خاطر خواہ کوششیں نہیں ہو رہیں۔
خبر کا کوڈ : 860128
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش